تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     27-11-2018

توپ مانکیالہ

یہ ستمبر کامہینہ تھا آسمان پرتیرتے بادلوں نے موسم کوخوش گوار بنادیاتھا۔میں راولپنڈی کی جی ٹی روڈ پرسفر کررہاتھااور میری منزل مانکیالہ تھی جہاں بدھوں کامشہور سٹوپاواقع ہے‘ جسے عام لوگ توپ مانکیالہ کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ اسلام آباد سے36کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔جی ٹی روڈ سے بائیں طرف مڑیںتو تقریبا 6کلو میٹر کے فاصلے پر توپ مانکیالہ کا تاریخی مقام ہے اس جگہ سے میرے بچپن کی ایک یاد وابستہ تھی۔ آج میں اسی یاد کی بازیافت کے لیے وہاں جارہاتھا۔کہتے ہیں پوٹھوہار کے اونچے نیچے ناہموار علاقوںمیں ایک خاص طرح کی طلسماتی فضاہے۔ یوں لگتا ہے جیسے قدیم تاریخ کے د ن رات فضائوں میں ٹھہرگئے ہوں ۔ایک روز یارِ عزیز اورسداکے سیلانی رئوف کلاسراسے بات ہورہی تھی‘ کہنے لگے :پوٹھوہار کی خوبصورتی کوابھی تک دریافت نہیںکیاگیا کیوں نہ ہم دونوں پوٹھوہارکے تاریخی خزانوں کودریافت کریں۔ ہرویک اینڈ پرایک نئی جگہ جائیں۔ میںنے کہابالکل ٹھیک‘ لیکن اندرسے ہم دونوں کومعلوم تھا کہ زندگی کے معمولات کابھاری پتھر ہمارے خوابوں کاراستہ روک لے گا۔ وہ جو منیر نیازی نے کہا ہے:
کچھ وقت چاہتے تھے کہ سوچیں ترے لیے
تو نے وہ وقت ہم کو زمانے نہیں دیا
آج جی ٹی روڈپرسفر کرتے ہوئے جیسے میں اپنے بچپن کی طرف لوٹ رہاتھا۔ کیسے دن تھے وہ بھی جب زندگی کے یہ بکھیڑے ہمارے ساتھ نہیں تھے اور جب ہم آسمان پرتیرتے بادلوں کی طرح آزادتھے۔انہیں دنوں میں ایک روشن دن مجھے یاد آرہا ہے‘ جب مجھے پوٹھوہار کے ایک قصبے مانکیالہ جانے کااتفاق ہوا۔ تب میری عمر یہی نودس سال ہوگی۔ اب یاد پڑتا ہے وہ کوئی شادی کی تقریب تھی جس میں شرکت کے لیے میرے ماموں مجھے ساتھ لے گئے تھے۔ جس زمانے کی میں بات کررہاہوں سڑکوںپرٹریفک نہ ہونے کے برابرتھی۔ اِکادُکافرسودہ بسیں گائوں کے روڈ پرچلتی تھیں۔اس وقت کے مانکیالہ کادھندلاساتصور میرے ذہن میںنقش ہے۔ زیادہ ترمٹی کے بنے گھراور دوردورتک کھیت یاوسیع میدان اورپھرسارے منظر پرچھایا ہوا وہ ایک گنبد‘جسے گائوں کے لوگ توپ کہتے تھے۔میں شادی میں شریک بچوں کے ہمراہ اس گنبد کی طرف کھنچتا چلاگیا۔یہ ایک اونچے ٹیلے پر تعمیر کردہ گنبد تھا ۔میں نے اسے دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا ۔ہم گائوں کے رہنے والے بچوں کے لیے اونچے لمبے درختوں پرچڑھنا ایک عام سی بات تھی۔مجھے یاد ہے ہم سب بچے کیسے اس گنبد کی طرف بھاگے اور کچھ ہی دیر میں ہم اس کی چوٹی پر تھے۔
