تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     27-11-2018

ایک غیر سیاسی کالم

گزشتہ دو دن سے میں لاہور میں ہوں اور موج میلہ کر رہا ہوں۔ اس موج میلے سے مراد آپ کچھ اور نہ لیں۔ یہ موج میلہ صرف اتنا ہے کہ نہ کوئی طے شدہ روٹین ہے اور نہ کوئی خاص کام۔ میں ہوں اور تین دوست ہیں‘ بلکہ تین بھی کہاں ‘دو دوست ہیں اور ایک برادرِ بزرگ۔ برادر بزرگ ‘امریکا سے آیا ہے۔ دوست کا دوست ہے اور برادرِ بزرگ کا برادر ِبزرگ۔ بڑا مزے کا رشتہ ہے۔ آپس میں بے تکلفی بھی بہت ہے ‘لیکن ایک حد سے آگے ‘ادب کا سپیڈ بریکر آ جاتا ہے۔ باقی دو دوستوں میں سے ایک خالد تیز گام ہے اور یہ وہ دوست ہے‘ جو برادرِ بزرگ کے ساتھ جہیز میں ملا ہے۔ جیسے لالچی لڑکے اچھا جہیز ملنے پر خوش ہوتے ہیں‘ اسی طرح ہم اس جہیز میں ملنے والے دوست سے خوش ہیں۔ کل سے پہلے خالد کا نام اس کی مونچھوں کے حوالے سے تھا ‘لیکن کل ایک ہائی لیول کمیٹی میں جس کا کنوینر دو چار منٹوں کے لیے مجھے بنایا گیا تھا‘ اس کے نام میں ترمیم پیش کی گئی ‘جو بھاری اکثریت سے منظور ہو گئی اور اب اس کا نام خالد تیز گام ہے۔ یہ نام کیوں رکھا گیا ہے؟ یہ میں کسی قیمت پر نہیں بتاؤں گا کہ یہ ایک ٹاپ سیکرٹ ہے اور صرف نام کی حد تک لیک کیا جا رہا ہے۔جب یہ دو دوست ہوں‘ تو تیسرا دوست رؤف کلاسرا کے علاوہ کون ہو سکتا ہے؟ سنو ‘تیسرا دوست رؤف کلاسرا ہے۔
ہم چاروں ہوٹل میں ہیں۔ ہوٹل سے لاہور کی سڑکوں پر اور تھڑوں پر ہیں۔ مرکزی لاہور میں جہاں سے گزرتے ہیں‘ دائیں بائیں یا اوپر‘ کہیں میٹرو بس کا سیمنٹ سریے کا ڈھانچہ ہے اور کہیں اورنج ٹرین کا بلند و بالا ٹریک۔ دائیں بائیں اور اوپر تو یہ ہے‘ تاہم نیچے صرف اور صرف گند ہے۔ کوڑا کرکٹ ہے۔ مٹی کے ڈھیر ہیں اور خستہ حال سڑکیں ہیں۔ صفاں والے چوک سے آگے اے جی آفس تک درمیان میں پتلی سی سڑک نما چیز کہیں کہیں دکھائی دیتی تھی‘ دائیں طرف کوڑا کرکٹ تھا اور بائیں طرف کھدی ہوئی سڑک کے آثار‘ جسے مٹی روڑے سے پاٹ دیا گیا تھا اور پھر اس کام کے بعد کیا کرنا ہے؟ غالباً یہ بھول گئے تھے۔ لاہور کا سارا حلیہ بگڑا ہوا تھا۔ تخت لاہور کا حقیقی معنوں میں ''تختہ‘‘ ہوا پڑا تھا۔ 
قدیم لاہور کا سارا حسن برباد ہو چکا ہے؛ اگر اورنج ٹرین دنیا کے باقی ملکوں کی طرح انڈر گراؤنڈ چلا دی جاتی تو لاہور کم از کم اس بدصورت قسم کی تعمیر سے محفوظ رہ جاتا ہے۔ یہی منصوبہ اس سے کہیں سستا اور بہتر صورت میں چوہدری پرویز الٰہی کی حکومت میں بنانے کی پوری منصوبہ بندی ہو گئی تھی۔ فیزیبلٹی مکمل ہو گئی تھی۔ دنیا کی ماس ٹرانزٹ کی منصوبہ بندی کرنے والی بہت ہی مشہور اور نیک نام فرانسیسی کمپنی "SYSTRA" نے بنائی تھی‘ جو ریل اور ٹرانسپورٹ کے شعبے میں پوری دنیا میں اپنا ایک مقام رکھتی ہے ‘مگر ہم نے وہی کیا‘ جو ہر آنے والی حکومت جانے والی کے ساتھ کرتی ہے۔ سارا منصوبہ ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا اور یہ سیمنٹ سریے کا دیوہیکل عفریت لاہوریوں کے سر پر کھڑا کر دیا گیا‘ پھر یہی کچھ پنڈی اسلام آباد میں ہوا اور ہم ملتان والے بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکے۔
