کسی دانا کا قول ہے کہ زندگی کو ضرورت میں بسر کرو‘ خواہش میں نہیں۔ ضرورت فقیر کی بھی پوری ہو جاتی ہے اور خواہش بادشاہوں کی بھی ادھوری رہ جاتی ہے۔ انسان اپنی ضرورت پوری ہونے کا محتاج ہے ۔ یہ ضرورت کیا ہے ؟ یہ ایک خاص وقت پر ایک خاص چیز کی فراہمی ہے ۔ اگر یہ خاص چیز اسے اس خاص وقت میں نہیں ملتی تو پھر اس کے پاس موجود دنیا جہان کی دولت بے کار ہے ۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے ایک انتہائی دولت مند شخص کو کوشش کے باوجود نیند نہیں آرہی ۔اب اس نیند کے نہ آنے سے اس کے پاس موجود دنیا جہان کی دولت بے کار ہے ۔ اس وقت اسے صرف نیند ہی تسکین پہنچا سکتی ہے ۔ اسی طرح بے انتہا دولت کے باوجود اگر انسان کا نظامِ انہضام اس بری طرح سے متاثر ہے کہ اسے بھوک نہیں لگ رہی یا وہ کھایا ہوا ہضم نہیں کر سکتا تو پھر بھی یہ ساری دولت بے کار ہے ۔ اس خاص ضرورت کے پورا ہونے سے انسان یا کسی بھی جاندار کو انتہائی تسکین پہنچتی ہے ۔ اگر آپ کبھی انتہائی سرد موسم میں ٹھنڈے ہاتھ پائوں کے ساتھ اپنے کمرے میں آتے ہیں اور گرم بستر میں لیٹ جاتے ہیں تو اس وقت آپ کو جو تسکین ملتی ہے ‘ اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح انتہائی بھوک کے بعد جب انسان پہلا نوالہ حلق میں اتارتا ہے تو اسے جو تسکین ملتی ہے ‘ اسے بھی ناپا اور تولا نہیں جا سکتا۔ ہاں ‘ البتہ اتنا ضرور کہا جا سکتاہے کہ اس وقت اگر اس کی یہ ضرورت پوری نہ ہوتی تو دنیا جہان کے وسائل بھی بے کار ثابت ہوتے۔ بات یہ ہے کہ ایک شخص کو انتہائی بھوک محسوس ہو رہی ہے ۔ اگر اسے اس وقت کھانا نہیں ملتا تو ایک خاص دورانیے کے بعد وہ مر جائے گا ۔ وہ شخص کسی لفٹ میں پھنس گیا ہے۔ سب لوگ اس عمارت کو مقفل کر کے جا چکے ہیں ۔ اگلے دو روز چھٹی ہے ۔ آج کل تو موبائل فون سے اطلاع بھیجی جا سکتی ہے‘ لیکن اس کے باوجود اس طرح کے بے شمار واقعات بے شمار لوگوں کے ساتھ پیش آتے رہے ہیں ۔ یا آپ کسی عمارت کے گرنے کے بعد اس کے ملبے تلے دب چکے ہیں ۔ آپ اکتوبر2005ء کے زلزلے کو یاد کریں ۔ بے شمار لوگ ملبے تلے زندہ تھے۔ کسی نہ کسی سوراخ سے انہیں آکسیجن مل رہی تھی او روہ سانس لے رہے تھے ۔ انہیں غذا کی ضرورت تھی۔ان میں سے کچھ بچ گئے ‘ کچھ مر گئے ۔
ماضی میں ایسے بے شمار واقعات پیش آتے رہے ہیں ‘ جن میں کوئی انسان کسی جگہ پھنس گیایا اغوا ہو گیا۔ بے شمار وسائل کا مالک ہونے کے باوجود وہ بھوکا پیاسا مر گیا ۔اغوا کاروں نے چند لاکھ روپے بر وقت نہ پہنچنے پر اسے مرنے کے لیے چھوڑ دیا ؛حالانکہ اس کے عزیز و اقارب کے نزدیک اس کی قیمت اربوں روپے تھی۔ ایک خاص وقت پر ایک خاص ضرورت ۔ آپ کے پاس قیمتی گھر ہے ‘ گاڑی ہے ‘ سب کچھ ہے لیکن ایک رات آپ کو سانس لینے میں دقت محسوس ہونے لگتی ہے ۔ اس وقت آپ کے دماغ کو آکسیجن کم مل رہی ہے ۔ اس وقت آپ کو اور کچھ نہیں چاہئے ۔ صرف اور صرف آکسیجن کی ضرورت ہے ۔ یہ آکسیجن فضا میں وافر مقدار میں موجود بھی ہے لیکن آپ کے ناک یا سانس کی نالی یا پھیپھڑوں میں رکاوٹ ہے ۔ اب اگلے دن‘ جب تک آپ کو ایک قابل ڈاکٹر تک رسائی اور اس کے بعد مناسب ادویات میسر نہیں آتیں تو ایک خاص وقت کے لیے آپ اپنی ضرورت کے مطابق آکسیجن استعمال کرنے کے قابل نہیں ہیں ۔ اس وقت دنیا جہان کی نعمتیں آپ کے لیے بے کار ہیں ۔ اسی طرح اگر آپ کے گردے میں پتھری آگئی ہے اور آپ اپنے جسم سے فالتو پانی باہر نہیں نکال پا رہے تو بھی آپ کی ضرورت پوری نہیں ہو رہی ۔ اس وقت سارے وسائل بے کار ہیں ۔ اس وقت آپ کی ضرورت صرف اور صرف پیشاب کا اخراج ہے ۔
خدا نے جب زمین پر جانداروں کو پیدا کرنے کا فیصلہ کیا تو پہلے ان کی ضرورتیں پوری کرنے کا بندوبست کیا۔ قرآن کہتاہے کہ زمین میں کوئی ذی روح ایسا نہیں ‘ جس کا رزق ہمارے ذمّے نہ ہو اور ہم جانتے ہیں کہ وہ کہاں سے گزرے گا اور کہاں سونپا جائے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو گلی میں ایک کتے سے لے کر گٹر میں ایک کاکروچ تک ہر جاندار اپنی زندگی کے خاتمے تک اپنی ضرورت پوری کرتا نظر آئے گا۔ گلی میں پھرنے والی بلی کھائے پیے گی ‘ بچے بھی پیدا کرے گی اور انہیں پالے گی بھی ۔ انسان جیسی عقل نہ ہونے کے باوجود آج بھی 87لاکھ قسم کی مخلوقات زمین پر زندگی گزار رہی اور اپنی ضروریات پوری کر رہی ہیں ۔ غذا کے علاوہ ان کی نیند پوری کرنے کا بندوبست بھی موجود ہے اور ان کے جسموں سے فاضل مادوں کا اخراج بھی ۔ اسی طرح جب ایک بکری میں حاملہ ہونے کی خواہش پیدا ہوتی ہے تو پھر وہ ایک خاص آواز لگاتی ہے ۔ اس وقت وہ بری طرح چیخ رہی ہوتی ہے ۔ جس جاندار کو جس وقت جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے تو پھر وہ ضرورت اس کے دل و دماغ پہ حاوی ہو جاتی ہے ۔ اس خاص چیز کے علاوہ دنیا کی کوئی بھی چیز اس ضرورت کو پورا نہیں کر سکتی ۔
جانداروں کی ضروریات پوری کرنے کا بندوبست صرف اور صرف خدا کی ذات ہی کر سکتی تھی ۔اب یہ تو میڈیکل سائنس سے تعلق رکھنے والے لوگ ہی جانتے ہیں کہ جسم میں اگر Nervesجیسی تاریں نہ بچھائی جاتیں تو دوسروں کو تو کیا‘کسی جاندار کو خود بھی اپنی ضرورت کا علم نہ ہوتا ۔ آپ ان نروز کو نکال دیں ‘ کوئی بھی جاندار بالکل بے حس ہو جائے گا۔ اسے اپنے پائوں میں کانٹا چبھنے کا احساس ہوگا اور نہ وہ بھوک محسوس کرے گا ۔ آپ اسے آری سے دو ٹکڑے بھی کر دیں‘ وہ درد محسوس نہیں کرے گا۔ اگر یہ نروز نہ ہوں تو بچہ جنتی ہوئی ماں کو تکلیف نہ ہو ۔ اسی طرح انسان حیرت سے سوچتا ہے کہ نینداور بھوک کی صورت میں کیا شے اللہ نے تخلیق کی ہے ۔ جب ایک جاندار نڈھال ہو جاتاہے تو پھر یہ نیند اور بھوک پوری کرنے کے بعد وہ دوبارہ پوری طرح تروتازہ ہو جاتا ہے ۔ اگلے دن کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار۔ خدا کے علاوہ اور کون سی ذات ہے جو ہر جاندار کی زندگی ختم ہونے تک اس کی ضروریات پوری کرتی رہے ۔
انسان کی ضرورت بہت کم ہے لیکن اس کے دماغ میں وسائل جمع کرنے کی ہوس بہت زیادہ ہے ۔ حدیث کے مطابق وہ جتنا کچھ بھی جمع کر لے‘ اس کا اصل رزق وہی ہے ‘ جو کہ واقعتاً وہ اپنی زندگی کے دوران استعمال کر ے گا ۔ بے پناہ دولت کے باوجود کوئی شخص روزانہ چند روٹیاں ہی کھا سکتاہے ۔ ایک ہی لباس پہن سکتاہے ۔ مٹی کی خاص اینٹوں سے بنے ایک ہی کمرے میںایک خاص لکڑی کے ایک ہی بیڈ پر سو سکتاہے ۔ اپنی زندگی میں جو جو چیز ایک جاندار نے استعمال کرنا ہوتی ہے‘ وہ اس کے لیے مخصو ص ہوتی ہے ۔ آکسیجن کا جو ایٹم میں نے اپنے پھیپھڑے میں لے کر جانا ہے ‘ وہ کوئی اور نہیں لے جا سکتا۔ اسی طرح وصی بابا نے جو امرود کھانا ہے ‘ وہ کوئی اور نہیں کھا سکتا ۔ جب انسان یا کوئی بھی جاندار اپنے لیے مخصوص سب چیزیں استعمال کر لیتا ہے تو پھر وہ مر جاتا ہے ۔