تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     02-12-2018

پہلا دیانتدار وزیراعظم؟

وزیر اعظم عمران خان کی حکومت اپنے پہلے سو دن مکمل کر چکی۔ اس موقع پر اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں ایک پرجوش اجتماع کا اہتمام کیا گیا، جس میں تحریک انصاف کے متوالوں کے ساتھ ساتھ اہلِ ثقافت اور صحافت بھی موجود تھے۔ سو دنوں میں کئے جانے والے اقدامات اور اعلانات کا جائزہ پیش ہوا۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہزاد ارباب نے نکتہ بہ نکتہ اپنے اعمال پر روشنی ڈالی۔ وزیر خزانہ اور خارجہ بھی بولے اور دعویٰ کیا کہ مالی اور خارجی امور کو درست سمت دے دی گئی ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر اس پر اترا رہے تھے کہ ادائیگیوں کا توازن درست ہو گیا ہے اور ڈالروں کی کمی پوری کر لی گئی ہے۔ اور اب آئی ایم ایف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر معاملہ کیا جائے گا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، اپنے خان کے غیر ملکی دوروں کے حوالے سے اطمینان دلا رہے تھے کہ خارجی امور مکمل طور پر قابو میں ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وزیر اعظم کے غیر ملکی دوروں سے خزانہ بھرنے کی تدبیریں کی گئیں اور کہا جا رہا ہے کہ اس کے بہت مثبت اثرات دیکھنے میں آئیں گے۔ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ہندوستان سے تعلقات کو نئی سمت دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ضلع نارووال میں واقع گوردوارہ کرتار پور تک‘ جہاں بابا گورو نانک کی آخری آرام گاہ ہے، بھارت سے آنے والے سکھ یاتریوں کو ویزا فری آمد کا حق دینے کے لئے راہ داری کی تعمیر کا تاریخی قدم اٹھا لیا گیا ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی بھرپور اعانت کے ساتھ وزیر اعظم اس منصوبے کا باقاعدہ سنگ بنیاد رکھ چکے ہیں۔ بھارتی پنجاب کے وزیر ثقافت نوجوت سنگھ سدھو اس منصوبے کا محرک بنے اور اب وہ اپنے اس کارنامے پر پھولے نہیں سما رہے۔ وزیر اعظم بار بار بھارت کو ''ایک قدم کے مقابلے میں دو قدم‘‘ آگے بڑھنے کا یقین دلا رہے ہیں، لیکن ان کے بھارتی ہم منصب ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ وہ پاکستان کے کسی خیر سگالی اقدام (یا پیغام) کے جواب میں مسکرانے پر تیار نہیں ہیں۔ عمران خان بار بار کہہ رہے ہیں کہ جرمنی اور فرانس کی طرح پاکستان اور بھارت بھی ماضی کی تلخیوں کو خیر باد کہہ ڈالیں کہ ماضی صرف سبق سیکھنے کے لئے ہوتا ہے، اس میں رہا نہیں جا سکتا لیکن مودی بڑھے ہوئے عمرانی ہاتھ کے ساتھ اپنا ہاتھ ملا کر تالی بجانے کو تیار نہیں۔ بہت سے لوگ ان لمحات کو یاد کر رہے ہیں جب وزیر اعظم مودی افغانستان سے دہلی جاتے ہوئے اچانک لاہور ٹھہر کر وزیر اعظم نواز شریف کی رہائش گاہ جا پہنچے تھے، اور دونوں وزرائے اعظم نے تعلقات کو ایک نیا موڑ دینے کی کوشش کی تھی۔ بد قسمتی سے یہ کاوش ناکام ہو گئی کہ ''مودی کا جو یار ہے، غدار ہے غدار ہے‘‘ کے نعروں کو فلک شگاف بنا دیا گیا۔ نواز شریف کو لینے کے دینے پڑ گئے، وزیر اعظم مودی کی آمد کو خارجہ پالیسی کی کامیابی قرار دینے کے بجائے ان کی حب الوطنی کو موضوع بنا لیا گیا اور نواز شریف کے سارے مخالفین اس قوالی میں یک آواز ہو گئے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ تاریخ کا حصہ ہے، اس کے بعد پاکستان اور بھارت کا باقاعدہ رابطہ بحال نہیں ہو پایا۔ وزیر اعظم عمران خان کا آج کا لہجہ ایک مختلف کہانی سنا رہا ہے، لیکن جو لوگ آم کھانے کے ساتھ ساتھ پیڑ گننے پر بھی یقین رکھتے ہیں، وہ انگلیاں اٹھانے سے نہیں چوک رہے۔ صرف آموں میں دلچسپی رکھنے والے ہر چند کہ خان صاحب اور ان کے معاونین کو داد دے رہے ہیں کہ امن کا سفر بہر طور شروع ہونا چاہیے۔
داخلی اور خارجی محاذ پر عمرانی حکومت اپنی کامیابیاں گنوا رہی ہے، اس کا اسے حق بھی حاصل ہے لیکن مخالفین بھی نچلے نہیں بیٹھے۔ مسلم لیگ (ن) نے 100 دنوں کا قرطاسِ ابیض جاری کر دیا ہے اور نکتہ بہ نکتہ بے نقط سنائی ہیں۔ دعویٰ ہے کہ حکومت نے یو ٹرن لینے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ دونوں کے دلائل اپنی اپنی جگہ ہیں، دونوں کو ان کی تفصیل میں جانے کا حق حاصل ہے۔ خان کے سیاسی مخالفین کا شکنجہ کسا جا چکا ہے۔ شہباز شریف جیسے ''مسٹر کلین‘‘ نیب کی بھول بھلیوں میں الجھا دیئے گئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے کئی منہ زور گھوڑوں کو لگام دینے کی کوششیں زوروں پر ہیں۔ نواز شریف چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں، لیکن سیاست کو زیر کرنے والے معیشت کے سامنے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ ایک ہی دن میں ڈالر کے مقابلے میں روپیہ بے پناہ قدر کھو بیٹھا ہے۔ سٹیٹ بینک نے شرح سود میں ڈیڑھ فی صد اضافہ کر دیا ہے، معاشی مبصرین اس پر حیران پریشان ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ غیر یقینی بہت کچھ ہڑپ کر سکتی ہے، مہنگائی میں بے پناہ اضافہ لوگوں کا بوجھ بے تحاشہ بڑھا سکتا ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر البتہ مطمئن ہیں کہ روپے کی قدر میں کمی برآمدات میں اضافے کا سبب بن جائے گی۔ ڈی ویلیوایشن کے خلاف عمران خان کی پرانی تقریریں فضائوں میں گونج کر رونے، بسورنے والوں کو بھی مسکرا دینے پر مجبور کر رہی ہیں۔
سیاست و معیشت کے محاذ پر حکومت اور حزب اختلاف کے نعروں اور دعووں کے درمیان ایک بات البتہ ایسی ہے جس پر ضبط کرنا ممکن نہیں ہے۔ کنونشن سنٹر میں مقررین عمران خان صاحب کو پاکستان کا پہلا دیانتدار وزیر اعظم قرار دیتے رہے۔ تحریک انصاف کے اکثر رہنما انہی الفاظ کی جگالی میں مصروف ہیں۔ سندھ کے گورنر عمران اسماعیل نے تو پنجاب کے گورنر چودھری محمد سرور کی موجودگی میں اپنے وزیر اعظم کو یہ خطاب عطا کیا۔ عمران خان کے حامیوں کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے قائد کے قصیدے پڑھیں۔ ان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائیں۔ جو الفاظ چاہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر لائیں، لیکن خدارا پاکستانی تاریخ تبدیل نہ کریں۔ عمران خان کی دیانت جو بھی ہو، ان کی خوشامد میں گزشتہ تمام وزرائے اعظم کی توہین کرنے کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی دیانت اور امانت ہماری تاریخ کا سنہرا باب ہے۔ وہ ایک بڑے زمیندار تھے۔ ان کی جاگیر دو ضلعوں میں پھیلی ہوئی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد جب وہ ہجرت کر کے یہاں پہنچے‘ اور وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا‘ تو اس وقت دونوں ممالک کے باشندوں کو جائیداد کا باہمی تبادلہ کرنے کا حق حاصل تھا۔ پاکستانی پنجاب کے دو بڑے سکھ جاگیرداروں نے ان سے رابطہ کیا کہ وہ اپنی زمین کا تبادلہ ان کے ساتھ کر لیں۔ لیاقت علی خان نے سختی سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک تمام مہاجر آباد نہیں ہو جائیں گے‘ وہ کوئی جائیداد حاصل نہیں کریں گے۔ سینکڑوں مربع اراضی کی طرف انہوں نے آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو دو یا تین ہزار روپے بینک اکائونٹ میں تھے۔ پاکستان میں ان کا کوئی مکان تھا نہ زرعی زمین۔ بقول اپنے پولیٹیکل سیکرٹری نواب صدیق علی خان‘ وہ مہاجر کی زندگی جئے اور مہاجر کی موت مر گئے۔ خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرا، چودھری محمد علی، آئی آئی چندریگر، حسین شہید سہروردی، ملک فیروز خان نون، حتیٰ کہ ذوالفقار علی بھٹو اور محمد خان جونیجو کی دیانت پر بھی انگلی نہیں اٹھائی جا سکی۔ وزرائے اعظم پر کرپشن کے الزامات کی بوچھاڑ 1990ء کی دہائی کا قصہ ہے۔ بے نظیر بھٹو تو اللہ کو پیاری ہو چکیں لیکن اس دورانیے کے کئی وزرائے اعظم مقدمات بھگت رہے ہیں۔ ان کے معاملات کی تفصیل میں جائے بغیر یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ پاکستانی وزرائے اعظم اپنے ہم وطنوں کے لئے (مجموعی طور پر) شرمندگی کا باعث نہیں رہے۔ سیاسی سوجھ بوجھ پر دو آرا ہو سکتی ہیں، لیکن بھاری تعداد کی دیانت اور امانت مسلّم رہی ہے۔ تحریک انصاف کے رہنمائوں اور کارکنوں سے گزارش ہے کہ تاریخ سے بھونڈا مذاق بند کر دیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved