نواز شہباز کو بند گلی میں پہنچانے والوں
سے پوچھ گچھ ہونی چاہئے:چودھری نثار
سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ ''نواز شہباز کو بند گلی میں پہنچانے والوں سے پوچھ گچھ ہونی چاہئے‘‘ کہ انہوں نے تو کبھی چوڑی سڑک کے علاوہ سفر ہی نہیں کیا‘ وہ لوگ جنہیں بند گلی میں کیسے لے گئے اور اگر وہ بند گلی میں چلے ہی گئے تھے اور آگے جانے کا راستہ نہیں ملتا تو وہ وہاں سے واپس کیوں نہیں ہوگئے‘ تاہم اس سے نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ شہروں میں بند گلیاں ہونی ہی نہیں چاہئیں اور اگر ہوں بھی تو خاتمے پر یہ بورڈ نصب ہونا چاہئے کہ یہاں سے واپس بھی جاسکتے ہیں‘ کیونکہ نواز شہباز جیسے معصوم لوگوں کو یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ کہیں سے واپس بھی ہو جانا چاہئے ‘ورنہ ان کا جو پسندیدہ ترین کام تھا ‘جس میں وہ لگاتار مصروف رہے‘ اس میں انہوں نے آخر دم تک کبھی واپسی کا سوچا تک نہ تھا؛ حتیٰ کہ اب جیل سے واپسی کا بھی ان کا کوئی ارادہ نہ ہوگا‘ کیونکہ دونوں بیحد مستقل مزاج آدمی ہیں اور جو کام کرتے ہیں ؛اگر اس میں فائدہ ہو تو کرتے ہی چلے جاتے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔
کشمیریوں پر بھارتی مظالم کھلی دہشت گردی ہے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''کشمیریوں پر بھارتی مظالم کھلی دہشت گردی ہے‘‘ بلکہ مجھے اس سے بھی بڑی دہشت گردی کا سامنا ہے کم از کم کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ ہی میرے پاس رہنے دی جاتی‘ جس دوران میں کشمیریوں کا غم وغصہ کرنے کیلئے مختلف ممالک کے دورے کرتا رہا جن کے دوران میری صحت بھی قابل رشک ہوگئی تھی کیونکہ خون میں اضافے سے خوش مزاجی میں بھی اضافہ ہوتا ہے جبکہ اب تو اڑتے جہازوں کو آتے جاتے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتا رہتا ہوں اور صحت خراب سے خراب تر ہوتی رہتی ہے اسی لئے میں کہتا ہوں کہ میرے خلاف دہشت گردی کرنے والوں کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ قائم ہونا چاہئے ‘لیکن حکومت ڈیم جیسی فضول چیزوں کیلئے جگہ جگہ فنڈز اکٹھے کرتی پھرتی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں مختلف وفود سے ملاقات کر رہے تھے۔
حکومت ختم کرنے کیلئے کبھی آگے نہیں آئیں گے: خورشید شاہ
پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید علی شاہ نے کہا ہے کہ ''حکومت گرانے کے لئے کبھی آگے نہیں آئیں گے‘‘ بلکہ یہ کار خیر پیچھے رہ کر ہی کریں گے‘ جبکہ آگے ہمارے فرنٹ مین ہوں گے‘ زرداری صاحب سے جنہیں ادھار لیا جاسکتا ہے؛اگرچہ متعدد زعماء اندر ہوچکے ہیں‘ لیکن اب بھی ایسے جانثار موجود ہیں‘ جن سے یہ انقلابی کام لیا جاسکتا ہے‘ جبکہ ہماری پارٹی ویسے بھی انقلابی واقع ہوئے ہیں اور میری فائلیں کھلنے سے جو انقلاب آنا ہے‘ ہماری کوشش یہی ہوگی کہ حکومت گرانے کا یہ کام اس سے پہلے پہلے ہی کر دیا جائے اور یہ کام پیچھے رہ کر اس لئے کیا جائے گا کہ آگے ہو کر اسے انجام دینے کے وسائل میں نہیں ؛ حالانکہ زرداری اور گیلانی صاحب کے علاوہ بھی کئی دیگر معززین ایسے پارٹی میں موجود ہیں‘روپیہ پیسہ جن کیلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا کہ وہ ویسے ہی سیر چشم لوگ ہیں‘ بلکہ دوسروں کی نسبت کچھ زیادہ ہی سیر چشم واقع ہوئے ہیں‘ اللہ کی دین ہے اور اللہ میاں کے پاس بے شمار چھپڑ ایسے موجود ہیں‘ جنہیں پھاڑ پھاڑ کر وہ اپنے بندوں پر پیسے برساتے رہتے ہیں۔ آپ سکھر میں کارکنوں سے گفتگو کررہے تھے۔ آخر میں اظہار الحق کا بقایا ہدیہ نعت:
مدینے کی ہوا ہے اور رخساروں پہ پانی
کوئی ایسی لغت جس میں سنائوں یہ کہانی
تھما بھی ہے کبھی کیا سیل انسانوں کا اس میں
پریشاں ہے مدینے میں ابد کی بیکرانی
برہنہ پا کھڑی ہے رات پتھر کی سلوں پر
سروں پر صبح صادق نے عجب چادر ہے تانی
یہاں مٹی میں کنکر لعل اور یاقوت کے سب
درختوں پر یہاں سارے پرندے آسمانی
مرے آقا کے چاکر اور یہ طائوس کا تخت
مرے مولا کے خدمتگار اور تاجِ کیانی
مطہر جسم پر دیکھو چٹائی کے نشاں ہیں
چٹائی کے نشاں اور دوجہاں کی حکمرانی
کہاں تھا وقت‘ میں جب جالیوں کے سامنے تھا
مجھے اس نے سمجھ رکھا ہے کس برتے پہ فانی
کہاں میں اور کہاں یہ فرش اور پلکوں کے جاروب
زہے قسمت کہ میں نے لوٹ لی یہ میہمانی
کہاں یہ گنبد خضریٰ کہاں بینائی میری
کہاں قلاش مجھ سا اور کہاں یہ شہ جوانی
اسی دہلیز پر بیٹھا رہے مرا بڑھاپا
انہی کوچوں میں گزرے میرے بچوں کی جوانی
رہے میرا وطن اس شہر کے صدقے سلامت
قیامت کے طلاطم میں وہ کشتی بادبانی
مرے آبِ وضو سے بھیگتی ہے رات اظہارؔ
مری آنکھوں سے گرتے ہیں ستارے زرفشانی
..................
ہر اک محاذ پہ لشکر تباہ امت کے
حضور ختم ہوں یہ دن سیاہ امت کے
حضور آپ پہ قربان میرے ماں اور باپ
بدل بھی دیجیے شام و پگاہ امت کے
کسی کا تخت ہو یا جبر‘ کچھ نہیں ہے یہاں
بس ایک آپ ہی ہیں بادشاہ امت کے
غلام جمع ہیں‘ میدان حشر ہے‘ اظہارؔ
چھپے ہوئے ہیں کہاں کج کلاہ امت کے
آج کا مقطع
اُمّیدِ وصل کو ظفرؔ اتنا غلط نہ جان
اس جھوٹ سے ہی سوچ میں سچائی آئے گی