اس بار فیض فیسٹیول کے لیے‘ سرحد کے اس پار سے آنے والوں میں شبانہ اعظمی بھی تھیں‘ کیفی اعظمی کی صاحبزادی ‘ جاں نثار اختر کی بہو اور جاوید اختر کی شریکِ حیات ۔ لیکن شبانہ اپنی شناخت بھی رکھتی ہیں۔ اپنے دور میں بالی ووڈ کی مقبول اور منفرد فن کارہ ‘انڈین پارلیمنٹ کے ایوان بالا(راجیہ سبھا) کی رکنیت ان ہی عظیم الشان خدمات کااعتراف تھا۔ لیکن ہمیں شبانہ کا ذکر ایک اور حوالے سے کرنا ہے۔
وہ کوئی فلمی منظر نہیں تھا‘ احمد آباد میں مسلم کشی کی کہانی نے شبانہ پرواقعی قیامت ڈھا دی تھی۔ بھارتی ریاست گجرات میں تب نریندر مودی کی حکومت تھی۔ 2002ء کے اوائل میں یہاں سرکارکی سرپرستی میں ہونے والے مسلم کشی کے واقعات تاریخ کا بدترین المیہ تھے۔ یہاں تک کہ امریکہ اور یورپ کے بعض ممالک نے دہشت گردمودی کا اپنے ہاں داخلہ ممنوع قرار دے دیا تھا۔ جدہ میں ہمارے زیر ادارت جریدے کے لیے ممبئی میں مقیم راشد اختر نے ان فسادات کی جو رپورٹس بھجوائیں انہیں پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتا تھا۔ بلوائیوں کے محاصرے میں کانگریس کا سابق رکن پارلیمنٹ76سالہ احسان جعفری امن وامان کے ذمہ دار اداروں کو فون کرتا رہا اور آخر اپنے گھر والوں سمیت شعلوں کی نذر ہوگیا۔ ان فسادات کا المناک ترین پہلو انسانوں کا یہی زندہ جلایا جانا تھا۔ حملہ آور اپنے ساتھ پٹرول اور تیل کے ڈبے لاتے اور زندہ انسانوں کو آگ لگا کر ''رقصِ بسمل ‘‘ سے لطف اندوز ہوتے۔
آگ اور خون کا یہ طوفان کئی روز جاری رہا۔ وحشت کی آندھی اتری تو دہلی سے ایک پارلیمانی وفد احمد آباد پہنچا‘ ان میں راجیہ سبھا کی رکن شبانہ اعظمی بھی تھیں۔ یہاں چار سُو تباہی وبربادی کے مناظر تھے‘ بہیمت کی کہانیاں ۔ پناہ گزین کیمپ میںپانچ سالہ کرشمہ رحمان کو اس کے سوا کچھ یاد نہ تھاکہ وحشیوں کے ایک ہجوم نے اس کے ماں باپ کو زندہ جلا دیا تھا۔ اس کے چہرے پر خوف اور ہراس کے سائے لرزاں تھے۔ اس کی آنکھوں میں سیلاب امڈ آتا اور ہچکیاں بندھ جاتیں۔ ایک مہر بان اور شفیق رشتے دار اس کے معصوم خساروں سے آنسو پونچھنے لگتا۔ شبانہ اعظمی کے اعصاب جواب دے گئے۔ کچھ اور دیکھنے اور سننے کا یارا‘ نہ رہا۔ انہوںنے واپسی کا قصد کیا‘ ہوٹل کے استقبالیہ سے چابی لی اور وہیں صوفے پر گر گئیں ۔ وہ چیخ رہیں تھیں: انہیں اس لئے ماردیا گیا کہ وہ مسلمان تھے؟ وحشیوں نے انہیں زندہ جلادیا۔ اس لیے کہ وہ مسلمان تھے؟
گزشتہ کی طرح اس بار بھی الحمرا لاہور میں فیض فیسٹیول بہت بھرپور رہا۔ یہ الگ بات کہ بعض ناقدین کے خیال میں یہ فیسٹیول اس اشرافیہ کے میل جول کا بہانہ بن گئے ہیں‘ فیض نے جس کے خلاف علم بلند کیا تھا۔
