تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     30-11-2018

منصب لازم نہیں

ہر گھر‘ ہر ادارے‘ ہر حلقۂ احباب اور ہر سیاسی جماعت میں آپ کو ایسے افراد ملیں گے‘ جو کسی نہ کسی سطح پر قائدانہ کردار ادا کرتے ہیں اور اس حوالے سے اُنہیں کسی منصب کی کچھ خاص ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ ایسے افراد اچھی طرح جانتے ہیں کہ قائدانہ کردار منصب کا محتاج ہوتا ہے‘ نہ دعوت دیئے جانے کا۔ معاشرتی اور معاشی دونوں ہی سطح پر قائدانہ کردار ادا کرنے والے یہ سب کچھ اپنے طور پر کرتے ہیں۔ جن میں قیادت کا وصف پیدائشی طور پر پایا جاتا ہو یا محنت کے ذریعے پروان چڑھایا ہو ‘وہ اس بات کی پروا نہیں کیا کرتے کہ اُنہیں ایسا کرنے کو کہا گیا ہے یا نہیں‘جہاں بھی موقع ملتا ہے‘ وہ قائدانہ کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور عموماً کامیاب رہتے ہیں۔ 
تعلیمی اداروں میں قائدانہ کردار کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ ایک اچھا تعلیمی ادارہ دراصل مختلف درجات کے قائدین تیار کرنے کا فریضہ انجام دیتا ہے؛ اگر نصاب معیاری ہو اور اساتذہ غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل ہوں تو طلبا و طالبات میں قیادت کا رُجحان پیدا کرکے اُسے پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ سکول کی سطح سے قائدانہ کردار ادا کرنے والے بچوں میں اعتماد کی سطح خاصی بلند ہوتی ہے۔ وہ عملی زندگی میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے حوالے سے کامیاب رہتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہے جب اساتذہ میں بھی قائدانہ صلاحیت پائی جاتی ہو اور وہ اُسے طلباء و طالبات تک منتقل کرنے میں دلچسپی بھی لیتے ہوں۔ معیاری تعلیمی ادارے اس بات کا خاص اہتمام کرتے ہیں کہ بچوں میں قیادت کا وصف اور اس حوالے سے بھرپور اعتماد پیدا ہو۔ اسی بات کی وہ بھاری فیس بھی لیتے ہیں۔ 
قیادت کا وصف کسی خاص منصب کا تقاضا نہیں کرتا۔ کسی بھی صنعتی‘ تجارتی یا مالیاتی ادارے میں اعلیٰ منصب چند ہی افراد کو ملتا ہے۔ باقی تمام ملازمین احکام اور ہدایات پر عمل کے پابند ہوتے ہیں‘ مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سب کو کسی نہ کسی سطح پر اور کسی نہ کسی حد تک قائدانہ کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ یہ کردار ادا نہ کیا جائے‘ تو بنتی بات بھی بگڑ جاتی ہے۔ کسی بھی ادارے یا تنظیم میں قدم قدم پر باضابطہ قائدین کا تقرر ممکن نہیں ہوتا‘ مگر ہاں! قائدانہ کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھنے والوں کا سامنے آنا اور آسانیاں پیدا کرنا ایسا وصف ہے‘ جو نمایاں رہتا ہے‘ جن میں دوسروں کی رہنمائی کی صلاحیت اطمینان بخش حد تک پائی جاتی ہو ‘وہ اپنا کردار ادا کیے بغیر نہیں رہتے۔ سوال صرف یہ ہے کہ اُن سے کام لینے میں کس حد تک دلچسپی لی جاتی ہے‘ اگر ادارے یا تنظیم کا انتظامی ڈھانچا طے کرے کہ مختلف سطحوں پر غیر اعلانیہ قائدین سے کام لینا ہے تو کام آسانی اور تیزی سے ہو جاتا ہے۔ 
معاشرے کے ہر شعبے میں اور ہر سطح پر ایسے لوگ خاصی معقول تعداد میں پائے جاتے ہیں‘ جن میں دوسروں کو راستہ دکھانے کی بھرپور صلاحیت ہوتی ہے۔ وہ اپنے تجربے سے دوسروں کو مستفید کرنا چاہتے ہیں۔ وہ عمومی سطح پر اس بات کے خواہش مند رہتے ہیں کہ ادارہ‘ تنظیم یا حلقہ اُنہیں قائدانہ کردار ادا کرنے کا موقع دے۔ جیسے ہی گنجائش پیدا ہوتی ہے‘ وہ قائدانہ کردار ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ کسی بھی ادارے یا تنظیم میں منصب کی تمنا کیے بغیر قائدانہ کردار ادا کرنے والے ہی بہت سے کام آسان بناتے ہیں۔ ان کی کارکردگی مجموعی ماحول کو خوش گوار بنائے رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ نچلی سطح پر بہت سے لوگ ادارے یا تنظیم کے انتظامی ڈھانچے سے ہدایات ملنے کے منتظر رہتے ہیں اور اس سے کہیں بڑھ کر اُنہیں ترغیب و تحریک کی ضرورت ہوتی ہے۔ عمومی سی صلاحیتوں کے حامل افراد کے لیے تحریک بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ کام کرنے کی بھرپور لگن پیدا کیے جانے ہی پر وہ کچھ کر پاتے ہیں‘ ورنہ جذب و شوق اور ولولے کی پست ترین سطح پر رہتے ہوئے زندگی گزار دیتے ہیں۔ سرکاری دفاتر کے علاوہ صنعتی‘ تجارتی اور مالیاتی اداروں میں مختلف سطحوں پر غیر اعلانیہ قائدین درکار ہوتے ہیں‘ تاکہ لوگوں میں کام کرنے کا جذبہ برقرار رہے‘ ولولے کا گراف بلند رہے۔ 
کھیلوں کی دنیا میں ایسے افراد بہ کثرت دکھائی دیتے ہیں‘ جو کپتان تو نہیں ہوتے‘ مگر کپتان سے کم بھی نہیں ہوتے۔ کپتان بھی اُن پر بھروسہ کرتے ہیں اور اُن کے مشوروں کی روشنی میں چلتے ہیں۔ کرکٹ کے حوالے سے جاوید میاں داد اس کی ایک روشن مثال ہیں۔ وہ جب ٹیم میں تھے تب کپتان نہ ہوتے ہوئے بھی میدان میں ٹیم کو لیڈ کر رہے ہوتے تھے۔ خاص طور پر فیلڈ پلیسنگ کے حوالے سے اُن کے مشوروں کو غیر معمولی اہمیت حاصل تھی۔ عمران خان نے ہمیشہ جاوید میاں داد کے مشوروں پر عمل کیا اور ہارے ہوئے میچ بھی جیتنے میں کامیاب ہوئے۔ 
قائدانہ صلاحیت اور رجحان رکھنے والے افراد کسی بھی ادارے کے لیے اثاثے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کام میں اُن کی بھرپور دلچسپی ہی ادارے کا رخ متعین کرتی ہے‘ جن میں قائدانہ کردار ادا کرنے کا جذبہ ہو وہ عمل پسند رویہ اپناتے ہیں۔ یہ رویہ اُنہیں صلاحیتوں کے بھرپور اظہار کی راہ سجھاتا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ انسان میں جو کچھ بھی کرنے کا جذبہ ہے‘ وہ بروئے کار لایا جانا چاہیے۔ اپنی صلاحیتوں کو بھرپور طریقے سے بروئے کار لانے کا جذبہ پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ وہ دوسروں سے بھی خوب کام لینے کی سوچتے ہیں اور اس امر پر متوجہ رہتے ہیں کہ دوسروں میں بھی کام کرنے کی لگن توانا رہے۔ 
کسی بھی ادارے کی قیادت کا حقیقی امتحان یہ ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کا بوجھ کس حد تک اور کس طرح گھٹا پاتی ہے۔ کسی بھی چھوٹے سے گروپ کے لیے خاصے بڑے ادارے کو ڈھنگ سے چلانا اُسی وقت ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری یعنی قیادت کا بوجھ کم کرکے دوسروں کو اس حوالے سے متحرک ہونے کا موقع دے۔ 
آج ہمارا معاشرہ ایسے لوگوں کا منتظر ہے ‘جو خود بھی زیادہ اور اچھا کام کرنا چاہتے ہوں اور دوسروں کو بھی ایسا ہی کرتے ہوئے دیکھنے کے خواہش مند ہوں۔ بالکل نچلی سطح پر تو قائدانہ صلاحیت کے حامل افراد کا پایا جانا ممکن نہیں‘ مگر ہاں‘ درمیانی سطح پر ایسے لوگ معقول تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ یہ اپنے شعبے میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں‘ مگر کوئی باضابطہ منصب نہ بخشے جانے پر باضابطہ قائدانہ کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ ایسے میں اگر اُن کے لیے غیر رسمی طور پر تھوڑی سی گنجائش پیدا کی جائے‘ تو ادارے کے لیے منفعت بخش کردار ادا کیے جانے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ 
عام معاشرتی معاملات میں بھی تھوڑی بڑی عمر کے ایسے افراد بہت بھلے ثابت ہوتے ہیں‘ جو اپنے تجربے کی روشنی میں کام کرتے ہوئے بگڑے ہوئے معاملات کو بہتر بنانے پر متوجہ رہتے ہیں۔ جہاں رشتوں میں خلیج واقع ہوچکی ہو‘ وہاں قائدانہ کردار ادا کرنے والے یہ افراد بہت کام کے ثابت ہوتے ہیں اور کسی بھی فریق کی طرف سے باضابطہ دعوت دیئے جانے کا انتظار کیے بغیر یہ اپنا کام کرتے ہیں‘ دلوں کو جوڑتے ہیں اور خوشیوں کا سامان کرتے ہیں۔ 
تیزی سے بگڑتے ہوئے معاشرتی اور معاشی حالات کے پیش نظر ہمیں ایسے افراد بڑی تعداد میں درکار ہیں‘ جو باضابطہ ذمہ داری سونپے جانے کا انتظار کیے بغیر اپنے حصے کا کام کریں‘ قائدانہ کردار ادا کریں۔ قائدانہ کردار ادا کرنے خواہش اُسی وقت پیدا ہوتی ہے‘ جب انسان اپنے کام میں بھرپور دلچسپی لیتے ہوئے مقدار اور معیار دونوں میں اضافے پر متوجہ ہو۔ جب کام کو زندگی بنالیا جاتا ہے تب ہی ایسا ہو پاتا ہے اور یوں انسان دوسروں کو بھی کچھ دینے کا ذہن بنا پاتا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved