دنیا ابھی زلزلے‘ طوفان‘ سونامی ‘ سیلاب اور دوسری قدرتی آفتوں سے تباہ و برباد ہو رہی ہے کہ اب اس پر بھیانک شمسی طوفان(Super Solar Cyclone) یعنی ہولناک آگ کے طوفان کا قہر نازل ہونے والا ہے۔ آگ کا یہ طوفان کیسا ہو سکتا ہے؟ اس کی ایک چھوٹی سی جھلک ‘ امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کے جنگلوں میں لگی آگ کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے ‘جو فی منٹ80ایکٹر زمین کو جلاتی رہی اور سینکڑوں افراد کو لقمہ اجل بنا ڈالا۔ سائنس دانوں نے عنقریب سورج میں اٹھنے والے آگ کے طوفان سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی وجہ سے دنیا کو ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن اس کی زد میں سب سے زیادہ برطانیہ آئے گا۔ برطانوی محکمۂ موسمیات نے انتباہ کیا ہے کہ اس سپر شمسی طوفان کی وجہ سے برطانیہ مکمل تاریکی میں ڈوب جائے گا اور اسے16 بلین پائونڈ سے زیادہ خسارے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سورج سے اٹھنے والا طوفان‘ بجلی پیدا کرنے والے سبھی مراکز کو تباہ کر دے گا۔ سارے کمپیوٹر خراب ہو جائیں گے۔ برطانیہ پرشمسی طوفان کے ان بدترین خطرات کے منڈلانے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ وہ ایک ایسا ملک ہے‘جو سیارچوں یعنی سیٹلائٹ کی ٹیکنالوجی پر حد سے زیادہ انحصار کرتا ہے۔ اس شمسی طوفان سے بچنے یا اس کے نقصانات کم کرنے کے لئے حکومت کو ابھی سے جنگی پیمانے پر تیاری شروع کر دینے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ یہ سنسنی خیز انتباہ اس انکشاف کے چند دنوں بعد آیا ‘ جس میں کہا گیا کہ ویت نام جنگ کے دوران‘ بڑے پیمانے پر جو بم دھماکے ہوئے تھے‘ وہ اسی شمسی طوفان کی وجہ سے ہوئے تھے۔
سورج کی فضا میں اٹھنے والے طوفان کے نتیجے میں موسمیات کی پیش گوئی کرنے والا سسٹم مفلوج ہو جائے گا‘ کیونکہ اس سے سارے سیارچے تباہ ہو جائیں گے۔ محققین نے گزشتہ سال ہی وارننگ جاری کر دی تھی کی سپر سولر سا ئیکلون پاور سٹیشنوں کو جلا ڈالے گا۔ پانی کی سپلائی کو تہس نہس کر دے گا اور خلا میں نصب کئے گئے سیارچوں کو ختم کرڈالے گا۔ سورج میںنجانے کب سے اس طرح کے آتشیں طوفان اٹھتے رہتے ہیں؟ لیکن نوع انسان کو ان کا 1859ء میں پتہ چلا تھا‘ جب دنیا میں نہ ٹیلی فون تھا اور نہ ہی سیارچے تھے‘ لیکن اس طوفان نے دنیا بھر میں موجود ٹیلی گراف کے تاروں کو جلا ڈالا تھا۔ دفاتر میں رکھے گئے کاغذات تک جل گئے تھے۔ حالیہ برسوں میں پچھلا شمسی طوفان 14 جولائی2017ء کو آیا تھا‘ جو قریباً دو گھنٹے جاری رہا۔
سورج کی فضا میں دہکتی ہوئی آگے کے بگولے اٹھنے کو ''شمسی طوفان‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس دوران سورج کے باہری ہالے کی جانب سے انتہائی مقدار میں تابکار لہریں نکل رہی ہوتی ہیں‘ جو سیدھے کرہ ارض کی فضا میں داخل ہوتی ہیں اور ان کا پہلا نشانہ خلا میں انسانوں کی جانب سے نصب کئے گئے سیارچے بنتے ہیں۔ یہ سارے سیارچے ان کی زد میں تباہ ہو جاتے ہیں۔ آگ کا طوفان اٹھتے وقت سورج کا رخ اگر زمین کی جانب رہا تو اس سے بھاری مقدار میں خطرناک برقی مقناطیس تابکار لہریں خارج ہوتی ہیں ‘ جو انسانوں اور دوسری مخلوقات کے لئے زبردست نقصان دہ ہیں۔ سب سے زیادہ خطرہ کینسر کا ہوتا ہے۔ سیارچوں کے تباہ ہونے کا مطلب ‘دنیا کی زندگی کا تباہ ہو جانا ہے کیونکہ آج ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے دور میں ٹیلی مواصلات یعنی موبائل فون سے لے کر زندگی کی بیشتر چیزوں کا دارومدار سیارچوں پر ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ سیارچے ختم تو دنیا کی ڈیجیٹل سرگرمیاں بھی ختم ۔ عین ممکن ہے کہ وہ دن بھی آجائے جب دنیا بھر کے تقریباً سارے انسانوں کے ہاتھو ں میں تھامے گئے سمارٹ فون یکلخت بم بن کر اڑ جائیں اور کانوںمیں ڈالے گئے تار سے سارے جسم میں ہلاکت خیز برقی رو دوڑ جائے۔ یہی نہیں بلکہ انٹرنیٹ‘ وائی فائی اور ایسی ہی دوسری ٹیکنالوجی سے جڑے سار ے کمپیوٹر‘ لیپ ٹاپ اور دوسرے آلات بھسم ہو جائیں۔ کیا ایسا نہیں لگتا؟ کہ خالق کائنات کی جانب سے یہ بالکل نئی قسم کا ایک ایسا عذاب ہو گا جس کے بارے میں آدمی نے کبھی سوچا نہیں ہو گا؟
قدرت نے سورج کو اگر دنیا میں زندگی کا سب سے بڑا ماخذ بنا رکھا ہے تو اس پر دہکتی آگ میں اٹھنے والے طوفانوں کے تباہ کن اثرات سے دنیا اور اس میں بسنے والی ساری مخلوقات کو بچانے کے لئے زمین پر فضائے بسیط اور مقناطیسی ہالے کا دو سطحی غلاف بھی چڑھا رکھا ہے لیکن قدرتی ماحول میں روز افزوں انسانی مداخلتوں کے سبب‘ شمسی طوفان اس دوہرے غلاف میں چھید کر کے جب زمین پر آتا ہے تو سائنسی ٹیکنالوجیوں کو نگل جاتا ہے۔ سورج کی روشنی تو زمین پر آٹھ منٹ میں پہنچتی ہے ۔ شمسی طوفان کے اثرات زمین پر چار دن میں پہنچتے ہیں لیکن سورج میں اٹھنے والے طوفان سے بلند ہونے والے شعلوں اور شمسی توانائی کے اثرات زمین پر فوری طو رپر پہنچتے ہیں اور ان کا سلسلہ کئی دنوں تک برقرار رہتا ہے۔عجیب المیہ ہے کہ ایک طرف دنیا پر جبکہ ہولناک شمسی طوفان کا خطرہ منڈلا رہا ہے تو دوسری طرف فضا میں سیارچوں کی مرمت کا کارخانہ کھلنے جا رہا ہے‘ یعنی زمین کے مدار میں ایک نئی انڈسٹری ابھرنے والی ہے جس میںآ دمی کے ذریعے داغے گئے ان سیارچوں کی مرمت کا کام کیا جائے گا جو زمینی مدار میں اذکارِ رفتہ ہو چکے ہیں۔ فضا میں اب تک جتنے بھی سیارچے چھوڑے گئے ہیں‘ ان میں سے زیادہ تر خراب اور بے کار ہو چکے ہیں۔ یوں کہئے کہ خلا میں سیارچوں کا بڑا کباڑ جمع ہو گیا ہے‘ یعنی آدمی نے زمین کے ساتھ ساتھ آسمان کو بھی مشینی آلودگی سے بھر دیا ہے۔ اسی کباڑ کو ٹھکانے لگانے یا ازسر نو کار آمد بنانے کے لئے امریکہ کے دارالحکومت ‘واشنگٹن میں انڈسٹریل سیکٹر نے اس نکتے پر تبادلہ خیال کیا کہ زمین کے مدار میں بکھرے ہوئے بیکار سیارچوں کی مرمت کیسے کی جائے؟ اور خراب ہو ئے خلائی آلات کے کوڑے کو کیسے اکٹھا کیا جائے؟
سائنس دانوں کے مطابق یکم اگست2018ء تک انسان زمین کی پیداواری سکت سے زیادہ قدرتی وسائل استعمال کر چکا ہے‘ جبکہ1970ء تک انسان سالانہ بنیادوں پر اتنے ہی قدرتی وسائل کا استعمال کر تا رہا جتنے وسائل کرہ ارض ایک سال میں پیدا کر رہا تھا۔ آدمی نے اگر اسی رفتار سے قدرتی وسائل کا استعمال جاری رکھا تو آنے والے دنوں میں کیا کچھ ہو سکتا ہے؟دنیا بھر میں قدرتی وسائل کا سب سے زیادہ60 فیصد استعمال معدنی تیل یعنی پٹرول کی شکل میں ہوتا ہے۔ ایک جانب سورج میں طوفان اٹھنے والا ہے تو دوسری جانب زمین پر قدرتی آفتوں کی قہر سامانیوں کا عالم یہ ہے کہ کوئی بھی لمحہ ان سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ویت نام میں زمین دھنسنے اور چٹانیں کھسکنے سے15سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں اور سینکڑوں افراد لا پتہ ہیں۔ لاطینی امریکہ کے ملک گوئٹے مالا میں آتش فشاں ایک بار پھر ابل پڑا ہے‘ جس کے نتیجے میں 4ہزار سے زیادہ افراد کو نکال کر محفوظ مقامات تک پہنچایا گیا۔ اس سے پہلے بھی یہ آتش فشاں پھٹا تھا اور قریباً دو سو افراد اس کی راکھ اور مٹی میں زندہ دفن ہو گئے تھے جبکہ 235 افراد اب تک لا پتہ ہیں۔