نظم گو‘ فکشن رائٹر اور نقاد علی اکبر ناطق کا یہ پہلا مجموعۂ غزل ہے۔ اس سے پہلے نظموں کے تین مجموعے‘ افسانوں کا ایک اور ناول شائع ہو کر اہلِ نظر سے داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ یہ کتاب سانجھ لاہور نے چھاپی اور اس کی قیمت 250 روپے رکھی ہے۔ ٹائٹل زیف سید نے بنایا اور انتساب شمس الرحمن فاروقی کے نام ہے۔ دیباچے افتخار عارف اور ارسلان احمد راٹھور جی سی یونیورسٹی‘ لاہور نے لکھے ہیں۔ گیٹ اپ عمدہ اور غزلوں کی تعداد 52ہے۔
افتخار عارف اپنے دیباچے ''ریشم کی تاریں بنانے والا شاعر‘‘ میںلکھتے ہیں: ''ناطق کی غزل اپنے قصبے کی دیواروں اور کھیتوں کی سبز مٹی سے جڑی ہے۔ اس کی زبان کا خمیر اپنی دھرتی کی خوشبوؤں سے اُٹھا ہے۔ اس کا ایک ایک مصرع اس کے اٹوٹ سمبندھ کی گواہی دیتا ہے۔ یہ ہنر آفریں شعری طلسم کسی کاوش کا نتیجہ نہیں‘ بلکہ اس الہامی اور وجدانی توفیق کی جزا ہے‘ جس نے ناطق کو اپنی شاداب و خوش رنگ پانیوں والی دھرتی سے باندھے رکھا ہے۔ اس کی برساتیں‘ اس کی صبحیں‘ شامیں اس کے پنکھی پکھرو‘ اس کی جھاڑیاں ‘پھل پھول‘ ہریالی‘ اس کے کھیت کھلیان ناطق کے وجود کا حصہ ہیں۔ اس کے سبز دیس سے جنم جنم کے رشتوں میں بندھے ہوئے‘ گندھے ہوئے پنجاب کا دیہات‘ شہر اور قصبہ اپنی تمام اور بلند تر تخلیقی نہج کے ساتھ اردو غزل میں پہلی بار ایک مطلق علیحدہ جمالیات کے ساتھ ناطق کی شاعری میں ظاہر ہوا ہے۔ ہمارے زمانے میں بہت اچھی غزل لکھی گئی‘ مگر علی اکبر ناطق کی یہ غزل ہرگز اُن غزلوں کے ساتھ نہیں رکھی جا سکتی۔ میں ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ یہ سب سے الگ ہے‘ سب سے جداگانہ شناخت رکھتی ہے اور اردو غزل کی ایک نئی بنیاد قائم کرتی ہے۔ علی اکبر ناطق کی ایک بڑی خوبی اس کے لفظوں میں استعمال ہونے والے حرفوں اور لفظوں کے اندر خفی رعایتوں کی بڑی بڑی کہانیاں ہیں‘ جنہیں اگر کھولیں تو ہزاروں سال سے تاریخ میں پیدا ہونے والے واقعات کی گتھیوں سے لے کر ثقافتوں کے قفلِ ابجد ہیں۔ کھولتے جائیے اور دیکھتے جائیے‘ مگر اس کیلئے آپ کو شعر فہمی کی عمیق گہرائیوں میں اُترنا ہوگا‘ وہیں ان حرفوں اور لفظوں کے درمیان دوڑتی ہوئی موسیقی ہے کہ دل گنگنانے لگتا ہے۔ اس کا ذائقہ بالکل جداہے‘ یہ رس‘ یہ ترنم جو مصرعوں میں تقسیم و تراکیب کے ساتھ اس کے صوتی نظام کو برقرار رکھتی ہے۔ مربوط بھی رکھتی ہے اور درجہ بدرجہ آگے بھی بڑھاتی ہے۔ یہ ہنر مندی میرے لیے ناطق کے ہنر کا سب سے بڑا کمال ہے‘‘۔
ارسلان احمد راٹھور نے اپنے طویل و عریض دیباچے میں شاعر کے جو منتخب اشعار درج کیے ہیں‘ ان میں سے کچھ حاضر ہیں:
دن کا سمے ہے چوک کنوئیں کا اور بانکوں کے جال
ایسے میں ناری تو نے چلی پھر تیتری والی چال
جامنوں والے دیس کے لڑکے‘ ٹیڑھے ان کے طور
پنکھ ٹٹولیں طوطیوں کے وہ پھر کر ہر ہر ڈال
شام کی ٹھنڈی رُت نے بھرے ہیں آبِ حیات سے نین
مونگروں والے باغ نے اوڑھی گہری کاسنی شال
کبھی تو چل کے دیکھ سائے پیپلوں کے دیس کے
جہاں لڑکپنا ہمارے پہلو سے جُدا ہوا
نگر ہیں آفتاب کے برہنہ گنبدوں کے سر
سروں پہ نور کے کلس‘ میں نور میں اُتر گیا
ترے نگر کی راہ میں تھی ایک جھیل ایک چاند
میں جھیل میں اُتر گیا‘ میں چاند میں سما گیا
یہی میرا مکان تھا اور اس جگہ نشست تھی
یہاں تو ایک دن رکا اور ایک دن چلا گیا
گریے جم جم کے یوں کیے ہم نے
دشت زم زم سے بھر دیئے ہم نے
خلا میں اُڑنے والوں کی سماعتیں نہیں رہیں‘ ہمیں خبر نہ تھی
وہ لفظ کی ہوا کو بھی نہ چھو رہے تھے‘ ہم سدا دئیے گئے
کون گگن پر چاند جلا کر‘ دُودھ نہا کر‘ اُجلا اجلا نکلے گا
جس کے لہو کی روغنی تاریں چاندنی کاتیں‘ دن برسائیں غاروں میں
اب ارسلان احمد راٹھور کے دیباچے سے اک مختصر اقتباس: ''دمِ تحریر میں نے ان شعروں کا انتخاب سرسری طورپر کیا ہے۔ ان میں زبان کی ندرتیں‘ لفظ کے باطن سے پھوٹنے والی تخلیقی جہتیں اور آوازوں کی گھلاوٹیں (خصوصاً صوت کی سطح پر ہندی الاصل اور پنجابی لفظوں کی پُرلطف موسیقی) جتنی گہری اور عمیق ہیں‘ اُن کو چھوڑتے ہوئے بھی شعر کے رسمیاتی دائرے میں آنے والی تبدیلی اتنی بڑی اور تخلیقی ہے کہ ذ ہن رسا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا...‘‘۔
برادم افتخار عارف کے بقول اس شاعر ی کو سمجھنے کے لیے آپ کو شعر فہمی کی عمیق گہرائیوں میں اترنا ہو گا‘ جبکہ میری ناقص رائے میں شعر وہ ہوتا ہے‘ جو عام قاری کو بھی اپیل کرے اور خاص کو بھی اور اس میں لطف سخن بھی ہو؛ چنانچہ یہ شاعری خاص ‘بلکہ خاص الخاص قارئین کے لیے ہے‘ جن میں خود میں بڑ امشکل سے فٹ ہوتا ہوں۔شعر کی پوشاک‘جو بھی ہو‘ موضوع کی بھی کوئی قید نہیں‘ لیکن اس میں شاعری کا ہونا از بس ضروری ہے۔ہنر وری اور کاری گری کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا‘ لیکن دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ شعر‘ شعر بنا ہے یا نہیں اور علی اکبر ناطق ایسا شعر کہنے کی قدرت بھی رکھتا ہے‘ جو ہر طرح کے با ذوق قاری کو اپیل کرے‘ جو شعر کا بنیادی مقصد بھی ہے۔ مثلاً یہ والے اشعار دیکھیے:
گھنٹیاں یار کے دروازے پہ باندھ آیا ہوں
ایک زنجیرِ ہوس دل میں صدا ہلتی رہی
غنچہ غنچہ ہنس رہا تھا‘ پتی پتی رو گیا
پھول والوں کے گلی میں گل تماشا ہو گیا
آج کا مقطع
کوئی اہلِ کرامات ہو جو‘ ظفرؔ
اس زمیں کو ذرا آسمانی کرے