گنبد کی چوٹی پر پہنچ کر میںنے دیکھا کہ اس کے عین وسط میںایک سوراخ ہے۔ میںنے اس سوراخ سے نیچے جھانک کردیکھنے کی کوشش کی لیکن نیچے دور تک گھپ اندھیرا تھا۔کیا ہوگا اس گنبد کے اندر۔میرا ننھا سا ذہن ساراوقت یہی سوچتا رہا اس روزمیں راولپنڈی گھرواپس آیا تو شادی کی رونقوں کی بجائے توپ مانکیالہ کا وسیع وعریض گنبد اوراس کے اندر کاگھپ اندھیرا میرے حواس پرچھایا ہواتھا۔ اس پر کتنے ہی برس بیت گئے۔اس دوران جب بھی میں جی ٹی روڈ پرسفرکرتے ہوئے روات سے آگے جاتے ہی‘ مجھے یوں لگتا توپ مانکیالہ کی گونج نے مجھے اپنے حصار میں لے لیاہے اور پھر آج میں اس گونج کے بلاوے پر اسے دیکھنے جا رہا تھا ‘بالکل اسی طرح جیسے ایک صدی پہلے ایلفنسٹن کابل جاتے ہوئے توپ مانکیالہ کے سحر میں گرفتارر ہو گیا تھا۔بعدمیں ایلفنسٹن نے اپنے سفر کااحوال اپنی کتاب ''کنگڈم آف کابل‘‘ میں تحریر کیا تو مانکیالہ کے سٹوپا کے بارے میں بھی لکھا۔ چینی سیاح فیکسین(Faxian)جس نے بدھ مقامات کودیکھنے کے لیے چین سے ہندوستان کاپیدل سفر کیا‘ نے توپ مانکیالہ کاذکرکرتے ہوئے اسے شمالی ہندوستان کے چاربڑے سٹوپاز(Stupas)میں شمار کیا۔مانکیالہ گائوں کے بارے میںکہاجاتا ہے کہ کبھی اس جگہ کا نام مانک پور یامانگ نگر تھا۔ یہاں کی لوک کہانیوں میں راجہ رسالوایک اہم کردارہے۔ کہتے ہیں کسی زمانے میں اس علاقے کا نام بیدادنگرتھا اوریہاں راکھشش حکمران تھے۔ لوگ ان کے ظلم اورناانصافی کے نظام سے بیزار تھے ایسے میں راجہ رسالو نے مزاحمت کاپرچم اٹھایا اورناانصافی کے اس دورکاخاتمہ کیا۔اب بھی یہاں کی لوک داستانوں میںراجہ رسالو کا ذکرملتا ہے۔
مانکیالہ کاسٹوپا ایک اونچے ٹیلے پرتعمیر کیاگیا اس ٹیلے کی بھی ایک کہانی ہے۔ کہتے ہیں کہ شہزادہ ستوا اپنے محل کو چھوڑکر جوگی بن گیاتھا‘ ایک روز وہ اپنے کچھ پیروکاروں کے ہمراہ اس علاقے سے گزررہاتھا‘ چلتے چلتے وہ ایک ٹیلے کی چوٹی تک پہنچ گیا۔اس نے ٹیلے سے نیچے زمین پرنگاہ ڈالی توایک عجیب منظردیکھا۔ایک شیرنی جوبھوک سے لاغرہوچکی تھی‘ بے قراری کے عالم میںٹہل رہی تھی ۔اس کے اردگرد اس کے ننھے منے سات بچے تھے۔ شہزادے کوخیال آیا کہیں بھوک سے لاچار ہوکر شیرنی اپنے بچوں کوہی نہ کھاجائے۔ شہزادے نے اپنے پیروکاروں کوخوراک کی تلاش میں بھیج دیا۔ جب انہیں گئے ہوئے بہت دیرہوگئی توشیرنی کی بے قراری بڑھنے لگی اس سے پیشتر کہ شیرنی اپنے بچوں کو کھاتی شہزادے نے چوٹی سے چھلانگ لگائی اورشیرنی کواپنے جسم کی قربانی پیش کردی‘ یوں شیرنی کی بھوک مٹ گئی اور ساتھ ہی اس کے بچوں کی جان بھی بچ گئی۔ جب شہزادے کے پیروکار واپس آئے تو انہوںنے شہزادے کووہاں نہ پایا انہوں نے نیچے کامنظر دیکھا توساری بات ان کی سمجھ میں آگئی۔ انہیں اپنے مرشد کی قربانی پرفخر محسوس ہوا۔ کہتے ہیں اس روزآسماں سے چھاجوں مینہ برسا اورزمین پرحدِنظرتک کنول کے پھول کھل اٹھے۔ اسی ٹیلے پر اس قربانی کی یاد میں یہ سٹوپا تعمیر کیا گیا۔کہتے ہیںیہ سٹوپا کینشکا(Kanishka)کے عہد میں تعمیرکیاگیا تھاایک اور روایت کے مطابق موریہ حکمران اشوکا کے دورمیں اس طرح کی بہت سی عمارتیں بنائی گئیں جن میں مہاتمابدھ کی راکھ رکھی گئی تھی۔یہ سٹوپا بھی اسی دور کی یادگار ہے۔ یہ سٹوپا کئی ادوار سے گزرا بعدمیں 1815ء میں اس کی تعمیر نوکی گئی۔ جنرل ونچورا کا جب اس علاقے سے گزر ہوا تو اس کے دل میں یہ خواہش جاگ اٹھی کہ سٹوپا کے اندر کا احوال معلوم کیا جائے۔ 1830ء میں جنرل ونچورانے سٹوپا کی بالائی سطح سے73فٹ گہرا سوراخ کیا تقریباً10فٹ کی گہرانی پر ایک صندوق ملاجس میں سونا تھا پھر46,45اور73فٹ کی گہرائی پرسونے کے صندوق ملے ان میں سے کچھ آثار برٹش میوزیم میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
ہماری گاڑی جب جی ٹی روڈ پر روات سے آگے ریڈیو سٹیشن کی عمارت کے بعد بائیں جانب مڑی تو میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ شاید یہ اپنے بچپن سے ملنے کی خواہش تھی اور پھر مجھے دُور سے وہ گنبد نظر آنے لگا۔ اردگرد کے کھیتوں اور میدانوں میں لوگوں نے اپنے گھر بنا لیے تھے۔ گنبد نما سٹوپا کے ارد گرد چہار دیواری تھی۔ مین گیٹ پر تالا لگا تھا۔ عقبی راستے سے میں چہاردیواری میں داخل ہوا۔ اب میں سٹوپا کے با لکل قریب تھا جسے لوگ توپ مانکیالہ کے نام سے جانتے ہیں اور جسے میں نے پہلی بار اپنے بچپن میں دیکھا تھا۔میرے دل میں ایک عجیب خواہش نے انگڑائی لی۔ سٹوپا کی چوٹی پر پہنچنے کی خواہش۔میں گنبد کے بوسیدہ پتھروں پر پاؤں رکھتا ہوا اوپر جانے لگا۔ شاید یہ اپنے بچپن سے ملنے کی خواہش تھی۔اچانک میری نظر ان خاردار تاروں پر پڑی جن سے راستہ بند کر دیا گیا تھا۔میں نے سٹوپا کی چوٹی پر نگاہ ڈالی مجھے یوں لگا میرا بچپن دونوں ہاتھ وا کیے مجھے اپنی طرف بُلا رہا ہے۔میں نے بے بسی سے راستے میں حائل خاردار تاروں پر نگاہ ڈالی اور واپسی کے لیے قدم اٹھانے لگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved