تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     12-04-2013

بوڑھا اور بیمار الیکشن کمیشن

اللہ کے آخری رسولﷺ کا وہی فرمان:کوئی اس دنیا سے اٹھے گا نہیں جب تک اس کا ظاہرو باطن آشکار نہ ہو جائے۔ یہ بیچارہ‘ بوڑھا اور بیمار الیکشن کمیشن! اگر یہ سپریم کورٹ نہ ہوتی، اگر چیف جسٹس افتخار چوہدری نہ ہوتے، اگرجنرل اشفاق پرویز کیانی پُر عزم نہ ہوتے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر یہ میڈیااور اس کی دس سالہ ریاضت سے پھوٹنے والی عوامی بیداری کا خوف نہ ہوتا تو صدر آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز شریف کی مفاہمت سے تشکیل پانے والا الیکشن کمیشن کیا گل کھلاتا! جعلی ڈگریاں اسے گواراتھیں، کراچی میں نئی حلقہ بندیاں مشکل ،سمندر پار پاکستانیوں کے بارے میں اب تک وہ اڑیل رہاکہ ان کے لئے ووٹ ڈالنے کا بندوبست نہیں ہوسکتا۔کیوں نہیں ہو سکتا؟ آپ سے کس نے کہا کہ سو فیصد کی شرکت یقینی ہو۔ عدالت کا حکم ہے جو کچھ ممکن ہے وہ تو کیجئے۔ یہ کیا رویہ ہے کہ نہ تو نو من تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی؟ پانیوں کے پار بسنے والے ہمارا سب سے بڑا اثاثہ ہیں ۔ رزق کی مجبوری لے گئی ،وگرنہ کس کا دل چاہتا ہے کہ اجنبی سرزمینوں میں زندگی ویران کرے۔اول ،شیخ الاسلام کی تحریک کے ہنگام بحث چھڑ گئی جس کا تاثر یہ تھا کہ دوردیس کے مکین اچھوت ہیں ۔ جذبات کے طوفان میں ایک آدمی کی مخالفت کے لئے پچاس لاکھ پاکستانیوں کی دل شکنی کا سلسلہ کئی ہفتے جاری رہا۔ اب انہیں ووٹ کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ پنجابی کی ضرب المثل یہ ہے : مایوس آدمی کو پیغام بر بنا کر بھیجا تو وہ موت کی خبر لایا۔ الیکشن کمیشن کے ایڈیشنل سیکرٹری محترم محمد افضل خان براہِ کرم ناراض نہ ہوں۔ ساری دنیا میں کہیں یہ قرینہ نہیں کہ الیکشن کمیشن ججوں پر مشتمل ہو۔ انتظامی نوعیت کا معاملہ ، نظم و نسق کی تربیت اور مزاج رکھنے والوں کے سپرد ہونا چاہیے۔ ایسا بھی قحط الرجال نہیں۔ بہت لوگ ہیں ،بہت ؎ سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے ہزار ہا شجرِ سایہ دارراہ میں ہے کئی نام ذہن میں چمک اٹھے ہیں ۔ فرض کیجئے ،ذوالفقار چیمہ کو ذمہ داری سونپ دی جاتی۔ وہ نہیں تو صاحبِ عمل کوئی اور ؎ اس بھری دنیا میں صنم تُو اکیلا تو نہیں تو نہیں اور سہی‘ اور نہیں اور سہی سمندر پار پاکستانیوں کی شرکت ضروری ہے۔صرف اس لیے نہیں کہ یہ ان کا حق ہے اور حقوق کے اعتراف سے انکار تباہی لاتا ہے بلکہ اس کے سوا بھی دلائل ہیں۔ مختلف اور بیشتر صورتوں میں وہ جدید معاشروں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ متنوع تجربات، تعلیم ان کی زیادہ اور اپنے وطن کے برعکس ایک نظم میں کام کرنے کا سلیقہ انہیں زیادہ حقیقت پسند بناتا ہے۔ جماعتِ اسلامی کا سیکرٹری جنرل بن جانے کے بعد قاضی حسین احمد پہلی بار منصبی ذمہ داری کے تحت بیرونِ ملک گئے تو واپسی پر کہا : میں مستقبل کے رہنمائوں سے مل کر آیا ہوں۔کہنے کو اسداللہ خان غالب نے کہہ دیا تھا ؎ وداع و وصل جدا گانہ لذتے دارد ہزار بار برو‘ صد ہزار بار بیآ وصال و ہجر میں سے ہر ایک کا اپنا الگ کیف ۔ ہزار بار جائو اور سو ہزار بار لوٹ کر آئو۔ سچ وہی ہے جو حسن نثار نے لکھا تھا۔ پیکر چلا جاتا ہے اور دل ہے کہ دیس کی گلیوں میں بھٹکتا رہتا ہے۔ ہم نے جب وادیِ غربت میں قدم رکھا تھا دور تک یادِ وطن آئی تھی سمجھانے کو دوری درد کو بڑھا دیتی ہے۔ گیلی لکڑی کی مانند آدمی سُلگتا رہتا ہے۔