فیض احمد فیض بائیں بازو والے انقلابیوں کے شاعر تو تھے ہی، لگتا ہے کہ اب وہ دائیں بازو والوں میں بھی غیر متنازعہ ہو گئے ہیں (اگرچہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد ''دائیں‘‘ اور ''بائیں‘‘ کی وہ تقسیم باقی نہیں رہی) اس کا اندازہ ہمیں فیض فیسٹیول کے عنوان سے اپنے گزشتہ کالم پر احباب کے رد عمل سے ہوا۔ کالم کی تنگ دامانی کے باعث تفصیل میں جانا ممکن نہیں، نمونے کے طور پر دو مثالیں:
کراچی کی عطیہ اقبال زیدی، صلاح الدین (شہید) والے کراچی کے روزنامے میں ہماری کولیگ رہیں (ہم لاہور میں اس روزنامے کے بیوروچیف ہوتے تھے) عطیہ کا تعلق کراچی کے تحریکی گھرانے سے تھا۔ ان کے والد حکیم اقبال حسین جماعت اسلامی کراچی کے نمایاں وابستگان میں شمار ہوتے۔ عطیہ نے عملی زندگی کیلئے صحافت کا انتخاب کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کراچی کے صحافیوں میں نمایاں ہو گئیں (حجاب اس میں رکاوٹ نہیں بنا تھا) یہ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہاد کا دور تھا۔ عطیہ کو پتہ چلا کہ لاہور سے اخبار نویسوں کا ایک وفد جہاد کا بچشم خود مشاہدہ کرنے افغانستان جا رہا ہے، تو وہ بھی کراچی سے آ پہنچیں۔ لاہور سے اس وفد میں زبیدہ خانم اور فرزانہ ممتاز شفیع بھی تھیں (عطیہ کی طرح یہ دونوں بھی اس وقت اس کوچے سے رخصت ہو گئیں جب اپنی محنت اور صلاحیت سے یہاں اپنی شناخت بنا چکی تھیں)۔ افغانستان کا صحافتی ایڈونچر آسان نہ تھا لیکن یہ سب بے خوف و خطر ان مراحل سے گزر گئیں (اس دورے کا اہتمام جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری اطلاعات مرحوم صفدر چودھری صاحب نے کیا تھا) ہمارے گزشتہ کالم کے حوالے سے عطیہ نے لکھا: فیض کی شاعری میں نغمگی ہے، آہنگ ہے۔ ''جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا‘‘ ، یہ ''کوئی‘‘ تو ''کوئی‘‘ بھی ہو سکتا ہے، اس کیلئے کمیونسٹ ہونا ضروری تو نہیں۔
مسعود کھوکھر ان طالب علم لیڈروں میں شمار ہوتے تھے جنہوں نے بھٹو صاحب کے ''نئے پاکستان‘‘ میں عوامی دہشت کو توڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ہم پنجاب یونیورسٹی لا کالج سے فارغ ہو رہے تھے جب مسعود کھوکھر جمعیت کے ٹکٹ پر یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر منتخب ہوئے۔ گزشتہ جمہور نامہ پر انہوں نے لکھا : اس میں شک نہیں کہ فیض بڑے شاعر تھے، بنیادی طور پر انقلابی شاعر۔ مسعود کھوکھر کو یاد ہے کہ ڈاکٹر نذیر احمد کی شہادت پر آغا شورش کاشمیری کے ہفت روزہ ''چٹان‘‘ کے سرورق پر شہید کی تصویر کے نیچے فیض کا یہ شعرتھا:
جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا
مسعود نے چٹان کا یہ سرورق فریم کروا کے اپنے ہوسٹل کے کمرے میں سجائے رکھا۔ 1970ء میں بھٹو صاحب کے طوفان میں ڈاکٹر نذیر احمد پنجاب سے جماعت اسلامی کے واحد رکن قومی اسمبلی تھے۔ انہوں نے لغاری قبیلے کے سردار محمد خان لغاری کو شکست دی تھی۔ بھٹو صاحب کے اقتدار کو ابھی چھ ماہ ہوئے تھے کہ ڈاکٹر صاحب کو ڈیرہ غازی خان میں ان کے کلینک میں شہید کر دیا گیا۔ (6 جون 1972)
عائشہ غازی نے ، شبانہ اعظمی کے حوالے سے ہماری بات کو آگے بڑھایا ''شبانہ نے مودی کے گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام پر فلم بھی بنائی تھی، جسے انڈیا میں چلنے نہیں دیا گیا۔ اس میں زیادہ تر حقیقی واقعات شامل کئے گئے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ کوئی بھی دردِ دل رکھنے والا یہ فلم نہیں دیکھ سکتا تھا۔ فلم ایسی تھی تو حقیقت کیسی درد ناک ہو گی، تصور سے باہر ہے (سوشل میڈیا پر عائشہ غازی کے تعارف میں ''خزاں کی آہٹ‘‘ اور ''عذاب آگہی‘‘ کی شاعرہ کے ساتھ ڈاکومنٹری فلم میکر اور مالیکیو لر بائیولوجسٹ بھی لکھا ہے)
گزشتہ کالم میں فیض صاحب کے حسن اخلاق کے حوالے سے احمد فراز کے ایک انٹرویو کا حوالہ تھا۔ جدہ میں 17 سال قبل کئے گئے اس طویل انٹرویو کے کچھ حصے نذرِ قارئین ہیں:
فراز صاحب! معاف کیجئے، آپ کے متعلق مذہب بیزاری کا جو تاثر ہے، اس کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
''دیکھیں! میں پوری دیانتداری سے سمجھتا ہوں کہ مذہب تو ابتدائے آفرینش سے ہی انسان کی ضرورت تھی جب کوئی فلاسفی نہیں تھی، انسان غیر مہذب، غیر متمدن اور غیر ترقی یافتہ تھا، مذاہب نے اسے تہذیب و تمدن سکھانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ آپ اسے پولیٹیکل رول کہہ لیں۔ پولیٹیکل تھنکنگ کہہ لیں۔ پیغمبر اسلامﷺ ، انسانیت کے سب سے بڑے قانون دینے والے تھے‘ (THE GREATEST LAW GIVER OF THE WORLD) آپ برطانیہ کی ''لنکنز ان‘‘ میں جائیں ، وہاں قانون دانوں کی فہرست میں محمدﷺ کا نام سب سے اوپر ہے۔
آپﷺ تاریخ کا جو عظیم ترین انقلاب لائے اس سے کسے انکار ہو سکتا ہے۔ میں مسلمان نہ بھی ہوتا تب بھی آپﷺ کے لیے میرے دل میں بے پناہ تقدس و احترام ہوتا۔ آپﷺ کا خطبہ حجۃالوداع انسانیت کی معراج ہے، آپﷺ نے فرمایا کہ آج سے کالے کو گورے پر، گورے کوکالے پر، کسی ایک قبیلے کو دوسرے قبیلے پر کوئی برتری حاصل نہیں۔ آپﷺ نے کمزوروں کا مال کھانا حرام قرار دیا، انسانوں کو عدل و مساوات کا درس دیا اور جاہلیت کی تمام اقدار کو اپنے پاؤں تلے روندنے کا اعلان فرمایا۔ یہ بلا شبہ انسانی عدل و مساوات کا ، فلاح انسانیت کا عظیم منشور ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مذہب انسان کو ایک خاص مقام بلند پر پہنچا کر اسے کہتا ہے کہ اب تم ان اصولوں کی روشنی میں زندگی بسر کرو۔ اپنے معاشرے کو اس طرح استوار کرو کہ کسی کے ساتھ ظلم نہ ہو استحصال نہ ہو، عدل و مساوات ہو، کوئی شخص قانون سے بالا تر نہ ہو۔ آپ مجھے اسلام کے نہیں، ''روایتی ملاّ ‘‘ کا مخالف کہہ سکتے ہیں‘ جو اسلام کی حقیقی روح سے نا آشنا ہے... لیکن اس میں بھی اس بے چارے کا کیا قصور...؟ ہمارا معاشرہ اسے دیتا کیا ہے؟ ہماری سوسائٹی میں اس کا مقام و منصب کیا ہے؟‘‘
''کچھ لوگ کہتے ہیں کہ فن اور فنکار کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، کیا آپ بھی اس نقطہ نظر کے حامی ہیں؟‘‘
''نہیں! میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ شعر و ادب کی تو کوئی جغرافیائی سرحد نہیں ہوتی‘ لیکن شاعر اور ادیب کی سرحد تو ہوتی ہے، اس کا گھر بھی ہوتا ہے وطن بھی ہوتا ہے جس طرح خوشبو کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، لیکن پھول تو جغرافیے کا اسیر ہوتا ہے۔ اس کی تو حد ہوتی ہے‘‘۔
''یہ بتائیے کہ مشاعرے کا ادب میںکیا رول ہے؟‘‘
''ہمارے جیسے ملک میں جہاں آئے روز مارشل لا لگتا رہتا ہے، آمریت کا دور دورہ رہتا ہے، الیکٹرانک میڈیا تو پہلے ہی سرکاری کنٹرول میں ہوتا ہے۔ آزاد ذرائع ابلاغ بھی پابندیوں کی زد میں آ جاتے ہیں۔ جلسے، جلوس بھی ممنوع قرار پاتے ہیں، ایسے میں مشاعرہ ہی ہے، جہاں کبھی جالب عوام کے جذبات و احساسات کو زبان بخشتا ہے۔ کہیں کوئی ہم جیسا سر پھرا کھڑا ہو جاتا ہے (ہنستے ہوئے) یہ الگ بات کہ اس کے بعد جیل جانا پڑ جائے۔ جذبات و احساسات کے اظہار پر پابندی لگانا بے وقوفی ہے۔ لوگوں کو بولنے دو، شاید ان سے کچھ سیکھ لو۔ کوئی بولے گا، تقریر کرے گا، تو شاید اس میں حکومت کیلئے بھی کوئی کام کی بات ہو‘‘۔
''فراز صاحب: بعض لوگوں کے خیال میں پاکستان میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ طاقت ور غیر سیاسی عناصر، پارلیمنٹ کی بالا دستی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ جھگڑا یہ ہے کہ یہاں اقتدار کس کے پاس ہونا چاہیے‘‘۔
''سیاسی عناصر ، سیاسی ادارے طاقتور ہوں گے تو کوئی انہیں کیسے ہٹا سکے گا؟‘‘
''لیکن کوئی انہیں مضبوط تو ہونے دے، یہاں تو...‘‘
''دیکھیں! سیاستدان اپنے رویوں کا جائزہ بھی لیں۔ وہ خود ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے ہیں۔ ایک دوسرے کو کمزور کرتے ہیں اور یہ صورتِ حال بالآخر فوج کو ایوانِ اقتدار کی طرف لے جاتی ہے‘‘۔