اقبال کی ''بانگ درا ‘‘اور'' بال جبریل‘‘ کی بیشتر نظمیں ہمیں سکول ہی میں ازبر ہوگئی تھیں۔ کالج اور یونیورسٹی میں ہم ''ایشیا سبز ہے‘‘کے نعرے لگاتے۔ اب سید مودودی ؒ کی نثر کے ساتھ ماہر القادری اور نعیم صدیقی کی نظم بھی ہمارے رگ وپے میں گردش کرتی تھی۔ لیکن دلچسپ بات یہ کہ فیض‘ ساحر اور فراز کو بھی ہم پڑھتے اور خوب پڑھتے۔ ہمیں ان کی شاعری بھی اچھی لگتی۔ نیو کیمپس کی نہر کے کنارے ٹہلتے ہم انہیں بھی گنگناتے۔ یاد آیا‘قاضی صاحب نے بھی ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ فیض کی شاعری بھی ان کے انقلابی جذبوں کے لیے مہمیزکا باعث بنتی تھی۔ ہمارے سجاد میر صاحب ادبی حلقوں کی تنقیدی مجالس میں نوجوان رائٹسٹوں کے سرخیل ہوتے ‘ لیکن فیض صاحب کے انتقال پر اپنے مضمون میں میر صاحب نے انہیں''اردو کا آخری شاعر‘‘ قرا ر دے دیا۔
فیض صاحب کے فنی محاسن پر بہت کچھ لکھا جاچکا ‘ بہت کچھ لکھاجائے گا لیکن ہم یہاں فیض صاحب کی شخصی خوبیوں کا ذکر کرنا چاہتے ہیں۔ ایک بھلا مانس ‘ وضعداراورشریف انسان... اگلے زمانوں کی شرافت کا نمونہ۔
2001ء میں احمد فراز اُردو مرکز کے سالانہ مشاعرے میں شرکت کے لیے جدہ آئے‘ تو ان سے ایک طویل انٹرویو میں فیض صاحب کا ذکر بھی ہوا۔ فراز کا کہنا تھا:وہ بطور انسان بھی بہت بڑے تھے۔بھٹو دور میں اکیڈمی آف لیٹرز(اکادمی ادبیات) کا قیام عمل میں آیا تو وزیر تعلیم حفیظ پیر زادہ نے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فراز صاحب کا نام تجویز کردیا۔ انہیں یہ ذمہ داری سنبھالے کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ ایک روز فیض صاحب تشریف لائے اور بڑی محبت سے فرمایا : تخت نشینی مبارک ہو۔ چائے کے دوران اکیڈمی کے حوالے سے فراز کے عزائم کا پوچھا‘ تو انہوں نے فیض صاحب کے سامنے ایک فہرست رکھ دی‘ ان اصحابِ علم وادب کی فہرست ‘جن سے اکیڈمی کے سلسلے میں وہ رہنمائی حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اس میں حفیظ جالندھری صاحب کا نا م نہیں تھا۔ فیض صاحب نے توجہ دلا ئی تو فراز نے کہا: اسے چھوڑیں جی! آپ نہیں دیکھتے کہ وہ آپ کے خلاف کیا کچھ لکھ رہاہے۔ فیض صاحب کا جواب تھا: اس سے کیا فرق پڑتا ہے‘ قلم تھاما اور خود اپنے ہاتھ سے لکھا‘ ابولاثر حفیظ جالندھری ۔
فیض کی چھوٹی صاحبزادی منیزہ کے پاس اپنے ابا کی شرافت اور وضعداری کے حوالے سے مزے مزے کی کہانیاں ہیں۔ ان میں سے ایک کہانی:ان دنوں فیض صاحب ''خفیہ والوں‘‘ کی خصوصی نگرانی میں ہوتے تھے۔ وہ کتنے بجے گھر سے نکلے‘ کہاں کہاں گئے‘ کس کس سے ملاقات کی‘ کتنے بجے واپس آئے؟ ان سے ملاقات کے لیے کون کون آیا‘ کتنی دیر ان کے ہاں رہا۔ کب واپس گیا؟ اس مقصد کے لیے خفیہ والے گھر کے باہر ڈیرہ ڈالے رکھتے۔ فیض انہیں بھی اپنا مہمان سمجھتے اور اندر سے چائے وغیرہ بھجواتے رہتے۔ ایک شام فیض صاحب کا کہیں جانے کا ارادہ نہیں تھا‘کسی دوست کے آنے کا پروگرام بھی نہیں تھا۔ فیض وہ شام گھر پرہی گزارنا چاہتے تھے۔ انہوں نے خفیہ والوں کو یہ بات بتائی اور کہا کہ وہ بھی گھر جاکر آرام کریں۔ کچھ دیر بعد ایک دوست کا فون آگیا‘ ایک مشترکہ شناسا جس سے ملنے آرہاتھا اور اس کا اصرار تھا کہ فیض صاحب بھی چلے آئیں۔ فیض کے لیے انکار ممکن نہ ہوا۔ دوست نے گاڑی بھجوادی اور فیض روانہ ہوگئے۔ دلچسپ بات یہ کہ وہ دوست بھی حکومت کی ناپسندیدہ فہرست میں شامل تھا اس کے اپنے ''خفیہ والے‘‘ تھے‘ جنہوں نے اپنی رپورٹ میں ساری تفصیل لکھ بھیجی کہ اس شام آنے والوں میں فیض بھی تھے‘ وہ اتنے بجے آئے اور اتنی دیر رہے۔ اگلے دن فیض صاحب کے خفیہ والے گلہ کررہے تھے کہ جناب آپ نے ہماری جواب طلبی کروادی‘ آپ نے تو کہاتھا کہ آپ کو کہیں آنا جانا نہیں‘ لیکن آپ فلاں صاحب کے ہاں گئے اور ادھر اتنی دیر رہے۔ وہاں کے خفیہ والوں کی رپورٹ میں یہ سب کچھ موجود تھا۔ ہمیں اس پر محکمانہ کارروائی کا نوٹس جاری ہوگیا۔ فیض صاحب سخت شرمندہ تھے‘ تاہم خفیہ والوں کو یقین تھا کہ یہ سب کچھ ''اچانک‘‘ ہوا ورنہ فیض صاحب نے ان سے غلط بیانی نہیں کی تھی۔
شبانہ اعظمی کی کہانی آپ اُوپر پڑھ چکے‘ فیض کی صاحبزادی پر مودی کے ہندوستان میں کیا گزری‘ ابھی چند ماہ پہلے کی بات ہے‘ 72سالہ منیزہ ایشیا پیسیفک انسٹی ٹیوٹ فار براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کوا لالمپورکی میڈیا کانفرنس میں شرکت کے لیے دہلی میں تھیں۔ انہیں کانفرنس میں''کی نوٹ ایڈریس‘‘ کے لیے دعوت دی گئی تھی۔ان کے پاس انڈیا کا ملٹی پل انٹری ویزہ تھا۔ منتظمین نے انہیں اسی ہوٹل میں ٹھہرایا جہاں کانفرنس منعقد ہورہی تھی۔ اچانک انہیں بتایا گیا کہ کانفرنس سے ان کے خطاب کا پروگرام منسوخ کردیا گیا ہے۔ وہ کانفرنس میں ایک سامع کے طور پر بھی شریک نہیں ہوسکتیں‘ کانفرنس کے شرکا کے ساتھ ان کا ڈنر بھی ممنوع قرار پایا۔ اس ہوٹل میں ان کی ریزرویشن بھی منسوخ کردی گئی تھی۔ منتظمین کے لیے یہ صورتحال سخت شرمندگی کا باعث تھی‘ لیکن وہ بے بس تھے‘ آنکھوں میں آنسوئوں کے ساتھ انہوں نے ایک اور ہوٹل میں اپنی معزز مہمان کے قیام کا اہتمام کردیا۔
''نسخہ ہائے وفا‘‘ کے دوسرے مجموعے''دستِ صبا‘‘ کاانتساب کلثوم کے نام ہے۔منیزہ سے سوال تھاکہ یہ کلثوم کون تھی؟ منیزہ نے بتایا ‘ ابا نے ہماری دادی صاحبہ سے (جنہیں گھر میں ''بے بے جی‘‘ کہا جاتا ) شادی کی اجازت چاہی تو ان کی شرط تھی کہ اس کے لیے بہو کو اسلام قبول کرنا ہوگا۔ ''دستِ صبا‘‘ کی کلثوم ‘منیزہ(اورسلیمہ )کی والدہ تھیں‘ فیض صاحب کی ایلس ۔