ہمارے معاشرے میں لوگوں کے زندگی کے بارے میں تصورات بہت محدود ہیں۔لوگوں کی اکثریت کے نزدیک زندگی گزارنے کا مقصد اچھی خوراک ‘اچھے لباس اور اچھی رہائش کا بندوبست کرنا اور معاشرے میں اپنی سماجی حیثیت کے حصول کے لیے تگ ودو کرنا ہے۔ بالعموم لوگ انہی امور کی انجام دہی کیلئے اپنا وقت صرف کرتے ہیں اور بہت سے لوگ اِن مقاصد کے حصول کیلئے جائز اور ناجائز میں تمیز بھی نہیں کرتے؛ اگر کتاب وسنت کی تعلیمات پر غور کیا جائے‘ تو زندگی گزرانے کے حوالے سے بہت ہی خوبصورت انداز میں رہنمائی ملتی ہے۔ کتاب وسنت میں زندگی گزارنے کے حوالے سے جو رہنما اصول سامنے آتے ہیں‘ ان میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔ دین ودنیا میں توازن: قرآن وسنت کا مطالعہ اس بات کو سمجھاتا ہے کہ انسان کو اس دنیا میں رہتے ہوئے دین اور دنیا میں توازن کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے؛ چنانچہ وہ لوگ جن کی تگ ودو کا واحد مقصد دنیا ہے‘ ان کو ناکام لوگ قرار دیا گیا۔ اس حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ کہف کی آیت نمبر 103‘104 اور 105میں ارشاد فرماتے ہیں :''کہہ دیجئے کیا ہم خبر دیں تمہیں زیادہ خسارہ پانے والوں کی اعمال کے اعتبار سے۔ وہ لوگ جو (ضائع) ہو گئی‘ ان کی کوشش دنیوی زندگی میں؛ حالانکہ وہ گمان کرتے ہیں کہ بے شک وہ اچھے کام کر رہے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں‘ جنہوں نے انکار کیا اپنے رب کا آیات اور اس کی ملاقات کا تو ضائع ہو گئے‘ ان کے اعمال سو نہیں ہم قائم کریں گے‘ ان کیلئے قیامت کے دن کوئی وزن۔‘‘ اسی طرح سورہ بقرہ میں آیت نمبر 200 میں ارشاد ہوا : ''تو لوگوں میں سے جو کہتے ہیں؛ اے ہمارے رب! ہمیں دے دے دنیا میں اور نہیں ہے‘ اس کیلئے آخرت میں کوئی حصہ۔‘‘اس کے مدمقابل سورہ بقرہ میں آیت نمبر 201 میں ایک بہترین دعا کا ذکر کیا گیاکہ ''اے ہمارے رب ہمیں دے دنیامیں بھلائی اور آخرت میں (بھی) بھلائی اور ہمیں بچالے آگ کے عذاب سے۔ ‘‘ آیت نمبر202 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ان لوگوں کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں : ''یہی وہ لوگ ہیں (کہ)ان کے لیے حصہ ہے اس سے جو انہوں نے کمایا اور اللہ بہت جلد حساب چکا دینے والا ہے۔ ‘‘ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کو دین اور دنیا میں توازن رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دنیا داری میں غرق ہوکر آخرت کو فراموش کر دینے سے انسان کو ناکامی اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘جبکہ دین اور دنیا میں توازن کو برقرار رکھنے سے انسان دنیوی اور اخروی نجات کو حاصل کر سکتا ہے۔
2۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت کے لیے کوشش کرنا: اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے خالق‘ مالک اور پروردگار ہیں ۔ ان کی معرفت اور عبادت کیلئے جستجو کرنا زندگی کا بنیادی مقصد ہونا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ذاریات کی آیت نمبر 56 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور میں نے نہیں پیدا کیا‘ جن وانس کو‘ مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں‘‘ چنانچہ انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت کے لیے تندہی سے کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ کاروبار اور پیشہ وارانہ مصروفیت کے دوران فرائض کی انجام دہی کیلئے کوشاں رہنا چاہیے اور فارغ وقت میں نوافل کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔
3۔ نفع بخش علم کے حصول کے لیے تگ ودو کرنا: بہت سے انسان اس دنیا میں رہتے ہوئے اپنا وقت کا بڑا حصہ علم کے حصول میں صرف کرتے ہیں ‘جبکہ بہت سے لوگ علم سے دور رہ کر ہی اپنے زندگی کو بسر کر جاتے ہیں۔ نفع بخش علم کے حصول کے لیے تگ ودو کرنا یقینا ہر اعتبار سے مفید ہے۔ دنیاوی اور سائنسی علوم وفنون کو سیکھنا مستحسن ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسان علم ِ دین پر بھی کو اپنی توجہ مرتکز کرنی چاہیے۔ وہ علم جو انسان کو اس کے مقصد حیات ‘ حیات بعد الممات اور اخروی زندگی سے آگاہ کرتا ہے‘ اس میں دلچسپی لینا بھی انسانوں کے بہت ضروری ہے۔ ہر انسان کو کم ازکم اتنا دینی علم ضرور حاصل کرنا چاہیے ‘جو اس کے شعبے سے متعلقہ اہم معلومات کو حاصل کرنے کا سبب ہو؛ چنانچہ ایک ڈاکٹر کوطب اور علاج سے متعلقہ اسلامی اصولوں سے آگاہی حاصل کرنی چاہیے‘ ایک تاجر کو تجارت سے متعلقہ اسلامی اصول وضوابط سمجھنا چاہیے اور ایک حاکم کو انداز حکمرانی سے متعلقہ اسلامی اصول وضوابط کا علم ہونا چاہیے۔اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ایسے لوگ بھی ہونے چاہئیں‘جو علم دین میں کمال حاصل کرنے والے ہوں‘ تاکہ ہر شعبے سے متعلقہ لوگوں کو شریعت اسلامیہ اور کتاب وسنت کی تعلیمات سے آگاہ کیا جا سکے۔ علم حاصل کرنے والے اور نہ حاصل کرنے والے برابر نہیں ہو سکتے‘ جاننے والے لوگ انجانوں پر ہر اعتبار سے فوقیت رکھتے ہیں۔ علم کی ترقی کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے؛ چنانچہ اللہ تبارکو تعالیٰ سورہ فاطر کی آیت نمبر 28 میں ارشاد فرماتے ہیں ''بے شک علماء اللہ سے ڈرتے ہیں‘ اس کے بندوں میں سے ‘‘ چنانچہ انسان کو اس دنیا میں رہتے ہوئے نفع بخش علم کے حصول کیلئے تگ ودو کرتے رہنا چاہیے اور دنیاو ی علوم میں اس حد تک منہمک نہیں ہو جانا چاہیے کہ دینی علوم کو یکسر فراموش کر دیا جائے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ روم کی آیت نمبر 7میں ارشاد فرماتے ہیں : ''وہ جانتے ہیں‘ظاہر کو دنیاوی زندگی سے اوروہ آخرت سے غافل ہیں۔ ‘‘
4۔ حلال اور طیب رزق کے لیے تگ ودو کرنا: انسان کورزق
حلال کے حصول کیلئے بھی کوشش کرنی چاہیے۔ رزق حلال کیلئے کوشش کرنے سے انسان کی ضروریات زندگی پوری ہوتی ہیں اور کسی دوسرے کی معاونت کا محتاج نہیں رہتا۔ حلال اور طیب رزق کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ مومنون کی آیت نمبر51 میں ارشاد فرمایا : ''اے رسولو! تم کھاؤ پاکیزہ چیزوں میں سے اور نیک عمل کرو۔‘‘رسل اللہ اللہ کی جمیع مخلوقات میں سے سب سے اعلیٰ ہیں؛ چنانچہ جو حکم اللہ تبارک وتعالیٰ اُن کو دیتے ہیں‘ عام انسانوں کیلئے بھی اس میں رہنمائی موجود ہوتی ہے۔ جو بندہ رزق حلال کیلئے تگ ودو کرتا ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر توکل کرتا ہے ۔اللہ تبارک وتعالیٰ اس کیلئے کافی ہو جاتے ہیں۔ محنت کے ساتھ ساتھ تقویٰ ‘ استغفار اور دعاؤں کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ انسانوں کے رزق میں اضافہ فرماتے ہیں ؛چنانچہ انسان کو زندگی میں حلال رزق کے حصول کیلئے بھی تگ ودو کرتے رہنا چاہیے۔
5۔ خدمت خلق: مجبور اور محروم لوگوں کی خدمت کرنا بھی یقینا زندگی کابہت بڑا مقصد ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کو والدین اور قرابت داروں کے ساتھ احسان کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ اسی طرح یتامہ اور مساکین کے کام آنے کی بھی قرآن مجید میں کئی جگہ پر تلقین موجود ہے۔ اسلام میں انفاق فی سبیل للہ کی اہمیت کو بہت زیادہ اجاگر کیا گیا ہے؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر274 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''وہ لوگ جو خرچ کرتے ہیں اپنے مال رات اور دن خفیہ اور اعلانیہ طور پر ان کیلئے ان کا اجر ہے ۔ان کے رب کے پاس اور ان کو نہ خوف ہو گا‘ نہ وہ غمگین ہوں گے۔ ‘‘خدمت خلق اور غریبوں‘ یتامہٰ اور مساکین پر خرچ کرنے اور صدقہ کرنے کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کی نیکیوں میں اضافہ اور سیئات سے درگزر فرماتے ہیں۔ روز قیامت جب جہنمیوں سے جہنم میں جانے کے بارے میں پوچھا جائے گا تو جہاں پر وہ بتلائیں گے کہ انہوں نے نمازوں کو ادا نہیں کیا‘ وہیں پر وہ اس بات کا ذکر کریں گے کہ انہوںنے مسکینوں کو کھانا نہیں کھلایا تھا؛ چنانچہ انسان کو اپنی زندگی میں خدمت خلق پر بھی توجہ دینی چاہیے۔
6۔ اچھی صحبت کو اختیار کرنا: انسان کو اچھی زندگی گزارنے کیلئے اہل علم اور دانشور لوگوں کی صحبت کو اختیار کرنا چاہیے۔ وہ لوگ جو دین اور دنیا کا فہم اور شعور رکھتے ہیں ان کی صحبت کو اختیار کرنے سے انسان کے علم اور عمل کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ وہ لوگ جو غلط صحبت کو اختیار کرتے ہیں وہ نظریاتی اور عملی اعتبارسے غلط راستوں پر چل نکلتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ کہف کی آیت نمبر28میں ارشاد فرمایا ''اور روکے رکھیں اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ جو اپنے پروردگار صبح وشام پکارتے ہیں۔‘‘ ہمیں چاہیے کہ ہم نہ صرف یہ کہ اپنے معمولات پر غور کریں ‘بلکہ اپنے بچوں کو بھی اچھی صحبت میں اُٹھنے بیٹھنے کی تلقین کریں‘تاکہ ہمارے بچوںکی فکری اور عملی سمت درست ہو سکے۔
7۔ لغویات اور حرام سے اجتناب: زندگی کا ایک اہم مقصد غلط باتوں اور حرام کاری سے اجتناب بھی ہوناچاہیے‘ لیکن عصر حاضر میں ہم اس بات کو محسوس کرتے ہیں کہ لوگ نا تو لغو کاموں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیںاور نہ ہی حرام کاموں سے۔ اس کی وجہ مناسب تعلیم وتربیت کا فقدان ہے۔
ہمیں اس حوالے سے اپنے معاشرے کی اصلاح کرنے اور ان کی تربیت کا اہتمام کرنے کی ضرورت ہے کہ اپنی زندگی کو کیسے بسر کیا جائے ؛ اگر زندگی کو بسر کرنے کے حوالے سے اپنی نسلوں کی صحیح تربیت کر دی جائے‘ تو وہ معاشرے کیلئے انتہائی مفید ثابت ہو سکتے ہیںاور اگر ان کی صحیح تربیت نہ کی جائے ‘تو وہ معاشرے کی تباہی کا سبب بن سکتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں درست انداز میں زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)