میں نے ماضی میں جناب شیخ رشید کی فضیلت بیان کرتے ہوئے لکھا تھا : ہمارے اینکر پرسنز کو جب کوئی موضوع ہاتھ نہ آئے‘ موضوعات کا قحط ہو ‘اندیشہ ہو کہ ناظرین سکرین کو چھوڑ کر دوسری دکان پر چلے جائیں گے تو وہ شیخ صاحب کو بلا لیتے ہیں اور وہ ان کے لیے قاضی الحاجات بن جاتے ہیں‘ بیک وقت دو چار چینلوں پر رونق افروز ہوتے ہیں ‘ لہٰذا سب کو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ آج کل موصوف ریلوے کی وزارت میں مصروف ہوگئے ہیں‘ نوکریاں ایجاد کر رہے ہیں ‘بقولِ خود سابق نا اہل ملازمین سے ریلوے کی تطہیر کرنے جارہے ہیں‘ آئے روز ریلوے کے پہلے سے موجود اثاثے کی نئے عنوان سے مارکیٹنگ کر رہے ہیں‘ فیتے کاٹے جارہے ہیں‘ لیکن برسر زمین کوئی جوہری تبدیلی نہیں آئی‘ بہر حال یہ ان کا کمال ہے کہ انہوں نے جناب عمران خان کو شیشے میں اتار لیا ہے ‘ کئی محرومینِ وزارت ترس رہے ہیں‘ جبکہ شیخ صاحب برس رہے ہیں۔جنابِ شیخ رشید عہدِ مشرف میں پہلے وفاقی وزیر اطلاعات بنے ‘مگر بعد میںانہیں وزیر ریلوے بنادیا گیا‘ اُس زمانے میں بھی ریلوے انجنوں یابوگیوں کا اضافہ کیے بغیر اخبار میں اشتہار چھپتے اور نئی ٹرینوں کا اضافہ ہوتا ‘ کراچی سے ٹرین ایک نام سے روانہ ہوتی اور راولپنڈی سے واپسی پر اس کا نام دوسرا ہوتا۔ اب بھی انہوں نے اسی طرح نئے انجنوں اور بوگیوں کا اضافہ کیے بغیر31دسمبر تک دس نئی ٹرینوں کا ہدف پورا کرنا ہے‘ الغرض شیخ صاحب ماورائی کرامات کے حامل ہیں ۔انہوں نے ''کراچی سرکلر ریلوے ‘‘کو بحال کرنے اور ریلوے کی تجاوزات کو ختم کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ تجاوزات کو ختم کرنا اچھی بات ہے ‘ ہماری دعا ہے کہ انہیں اس مشن میں کامیابی نصیب ہو ۔ کراچی میں چائنا کٹنگ ‘ قبضہ اور تجاوزات کے مسائل بڑے گمبھیر اور کرونک قسم کے ہیں ۔ جہاں تک ''کراچی سرکلر ریلوے‘‘ کے دوبارہ اجرا کا تعلق ہے ‘ فیتہ تو کٹ جائے گالیکن یہ منصوبہ منفعت بخش ثابت نہیں ہوگا ۔ کراچی سرکلر ریلوے ناکامی کی وجہ سے بند ہوئی تھی اور اس کے اسباب حسبِ ذیل ہیں:
(الف): لوگ ٹکٹ نہیں لیتے تھے اور گاڑی میں سوار ہوجاتے تھے ‘ (ب): اکثر ریلوے کے ڈبے خالی جاتے تھے ‘ اِکّا دُکّا آدمی کبھی بیٹھا ہوا نظر آجاتا تھا ‘ اس کا سبب یہ ہے کہ صنعتوں اور دفاتر کے اوقاتِ کار سے اس کی مناسبت نہیں تھی ‘(ج): درمیان میں کئی پھاٹک آتے تھے اورکبھی مین لائن کی ٹرین کی وجہ سے کافی رکنا پڑتا تھا اور بہت وقت صرف ہوتا تھا ‘نیز سرکلر ریلوے کے پھاٹکوں کی وجہ سے روڈ ٹریفک کے لیے بھی مشکلات ہوتی تھیں‘ (د) :سٹیشن سے مین روڈ تک آنے جانے میں کافی وقت صرف ہوتا تھا‘ اس وقت لوگ یہ مشقت اٹھا لیتے تھے ‘ لیکن اب لوگ راحت کے عادی ہوچکے ہیں اور یہ مشقت اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوں گے‘ اس لیے ہماری نظر میں یہ محض علامتی اور نمائشی اقدام ہوگا ۔ نئی نسل تو سرکلر ریلوے کے تجربے سے واقف نہیں ہے‘ لیکن کم از کم ستّر اسّی کا عشرہ جنہوں نے شعور کی آنکھ سے دیکھا ہے‘وہ اس سے بخوبی واقف ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ نہ اس کی بندش پر کسی نے اعتراض کیا ‘ نہ واویلا کیا‘ بس یہ ایک بے فیض کام تھا جو خاموشی سے انجام کو پہنچا ۔ اب لوگوں کے پاس کار اور موٹر سائیکل کی صورت میں ذاتی سواری اور مین روڈ کی ٹریفک موجود ہے‘ اسے بھی ستّر کے عشرے سے نکال کر جدید بنانے کی ضرورت ہے۔
اگر دو کروڑ کی آبادی پر مشتمل کراچی کے شہریوں کو ٹرین کی سہولت فراہم کرنی ہے تو لاہور کی اورنج ٹرین اور دبئی کی فلائی اوور ٹرین کی طرح ہمیں جدید دور کی طرف آنا ہوگا ‘ انڈر گرائونڈ یا فلائی اوور ٹرین کا انتظام کرنا ہوگا ‘ کم از کم دوکھرب کا منصوبہ ہوگا ‘ اگر جنابِ شیخ رشید تبدیلی کے دعوے دار وزیر اعظم کی حمایت سے ریلوے کی اُن زمینوں کو ‘جو کسی بھی طور پر زیرِ استعمال نہیں ہیں اور نہ مستقبلِ قریب وبعید میں اُن کے استعمال کے آثار ہیں ‘ جا بجا کئی منزلہ پختہ مکانات بنے ہوئے ہیں ‘اُن کو گرانے کی بجائے مارکیٹ ریٹ پر انہی قابضین کو ترجیحی طور پر اقساط پر یا یکمشت خریدنے کی پیش کش کی جائے ‘ لیکن مین ریلوے لائن کے اردگرد جو تجاوزات ہیں ‘اُن کے حوالے سے مستقبل کی ضروریات کو مدِّ نظر ضرور رکھا جائے‘ کیونکہ مین لائن کو ڈبل یا ٹرپل ٹریک بنانے کی ضرورت ہے ۔ کراچی سرکلر ریلوے جو ڈرگ روڈریلوے سٹیشن سے مڑ کرائیرپورٹ کے نیچے سے گلستانِ جوہر ‘گلشنِ اقبال‘فیڈرل بی ایریا‘ ناظم آباد سے ہوتی ہوئی ماڑی پور تک جاتی ہے ‘یہ اب زیرِ استعمال نہیں ہے ‘ اس کے اطراف میں زمینوں پر قبضہ ہے ‘ بیچ میں مختلف سٹیشن آتے ہیںجن کا کافی رقبہ ہے ‘ ان کو کسی منصوبہ بندی کے تحت مارکیٹ ریٹ پر فروخت کر کے ابتدائی فنڈ ریزنگ کی جاسکتی ہے اور پھر مین شاہراہوں کے نیچے انڈر گرائونڈ یا اوور ہیڈ جدید ٹرین سسٹم کی منصوبہ بندی کی جاسکتی ہے ‘ 1980ء کی دہائی میں میں دیکھتا تھا کہ ہانگ کانگ میں سمندر کے نیچے ماس ٹرانزٹ ریلوے کا جدید ترین آٹومیٹک نظام ہے ‘ اسی طرح یورپ کے بڑے شہروں میں ہے‘ برطانیہ اور فرانس کے درمیان بھی سمندر کے نیچے ریلوے نظام ہے ‘ جرمنی کے شہر ائیرفورٹ میں ہم نے دیکھا کہ کراچی کی پرانی محمد علی ٹرام وے کی طرح ٹرینیں سڑک کے درمیان چلتی ہیں اور سیکنڈز کے حساب سے ہر سٹاپ پر بروقت پہنچتی ہیں ۔ میں نے بہت پہلے لکھا تھا :سڑکوں پر جنات اور فرشتے نہیں چلتے ‘انسان چلتے ہیں اور سڑکیں بھی انسانوں کی ضرورت ہیں۔ پس اگر پی ٹی آئی ایک اور یوٹرن لے لے اور اپنے اس موٹو کو تبدیل کرے کہ لوگوں کو سڑکوں کی ضرورت نہیں ہے‘ پیسہ انسانوں پر لگانا چاہیے ‘تو کیا ہی اچھا ہو کہ پی ٹی آئی اور جنابِ شیخ رشید کے کریڈٹ پر کراچی میں ایک جدید ترین انٹرسٹی ٹرین سسٹم بنا لیا جائے ‘ جو تاریخ میں اُن کے نام سے متعارف ہو۔ چھوٹے چھوٹے اور بے مقصد نمائشی کام کرنے کی بجائے ہمارے بالغ نظر حکمرانوں کو جدید ترین اور دیرپا اثرات کے حامل منصوبے بنانے چاہئیں ۔ آپ کی ہزار کوشش اور پراپیگنڈے کے باوجود لوگ موٹرویز ‘ میٹروسسٹم اور اورنج ٹرین سسٹم کو بھول نہیں پائیں گے ‘ جیساکہ جنابِ عمران خان آج سابق صدر محمد ایوب خان مرحوم کے تربیلا ڈیم اور منگلا ڈیم کو ایک کارنامہ قرار دے رہے ہیں۔
کراچی کی ایک اہم ترین ضرورت تجاوزات کے خاتمے اور صفائی کا کام چیف جسٹس آف پاکستان کے حکم اور ہدایت پر شروع کردیا گیا ہے ‘ ہم سب اور کراچی کا ہر شہری اس کی تحسین کرتا ہے ‘لیکن اس مہم کو درمیان میںنہ چھوڑا جائے ‘ سپریم کورٹ آف پاکستان اس کی مستقل کسٹوڈین بن جائے اور ابھی تک گلی کوچوں اور آبادیوں کے اندر صفائی کا معقول انتظام نہیں ہوپایا ‘ اس پر بھی توجہ دی جائے اور آبادیوں کے درمیان پارکنگ کے اندر یا اُن کی چاردیواری کے ساتھ لوگ کچرا لاکر پھینک دیتے ہیں‘ جو صحتِ عامہ کے لیے انتہائی مضر اور Unhygienicہے ‘وہاں سی سی ٹی وی کیمرے فٹ کیے جائیں اور کچرا پھینکنے کو قابلِ تعزیر جرم قرار دیا جائے اور ٹریفک جرمانے کی طرح اس کی وصولی اور ریکارڈ کاکڑا نظام مقرر کیا جائے ۔ کراچی کا سب سے اہم کام پبلک سیکٹر میں پرائمری سکول سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک تعلیمی اداروں کا نظام بہتر بنانا ہے‘ اگرچہ اٹھارہویں ترمیم کے نتیجے میں تعلیم صوبائی دائرۂ اختیار میں ہے ‘ لیکن اس کے لیے بھی عدالتی یا وفاقی نگرانی کا کوئی مربوط اور مستقل انتظام ہونا چاہیے ۔ 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں کراچی کا مینڈیٹ پی ٹی آئی کے پاس ہے‘ لیکن وزیرِ اعظم جنابِ عمران خان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ پی ٹی آئی کے قدم زمین پر نہیں ہیں ‘ ان کے منتخب اراکین قومی وصوبائی اسمبلی کے دفاتر برسرِ زمین کہیں بھی نہیں ہیں ‘ لوگ اپنے مسائل کے لیے رجوع کرنا چاہیں تو کدھر جائیں ۔ پی ٹی آئی کے منتخب اراکینِ قومی وصوبائی اسمبلی اور کراچی سے تعلق رکھنے والے وزرا کی زیارت صرف کبھی کبھی وفاقی کابینہ کے اجلاس کی جھلک اور ٹیلی ویژن سٹوڈیو میں نظر آجاتی ہے۔ جنابِ عمران خان کو سوچنا چاہیے کہ اگر برسرِ زمین اہلِ کراچی کے ساتھ یہی بے اعتنائی برتی جاتی رہی ‘ تو آئندہ قومی انتخابات میں آپ کو یہ نتائج شاید نہ مل پائیں ‘ اس لیے ہم آپ کواہلِ کراچی اور آپ کے مفاد میں بروقت متنبہ کر رہے ہیں تاکہ کل آپ یہ نہ کہہ سکیں کہ کوئی صحیح تصویر پیش کرنے والا نہ تھا اور میں بے خبر رہا ‘ سو ازراہِ کرم کراچی کی خبر لیجیے۔ ایم کیو ایم پاکستان کا مینڈیٹ اگرچہ کراچی کی مقامی حکومت کے علاوہ انتہائی حد تک سمٹ گیا ہے‘ لیکن تاحال وہ زمین پر موجود ہیں ‘اُن کے سیکٹر اور یونٹ انچارج نئے ناموں کے ساتھ موجود ہیں ‘ اگر ایسا ہی خلا رہا اور اداروں کے ساتھ اُن کا کوئی ورکنگ ریلیشن قائم ہوگیا‘ تو اُن کی نشاۃ ثانیہ مشکل نہیں ہوگی۔
حالیہ ''تجاوزات ہٹائو‘‘مہم کے نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگوں کے روزگار متاثر ہوئے ہیں ‘ اُن کے زیرِ کفالت خاندان کے افراد کو ملحوظِ نظر رکھا جائے تو یہ کافی بڑی تعداد بنتی ہے ‘وفاقی اورصوبائی حکومت کی ذمے داری ہے کہ اُن کی بحالی کے لیے بھی ایک جامع پیکج بنایا جائے ‘ دانش مندی کا تقاضا تو یہ تھا کہ تجاوزات کے خلاف مہم سے پہلے اُن کا مکمل سروے کرلیا جاتا ‘ کیونکہ بعد میں سیاسی اثر ورسوخ کو کام میں لاکر غیر متعلق لوگ فائدے اٹھا لیتے ہیں اور اصل متاثرین محروم رہ جاتے ہیں‘ چیف جسٹس آف پاکستان کو اس پر بھی خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ماضی میں کراچی کی سٹیک ہولڈر مذہبی جماعتیں رہی ہیں : یعنی جمعیت علمائے پاکستان ‘ جماعتِ اسلامی ‘ بعد میں کچھ عرصے کے لیے ایم ایم اے ‘ لیکن اب بدقسمتی سے ان جماعتوں کا برسرِ زمین اس طرح کا تنظیمی نیٹ ورک موجود نہیں ہے ۔ تحریکِ لبیک پاکستان کا نیٹ ورک سنا ہے کہ کسی حد تک قائم ہے ‘ لیکن انہیں ایک فعال سیاسی جماعت بننے کے لیے سیاسی شعور ودانش کی ضرورت ہے‘ کاش کہ یہ انہیں نصیب ہوجائے۔