کسی اور نے نہیں اقبال نے لکھا تھا ؎ عالمِ سوزو ساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق وصل میں مرگِ آرزو، ہجر میںلذتِ طلب چھ سو برس بیتے کہ خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کے ہم نشین اس بے پناہ شاعر امیر خسروؒ نے کہا تھا ۔ شبانِ ہجر اں دراز چوں زلف، روزِوصلش چوں عمر کو تاہ سکھی،پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں میں کالی رتیاں سمندر پار پاکستانیوں کے حالِ زار کا میں نے مشاہدہ کیا ہے۔ وہ درد جو کبھی ٹلتا ہی نہیں۔ ان کا تو ذکر ہی کیا‘ جس نے چند روز بھی ان کے ساتھ بتائے ہیں‘ عمر بھر وہ بھی یاد رکھتا ہے۔ ان کو مگر یہ بات کون سمجھائے‘ جن کے سینوں میں دل پتھر ہو گئے ؎ یہ ہیں نئے گھروں کے لوگ ان کو بھلا کہاں خبر غم بھی کسی کی ذات تھی‘ دل بھی کسی کا نام تھا کون سی فوج‘ کون سی افسر شاہی اور کون سی سیاسی جماعت۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ہر ایک کو اپنی پڑی ہے۔ اپنی جماعتوں اور اداروں کی نہیں تو وطن کی فکر کیا ہوگی۔ وگرنہ وہ سوچتے‘ وگرنہ وہ کوئی لائحہ عمل بناتے۔ غور کرتے تو ادراک ہوتا کہ سمندر پار پاکستانی ہی وہ جدید ادارے تشکیل دے سکتے ہیں‘ آج کا سماج جن پر استوار ہوتا ہے۔ 45 اور 20 بلین ڈالر کے دعووں کا انجام ہم نے دیکھ لیا‘ چند سو ملین کے لیے حکومت پاکستان بھیک مانگتی ہے۔ تحفظ عطا ہو تو سمندر پار پاکستانی ہر سال کم از کم پانچ بلین ڈالر کاروبار میں لگا سکتے ہیں۔ اب بہت دن سے ان کا فون نہیں آیا۔ آغاز سرما میں نیویارک سے ایک پاکستانی نے رابطہ کیا۔ ان کی کمپنی کے منصوبے پر‘ رکوڈک کے ایک قطعے پر‘ آسٹریلیا کا ایک بینک 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پہ پوری طرح آمادہ تھا۔ بین الاقوامی قانون کے تحت‘ مقامی آبادی کے لیے تین ارب ڈالر کے فلاحی منصوبے‘ اس کے سوا۔ پھر پتہ چلا کہ صوبائی حکومت چونکہ ڈاکہ زنی کی راہ میں رکاوٹ ہے؛ چنانچہ اسے اکھاڑ پھینکنے کا منصوبہ ہے۔ ایک نہیں کئی ڈریکولا دبئی میں سر جوڑ کر بیٹھے تھے۔ ملک کا سب سے بڑا منصب دار واردات میں شرکت پر تُلا ہوا۔ سپریم کورٹ نہ ہوتی تو ملک 1000 ارب ڈالر کے خزانے سے محروم ہو جاتا۔ ایاز امیر کے مضامین میں چند شاعرانہ جملے خوردبین سے دیکھے گئے اور ان پر حکم صادر ہوا۔ میاں محمد نوازشریف اور صدر زرداری سمیت‘ اہم شخصیات کی بلند و بالا عمارات کیوں دکھائی نہ دیں۔ گوجرانوالہ میں مرکزی شاہراہ پر خرم دستگیر اور ان کے والد محترم کا پلازہ کیوں نہیں؟ کل شام سے گوجرانوالہ میں پڑا ہوں۔ صنعت کار بلک رہے ہیں۔ گیس نہ بجلی۔ کاریگر اور مزدور خاک بسر۔ ایک صاحب نے کہا: حکمران طبقات نے اس طرح ملک کو برباد کیا ہے‘ جیسے سوروں کا ریوڑ گنے کی فصل اجاڑ دے۔ چرواہے نہیں‘ وہ قاتل ہیں۔ زرداری اور شریف خاندانوں کے مفاد پر اٹھارہ کروڑ انسانوں کا مستقبل قربان نہیں ہو سکتا۔ الیکشن کمیشن کو پروا ہو یا نہ ہو‘ کچھ لوگ ابھی زندہ ہیں۔ وہ اپنی چال چلتے ہیں اور ا للہ اپنی چال۔ حکم تو اسی کا چلتا ہے۔ دوسروں کے لیے گڑھا کھودنے والے انشاء اللہ خود اس میں گریں گے۔ دوسروں کے احتساب میں شاید تاخیر ہو‘ الیکشن کمیشن کا فوراً ہو سکتا ہے۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا وہی فرمان: کوئی اس دنیا سے اٹھے گا نہیں‘ جب تک اس کا ظاہر و باطن آشکار نہ ہو جائے۔ یہ بیچارہ‘ بیمار اور بوڑھا الیکشن کمیشن! پس تحریر: کالم لکھا جا چکا تو خبر آئی کہ عدالت عظمیٰ نے پھر سے حکم صادر کیا ہے۔ کب تک‘ آخر کب تک؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved