''دوست اسے سمجھئے‘ جس کے گھر کا دربان آپ کو باہر کھڑا کر کے اندر جا کر صاحب کو اطلاع دینے کی بجائے اسی وقت عزت و احترام سے دروازہ کھول کر آپ کو انتظار گاہ میں بٹھا دے‘کیونکہ ہر دربان جانتا ہے کہ اس سے ملنے کیلئے آنے والوں میں سے کن کن کے بارے میں صاحب کے دل میں کس قدر چاہت اور گرمجوشی ہے اور ان کے صاحب نے ان کا احترام کرتے ہوئے کہاں بٹھانے کا سختی سے حکم دے رکھا ہے‘‘۔ یہ مقولہ مجھے محترم ضیا شاہد کی کتاب'' نواز شریف میرا دوست‘‘ کی مال روڈ کے ایک پنج ستارہ ہوٹل میں تقریب رونمائی پر ان کی کتاب دیکھتے ہوئے یاد آیا۔ اخباری دنیا میں آج اگر اپنا کسی بھی درجے میں ذکر دیکھتا یا سنتا ہوں ‘تو مجھے فوراً ایک شخص کی یاد آتی ہے‘ جسے صحافتی دنیا میں چیف صاحب کے نام سے لکھا اور پکارا جاتا ہے ۔ حسن نثار‘ سلیم صافی‘ جاوید چوہدری‘ ایثار رانا‘ اسد اﷲ غالب‘ خالد مسعود خان‘ مبشر لقمان اور آج کے نہ جانے کتنے مشہور و معروف اینکرز اور کالم نگاروں کی پہلی تربیت گاہ چیف صاحب کا '' خبریں‘‘ اخبار بنااوریہاں سے انہوں نے لکھنے کا آغاز کیا اور کل کے گم نام یہ لکھاری ‘آج چوٹی کے صحافیوں کی فہرست میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں سے نا جانے کتنے ہیں‘ جنہوں نے اب کبھی مڑ کر بھی اپنے محسن و مربی اور استاد کی جانب ایک نظر دیکھنے کی زحمت نہیں کی ہے۔
خیر تو ذکر ہو رہا تھا '' نواز شریف میرا دوست‘‘ کے عنوان سے جو کتاب لکھی گئی ہے‘ اس کی تقریب رونمائی کیلئے آواری ہوٹل لاہور کا انتخاب کیا گیا‘ جس میںشہر ادب وثقافت‘ لاہور میں موجود نامور صحافیوں کے ساتھ ساتھ شیخ رشید احمد وفاقی‘ وزیر ریلوے مہمان ِخصوصی کے طور پر شریک ہوئے۔ شیخ رشید صاحب سے ضیا صاحب کا ایک ایسا سلسلہ نوک جھونک اس وقت سے جاری ہے ‘ جب سے شیخ رشیدسیا ست کے میدان میں وارد ہوئے ہیں۔ اس دوران ان دونوں میں کئی مرتبہ اونچ نیچ بھی ہوتی رہی ہے‘ کبھی کبھی ناراضگیاں بہت حد تک بڑھ جاتیں ‘ لیکن جلد ہی تعلقات پھر سے معمول پرآ جاتے ۔میاں نواز شریف:بحیثیت ِوزیر اعظم اور جنرل پرویز مشرف:بحیثیت ِصدر جب بھی کوئی بریفنگ یا پریس کانفرنس کیلئے میڈیا کو بلاتے ‘تو ان کی موجو دگی میں ضیا صاحب ‘وزارت اطلاعات کے منصب پر ہونے کی وجہ سے شیخ صاحب سے کچھ ایسے سوالات کر جاتے‘ جس سے ان کی طبیعت مکدر ہوجاتی ‘لیکن جلد ہی سرد گرم تعلقات کا یہ سلسلہ پھر سے شروع ہوجاتا ‘کیونکہ ضیا صاحب کی طبیعت میںزیا دہ دیر تک ناراض رہنا ہے‘ ہی نہیں ۔'' میرا دوست نواز شریف ‘‘کے نام سے لکھی زیر نظر کتاب میں ضیا صاحب نے میرے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے‘ یہ ان کی ان یاد داشتوں پر مشتمل ہے ‘جب میں وزیر اعظم ہائوس ماڈل ٹائون میں سکیورٹی آفیسر کے طور پر خدمات انجام دیتا تھا اور وہیں میری ضیا صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی۔ ان کا نرم اور دلگداز لہجہ اور اپنائیت مجھے بھا گئی ‘جس نے میرے دل میں ان کیلئے ایک احترام کا جذبہ اور رشتہ پیدا کر دیا‘ جو آج تک جاری و ساری ہے۔
قارئین !یہ وہ دن تھے؛ جب غلام اسحق خان ‘محترمہ بے نظیر بھٹو اور دوسری سیا سی جماعتوں کی تحریک سے میاں نواز شریف کی وزارت ِعظمیٰ پر اٹھاون ٹو بی کا کلہاڑا چلا چکے تھے اور ایسے میں ضیا صاحب اور میاں نواز شریف کی وہ باہمی رواداری ‘جو ان کی پنجاب کی وزارت ِاعلیٰ سے شروع ہو ئی تھی ‘مزید نکھر کر سامنے آ گئی۔ ضیا شاہد کے اخبار کا ایک ایک صفحہ میاں نواز شریف کی حمایت میں کھل کر سامنے آ گیا۔سپریم کورٹ نے ان کی حکومت بحال کی‘ لیکن پھر بات غلام اسحٰق خان کی صدارت اور میاں نواز شریف کی وزارت ِعظمیٰ کے دو استعفوں کی صورت میں معین قریشی کی نگران وزارت ِعظمیٰ کے
سائے تلے سامنے آ ئی ۔اکتوبر1993ء کے عام انتخابات میں محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کی دوسری مرتبہ وزیر اعظم بن گئیں‘لیکن میں اپنی آنکھوں سے دیکھتا رہا کہ ضیا صاحب نے پنجاب میں منظور احمد وٹو کی وزارت ِاعلیٰ اور مرکز میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت ہونے کے با وجود میاں نواز شریف کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا ۔اس کا انہیں اور ان کے ادارے کو جو بہت نقصان ہو ا اورا س کی قیمت وہ آج بھی چکا رہے ہیں۔ مسلم لیگ نواز کی جانب سے اخبارات کو تحریکِ نجات کے جلسوں ‘ ریلیوں کی تشہیر کیلئے اشتہارات بھیجے جاتے ‘لیکن ضیا صاحب‘ نواز لیگ کے میڈیا سیل کی جانب سے ملنے والے ہر اشتہار کے ساتھ ایک اشتہار انہیں مفت میںاپنی جانب سے بطورِ تحفہ اور دوستی شائع کرتے رہے اور یہ اشتہارات شریف برادران کی بڑی بڑ ی رنگین تصویروں سے پہلے صفحہ پر سجاتے جاتے ‘لیکن ضیا صاحب کے دوست کو نہ جانے کسی نے کیا پٹی پڑھائی کہ انہوں نے سود تو دور کی بات ہے ‘اصل زر بھی دینے میں ٹال مٹول سے کام لینا شروع کر دیا۔ اب ضیا صاحب کبھی ماڈل ٹائون تو کبھی میڈیا سیل کے چکر لگانا شروع ہو گئے؛ چونکہ وہ اشتہارات‘ جو نواز لیگ کے میڈیا سیل نے اپنے خطوط کے ساتھ بھجوائے تھے ‘ان کی کل رقم اس وقت کے65 لاکھ تک پہنچ چکی تھی۔آج سے34 برس پہلے کے 65 لاکھ آج کے 25 کروڑ سے بھی زائد بنتے ہیں۔الغرض چیف صاحب نہ جانے کتنے برسوں تک اس رقم کیلئے لاہور سے اسلام آباد کے چکر لگاتے رہے‘ لیکن اب مایوس ہو کر شاید اپنے دوست کو معاف کرنے کا سوچ چکے ہیں‘ جس کا اظہار انہوں نے اپنی تقریر میں بھی کیا ۔
سینیٹ کے چیئر مین کے انتخابات کے فوری بعد مارچ1994ء میں میاں نوازشریف نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف تحریک ِنجات شروع کر دی اور اس سلسلے میں لاہور سے فیصل آباد‘ گوجرانوالہ‘ گجرات‘ ملتان اور کراچی سمیت ملک بھر میں جلسوں اور ریلیوں کا ایسا سلسلہ شروع کر دیا گیا ‘جن میں عوام بھر پور شرکت کر نا شروع ہو گئے۔ہر سیا سی حکومت اپنے خلاف چلائی جانے والی ان تحریکوں اور جلسوں کی کوریج کوKILL کرنے کیلئے اخبارات کے پہلے اور آخری صفحات پر حکومتی کار کردگیوں یا لوگوں کو توڑ پھوڑ اور امن عامہ میں خلل نہ ڈالنے جیسے بیسیوں قسم کے جہازی سائز کے اشتہارات کی بھر مار کر دیتی ہے‘لیکن اس وقت کے اخبارات کے صفحات گواہ ہیں کہ '' خبریں‘‘ اخبارنے سرکاری اشتہارات مسترد کرتے ہوئے میاں نواز شریف کے جلسوں اور ریلیوں کے مقامات اور وقت کے اشتہارات لگانے شروع کر دیئے۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت کے بڑے بڑے سیا سی لیڈران اور حکومتی شخصیات نے انہیں پی پی پی حکومت کے اشتہارات قبول کرنے کیلئے کئی مرتبہ سمجھایا بھی‘ لیکن ان پر میاں نوازشریف کے ان الفاظ کا جادو چڑھ چکا تھا‘ جب انہوں نے ماڈل ٹائون کے تعمیر کئے جانے والے گھر ضیا صاحب کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر کہا تھا '' ضیا صاحب‘ ہن میرا ہتھ چھڈنہ دینا‘میری آپ سے دوستی اب ہمیشہ قائم رہنی چاہئے‘‘۔
اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں منظور احمد وٹو سے ضیا شاہد کے ذاتی تعلقات تھے۔ انہوں نے کئی بار انہیں بلا کر سمجھایا کہ آپ نواز شریف کو چھوڑ کر ہمارا ساتھ دیں‘ لیکن یہ ضدی شخص دوستی کے دعوے اور وعدے کو نبھانے میں اس حد تک چلا گیا کہ میاں نواز شریف کے جلسوں میں باقاعدہ تقاریر شروع کر دیں اور وہ بھی اس وقت کے صدر مملکت سردار فاروق احمد خان لغاری کے خلاف سکینڈلز کے حوالے سے لغاری صاحب کے گھر کے سامنے۔الغرض ایک دوست کا قصہ تو طویل ہے‘ کالم کے مگر اپنے تقاضے ہیں اور اختصار لازم ہے۔