دہلی کا انڈر گراؤنڈ ریل سسٹم ہمارے سامنے ایک مثال ہے ‘جس سے جدید شہروں کے ٹرانسپورٹ مسائل سے نپٹنے کا سبق لیا جا سکتا تھا‘ لیکن ہم نے اپنی آج تک کی غلطیوں سے سبق حاصل نہیں‘ سرحد پار سے سبق حاصل کرنے کا تو سوچنا بھی حماقت ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے؛ ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ آنے والی حکومت جانے والی حکومت کے کسی کام کو نہ تو قبول کرتی ہے ا ور نہ ہی اس پر کام کرنا چاہتی ہے‘ اب یہی کچھ اورنج ٹرین اور موٹروے وغیرہ سے ہو رہا ہے۔ اربوں روپے مٹی ہو رہے ہیں ‘لیکن نئی حکومت کے سو سالہ معاف کیجئے! میرا مطلب ہے ‘سو دن والے پروگرام میں ان نامکمل منصوبوں کی تکمیل کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ منصوبے مکمل کرنا تو دور کی بات ہے ‘ان سو دنوں میں نئی حکومت نے اورنج ٹرین کے ٹریک پر پڑے ہوئے گند اور کوڑا کرکٹ تک کو صاف نہیں کیا۔ نئی حکومت کا رویہ بالکل بچگانہ ہے‘ ان کا خیال ہے کہ جس نے گندگی پھیلائی ہے ‘وہی اٹھائے گا اور دوسری طرف یہ عالم ہے کہ سابقہ حکمرانوں کے واپس آنے کی امید اب حکمرانی کی بجائے جیل سے واپس آنے میں بدل رہی ہے۔
قارئین! معاف کیجئے میں نے سو فیصد ارادہ کیا تھا کہ آج کا کالم صرف اور صرف ان دو دنوں پر ہوگا اور اس میں کوئی سیاسی بات نہیں ہوگی ‘لیکن کیا کیا جائے؟ میں نے لاہور کو جس صورت میں دیکھا ہے‘ اب اس کے بعد جب اب دیکھتا ہوں تو افسوس اور ملال ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں شہر خوبصورتی کی طرف رواں دواں ہیں‘ جبکہ ہمارے ہاں بالکل الٹ ہو رہا ہے۔ اچھے بھلے خوبصورت شہروں کو سیمنٹ اور سریے کے زور پر تباہ و برباد کیا جا رہا ہے۔
لاہور کے فصیل کے اندر والے شہر کو پرانی صورت میں لانے کے لیے ایک پوری ''اتھارٹی‘‘ قائم کی گئی کروڑوں اربوں روپے مختص کیے گئے۔ دفتر بنایا گیا۔ عملہ رکھا گیا اور کام شروع کیا گیا۔ جب بھی معلوم کیا‘ پتا چلا کہ کام چار چھ انچ ہی چلا ہے اور باقی وہیں کا وہیں ہے۔ یاد ا ٓیا کہ ملتان میں چند سال پہلے حکومتِ اٹلی نے پرانے شہر کو اس کی اصلی حالت میں لانے کے لیے کروڑوں روپے دیے ہیں۔ سب سے پہلے تو ایسے کاموں میں یہ ہوتا ہے کہ ایک عدد کنسلٹنٹ فرم رکھی جاتی ہے‘ لہٰذا وہ رکھ لی گئی‘ پھر منصوبہ بندی شروع ہوتی ہے۔ سو ‘وہ شروع ہو گئی۔ آخر میں کام شروع ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اس تیسرے مرحلے پر اول تو پہنچنے کی نوبت ہی نہیں آتی اور اگر آ جائے تو کام اتنی سست رفتاری سے ہوتا ہے کہ محسوس ہوتا ہے‘ اس کام کو مکمل کرنے کی تاریخ روز قیامت رکھی گئی ہے۔ ملتان‘ لاہور سے کون سا زیادہ دور ہے؟
لاہور کی طرح ملتان کے پرانے شہر کی بحالی کا کام بھی روز قیامت والے دن کو سامنے رکھ کر شروع کیا گیا تھا ‘لیکن ہم گنہگاروں کو اس روز کا اتنا خوف ہے کہ کام صرف اس وجہ سے مکمل نہیں کرتے کہ کہیں اس روز واقعی قیامت نہ آ جائے۔ یہ کام برسوں سے وہیں کھڑا ہے ‘جہاں سے شروع ہوا تھا۔
ملتان شہر کے چھ دروازے تھے۔ دولت دروازہ، دہلی دروازہ، پاک دروازہ، حرم دروازہ، بوہڑ دروازہ اور لوہاری دروازہ۔ ان میں سے اب صرف تین دروازے‘ یعنی دہلی دروازہ، حرم دروازہ اور بوہڑ دروازہ موجود ہے۔ گزشتہ تین سال میں صرف حرم دروازے پر مٹی کا پلستر ہوا ہے اور قدیمی مسافر خانے کی مرمت ہوئی ہے۔ باقی سارا منصوبہ ابھی تک کاغذوں میں ہے۔ 
قدیمی فصیل یعنی ''النگ‘‘ برباد ہو چکی ہے۔ تجاوزات کی بھرمار ہے۔ بوہڑ گیٹ کے دائیں بائیں قبضہ گروپ نے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ Walled city project کے کروڑوں روپے غتر بود ہو چکے ہیں اور باقی اس مرحلے سے گزر رہے ہیں۔
قارئین! معاف کیجئے بات کہیں کی کہیں چلی گئی‘ لیکن میرا خیال ہے‘ یہ کالم بہرحال سیاسی ہرگز نہیں ہے۔ دل کی بھڑاس نکالنا کسی طور بھی سیاسی عمل نہیں کہلا سکتا۔ آگے جیسے آپ کی مرضی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved