تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     02-12-2018

سُرخیاں، متن اور تازہ غزل

روپیہ قدر میں کمی‘ گھبرائیں نہیں‘ سب ٹھیک ہو جائے گا: وزیراعظم
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''روپیہ قدر میں کمی سے گھبرائیں نہیں‘ سب ٹھیک ہو جائے گا‘‘ کیونکہ اس سے جو مہنگائی وغیرہ ہوگی‘ لوگوں کو رفتہ رفتہ اس کی عادت پڑ جائے گی اور اس لحاظ سے یہ قوم بہت اچھی ہے کہ اسے ہر چیز کی عادت پڑ جاتی ہے اور اس طرح کوئی مسئلہ‘ مسئلہ ہوتا ہی نہیں اور اس لیے دیگر معاملات میں بھی ہم لوگوں کی اس خوبصورت عادت سے فائدہ اٹھائیں گے‘ کیونکہ مثلاً: اگر 50 لاکھ گھر نہ بھی بنے‘ تو کوئی مسئلہ نہیں‘ کیونکہ لوگوں کو فُٹ پاتھوں اور کھلی جگہوں پر سونے کی پرانی عادت ہے‘ جبکہ گھر‘ اگر ہو تو اس سے دوسرے بہت سے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں ‘کیونکہ گھر کو چلانا بھی پڑتا ہے‘ جبکہ فٹ پاتھ تو خود چل رہا ہوتا ہے‘ اسے چلانے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی‘ کیونکہ فٹ پاتھ بھی چلنے کی عادت میں مبتلا ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں بھارتی صحافیوں سے خطاب کر رہے تھے۔
لیڈر بننا ہے ‘تو بھٹو اور بینظیر سے سیکھو: بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پاٹری کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''لیڈر بننا ہے ‘تو بھٹو اور بینظیر سے سیکھو‘‘ تاہم‘ وہ تو اب دنیا میں نہیں رہے‘ اس لیے حکومت کرنے کے سارے سبق والد صاحب سے سیکھے جا سکتے ہیں اور اس سلسلے میں بھی تاخیر سے کام نہیں لینا چاہیے‘ کیونکہ جلدی ہی وہ اندر ہونے والے ہیں اور ابھی تک اس بات کا کوئی انتظام نہیں کہ جیل سے سکھائی پڑھائی کا کام جاری رکھا جا سکے‘ جبکہ اس کے بعد خاکسار ہی رہ جائے گا‘ جس کے خلاف بھی ایف آئی اے اور دیگر ادارے‘ اپنے پر تول رہے ہیں۔ اس لیے والد صاحب سے جو دوچار صدری نسخے سیکھے ہیں‘ وہ یہ خاکسار آگے بھی سکھا سکتا ہے‘ کیونکہ میرے اندر ہونے میں ابھی کچھ وقت لگے گا‘ کیونکہ میرا کیس ذرا پیچیدہ ہے؛ اگرچہ یہ ادارے خاصے چالاک واقع ہوئے ہیں اور پیچیدہ سے پیچیدہ کیس بھی چٹکیوں میں حل کر لیتے ہیں۔آپ اگلے روز سکھر میں پارٹی کے یوم تاسیس کے جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
پتا ہے‘ کون سی قوتیں‘ پاکستان کو توڑنا چاہتی ہیں: زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''ہمیں پتا ہے کہ کونسی قوتیں پاکستان کو توڑنا چاہتی ہیں‘‘ اور جن میں سر فہرست وہ ادارے ہیں‘ جو ملک میں روپے پیسے کی گردش کے سخت خلاف ہیں اور منی لانڈرنگ وغیرہ کے نام پر شریف آدمیوں کو خوفزدہ کرتی رہتے ہیں‘ جبکہ یہ معاشیات کا اصول ہے کہ روپے کی گردش میں رہنے سے ہی معیشت ترقی کر سکتی ہے‘ جبکہ پیسہ ملک سے باہر بھیجنے میں بھی ملک کی نیک نامی ہے‘ کیونکہ اس سے بیرونی ملکوں میں پاکستان اور اس کے لیڈروں کی دھاک بیٹھتی ہے کہ پاکستان اور اس کے سیاسی رہنما کس قدر کھاتے پیتے لوگ ہیں‘ جبکہ دُنیا کا سارا کاروبار کھانے پینے ہی سے چل رہا ہے‘ ویسے بھی سیانوں نے کہہ رکھا ہے کہ انسان کو صرف کھانے پینے ہی کیلئے پیدا کیا گیا ہے اور ہم انسانیت کا زیادہ سے زیادہ ثبوت دینے کیلئے ہی اس کام پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ آپ اگلے روز سکھر میں پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس کے موقعہ پر خطاب کر رہے تھے۔
نواز شریف نے فوج‘ عدلیہ کے خلاف بات 
نہیں کی‘ لوگ نعرے لگاتے تھے: خاقان عباسی
سابق وزیراعظم اور ن لیگ کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''نواز شریف نے فوج اور عدلیہ کے خلاف بات نہیں کی‘ لوگ نعرے لگاتے تھے‘‘ بلکہ نواز شریف تو لوگوں کو چپ کراتے رہتے تھے ‘جیسا کہ ہجوم سے کسی نے پوچھا کہ تم لوگ اتنا شور کیوں مچا رہے ہو تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم ایک دوسرے کو چُپ کروا رہے ہیں اور دوسری افسوسناک بات یہ ہے کہ ''شہباز شریف کے خلاف کوئی وعدہ معاف گواہ نہیں ہے‘‘ حالانکہ جن لوگوں نے موصوف کے ساتھ مل کر ہاتھ رنگے ہیں‘ انہیں سارے الزمات اپنے سروں پر لینے کی بجائے وعدہ معاف گواہ بن کر اپنی جان چھڑا لینی چاہئے اور اسی طرح میرے خلاف ایل این جی کیس میں بھی اداروں کو کوئی وعدہ معاف گواہ نہیں مل رہا؛ حالانکہ کم از کم وہ اپنی جان تو بچا سکتے ہیں‘ کیونکہ میں تو پہلے ہی اپنے قائد کے پاس جانے کیلئے تیار بیٹھا ہوں۔آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل پر بات کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل:
جو تجھ کو یاد اور ترا خیال کر رہا ہوں میں
تو خاص اس میں کون سا کمال کر رہا ہوں میں
دراصل تو مجھے جواب چاہیے نہیں ابھی
برائے نام سا جو یہ سوال کر رہا ہوں میں
ارادہ سا کیا تھا جو کہ تجھ کو بھول جاؤں گا
سو‘ کچھ دنوں سے اُس کی دیکھ بھال کر رہا ہوں میں
میں تجھ سے چاہتا ہوں کیا‘ مجھے بھی کچھ خبر نہیں
جبھی تو اس طرح سے قیل و قال کر رہا ہوں میں
یہیں کہیں تھے تیرے روز روز کے وہ رابطے
کہاں گئے ہیں یک بیک‘ سنبھال کر رہا ہوں میں
وہ چیز مجھ سے کھو گئی ہے میری جو تھی ہی نہیں
ملال ہو نہیں رہا‘ ملال کر رہا ہوں میں
گزر چکا ہے مجھ پہ تیری بے رُخی کا سانحہ
تبھی سے اپنے آپ کو بحال کر رہا ہوں میں
جو آ نہیں رہا‘ اُسے خوش آمدید کہہ کے اب
جو ہو نہیں رہا‘ وہ احتمال کر رہا ہوں میں
جو تھا نہیں‘ میں اُس کے انتظار میں ہوں اے ظفرؔ
جو ہے نہیں‘ اُسی کو بے مثال کر رہا ہوں میں
آج کا مقطع
لمس کی گرمی کہاں سے آئی تھی اس میں‘ ظفرؔ
یہ اگر وہ خود نہیں تھا‘ یہ اگر آواز تھی

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved