ایک کشیدہ ماحول میں کرتار پور کاریڈور کے افتتاح کو انڈیا اور پاکستان کے مابین دیرینہ تنازعات کے حل کی شروعات اور خطے میں قیامِ امن کیلئے بڑا بریک تھروسمجھا جا رہا ہے‘ لیکن اس پیش دستی کے باوجود اب بھی دونوںملکوں نے مسئلہ کشمیر کو بنیادی تنازعہ قرار دے کر بہتری کے امکانات کو محدود کر دیا ۔ بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج نے راہداری کو دوطرفہ مذاکرات کی شروعات سے الگ کر کے دیکھنے اور عمران خان نے مسئلہ کشمیر کود ونوں ملکوں کے مابین اصل وجہ تنازعہ قرار دے کر تعلقات کی استواری کی حدود مقرر کر دی۔اس میں شک نہیں کہ انسانی تعلقات کی بوقلمونی اورزمین پہ بسنے والے معاشروں کی باہمی احتیاج کے باعث عہدِ جدید کی سفارت کاری میں ''کانفلکٹ ریسولیوشن‘‘ کی سائنس کے تحت مغربی ممالک دوستی و دشمنی کے دھاروںکو متوازن رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں‘اسی اصول کے تحت خود بھارت کے ساتھ بیسیوں ایشوز پہ شدید تناؤکے باوجود درجنوں معاملات ایسے بھی ہیں‘ جن میں ہم ایک دوسرے کوسہولت دیتے ہیں۔ایران اور امریکہ کے مابین شدید کشیدگی کے لمحات میں صدر ریگن نے ایران کو اسلحہ فروخت کر کے حقیقت پسندی کی راہ اپنائی تھی‘مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک جنگوں کے دوران بھی اجتماعی حیات کے مخصوص شعبوں میں اسرائیل سے لین دین کرنے میں وسیع تر مفاد تلاش کرتے رہے۔
اب وہ وقت نہیں کہ کوئی حجاج بن یوسف کسی قیدی کے خط کو جواز بنا کے کسی دوسری مملکت پہ حملے کیلئے تیار ہو جائے۔جدید رموزِ حکمرانی کے اصولوں اور ٹرانسفارمیشنل ڈپلومیسی کے اس عہد میں دنیا کا کوئی بھی ملک مطلقاً کسی دوسرے ملک سے کٹ کے نہیں رہ سکتا؛چنانچہ بقائے باہمی کے تقاضوں کے پیش نظر وزیراعظم عمران خان کی بھارت سے خوشگوار تعلقات کی کوشش قابل ستائش ہے‘جس کی تائید ناگزیر ہو گی‘ تاہم مقصد کے حصول کیلئے دونوں ممالک کو اپنی سوچ کے کینوس زیادہ وسیع کرنا ہوںگے۔کرتار پور ڈپلومیسی کی ابتدا 1998ء میں نواز شریف نے بھارت کے ساتھ کرتار پور میں بابا گُرو نانک کی سمادھی کی زیارت کے لئے سکھ زائرین کو ویزہ جاری کرنے کے معاہدہ کے ذریعے کی‘ لیکن بعد میں کارگل ایشو نے تعلقات کی استواری کی ان امیدوں پہ پانی پھیر دیا‘جس میں نواز‘واجپائی کے درمیان ہونے والا لاہور معاہدہ بھی بہہ گیا۔اب بیس سال بعد گردشِ ایام نے عمران خان کو اس تعلق کو مزید آگے بڑھانے کا موقع دیا تو خطہ میں قیام امن کی امیدیں پھر جاگ اٹھی ہیں۔شاید اسی تناظر میں وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ قیامِ امن کی خاطر ہم ایک قدم آگے بڑھا کے‘دو قدم پیچھے ہٹ آتے ہیں۔
اس وقت الیکشن میں دھاندلی کے خلاف احتجاج کی گرد بیٹھ رہی ہے اور پی ٹی آئی نے اپنے ہنی مون پیریڈ میں ہی دو قدم آگے بڑھا کے پاک بھارت سرحد پر واقع بستی کرتار پور سے گرداس پور تک چار کلومیٹر سڑک بنا کے سکھ یاتریوں کو بابا گُرونانک کی سمادھی تک رسائی دینے کا جرأت مندانہ فیصلہ کر کے سب کو حیران کر دیا۔اس متعین پیش قدمی کیلئے عمران خان نے ذاتی دوست نوجوت سنگھ سدھو کو وسیلہ بنایا۔ویلیم بلیک نے سچ کہا تھا کہ دوست کو چھوڑنے کی بجائے دشمنی کو ترک کرنا آسان ہوتا ہے۔ہرچند کہ بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین ہندو مسلم تنازعات کی اساس کو ایک خالصاً نفسیاتی الجھن سے تعبیر کرتے ہیں‘وگرنہ نسلی‘سماجی اور جغرافیائی لحاظ سے ہندو مسلم ایک ہی جیسی تہذیب و ثقافت اور یکساں سماجی اقدارکے حامل ہیں۔اب بھی ان کے سوچنے کا انداز‘بودو باش‘سماجی رویے اور تہذیبی رجحانات میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔تقسیم سے قبل ایک ہزار سال تک ہندو اور مسلمان یہاں مل جل کے رہے‘انسانی سطح پہ ان میں باہمی رواداری اور سماجی تعلقات اب بھی نہایت خوشگوار ہیں۔آج بھی دونوں ممالک کے سینکڑوں خاندانوں کے سرحد کے دونوں اطراف منقسم ہونے کے باوجود جذباتی وابستگیاں کم نہیں ہوئیں۔ماضی قریب میں کانگرس ہندوؤں اور مسلمانوں کی یکساں نمائندگی کرتی رہی؛ اگرچہ دشمنی دونوں اقوام کی اخلاقیات کے منافی تھی‘ لیکن پھر بھی انگریزوں کے ہندوستان چھوڑتے وقت دونوں مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان ایک نوع کا نفسیاتی تنازعہ کھڑا ہوگیا۔ہندو مسلمانوں کی بھارت پہ ہزار سال کی حکمرانی کے نفسیاتی تسلسل سے بچنے اور مسلم اقلیت ہندو کے سیاسی غلبہ سے خوفزدہ ہو گئی‘اسی خوف نے محبت اور نفرت کے درمیان مقابلہ کی فضا پیدا کر کے ایک ایسی سیاسی کشمکش کو دونوں کے اعصاب پہ مسلط کر دیا‘جس کے آشوب سے صرف عام لوگ ہی نہیں بلکہ ہندووں اور مسلمانوں کی اعلیٰ دماغ قیادت بھی متاثر ہوئی۔معروف ہندو دانشور مسٹر گوپال کرشناگوکھلے ابتدا میں قائداعظم محمد علی جناح کو ہندوستانی قوم کے لیڈر کے طور پہ پروان چڑھاتے رہے‘ لیکن جب موہن داس کرم چندگاندھی کی صورت میں انہیں ہندو لیڈر میسر آیا تو انہوں نے محمد علی جناح سے آنکھیں پھیر لیں۔اسی روّیہ نے قائد اعظم جیسے روشن خیال انسان کو مایوس کر دیا۔ وہ کانگرس کے پلیٹ فارم سے آزادی کی جدوجہد چھوڑ کے انگلستان سدھار گئے‘ بعد میں علامہ اقبال کی درخواست پہ قائد اعظم محمد علی جناح نے جب مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی ‘تو اسی نفسیاتی پس منظر میں آل انڈیا مسلم لیگ نے بھی ہندوؤں سے نفرت کو علیحدگی کے لئے ترپ کے پتے کے طور پہ استعمال کیا۔
تقسیم کے بعد دونوں نوزائیدہ ریاستوں کا بیانیہ بھی جنونِ استرداد پہ معمول رہا۔ نفسیاتی دباؤ کے اسی تسلسل نے دونوں ممالک کی اشرافیہ کو ایک دوسرے پر جغرافیائی‘معاشی اور فوجی برتری حاصل کرنے کے میں مبتلا کر کے ہمہ وقت صف آرارکھا اور یہی وہم دونوں ممالک کے درمیان تین روایتی جنگوں کا محرک بنا ہے۔نفسیاتی خوف میں مبتلا دونوں مملکتوں کی خارجہ پالیسی نے عوامی نفسیات پہ ایسے مہیب اثرات مرتب کئے‘ جن سے جلد نکلنے کے امکانات کم ہیں۔رائے عامہ کے جائزے کے معروف ادارے پیوریسرچ سنٹر کے ایک سروے کے مطابق 72 فیصد بھارتی پاکستان کو ناپسند اور62 فیصد شدید نفرت کرتے ہیں‘کانگرس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے کم و بیش 70 فیصد حامی پاکستان کے مخالف ہیں‘صرف 10 فیصد ہندوستانی پاکستان کو اچھی نظر سے دیکھتے ہیں‘ لیکن اس سب کے باوجود سماجی سطح پہ بھارت اور پاکستان کے عوام میں ایک دوسرے کی قبولیت کا رجحان بدرجہ اتم موجود ہے اور اسی امکان میں ہمیں امید کی ایک کرن دکھائی دیتی۔گزشتہ چار سال میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اگرچہ پاکستان کو ملٹری فورس کے ذریعے انگیج رکھا‘ لیکن مودی کی88 فیصد مقبولیت کے باوجود صرف21 فیصد لوگ اس کی پاکستان کو ہینڈل کرنے کی پالیسی کو پسند کرتے ہیں۔62 فیصد بھارتی سمجھتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر ایک سنگین ایشو ہے‘ 40 فیصد ہندوستانی شہری مودی کے کشمیر بارے نقطہ نظر کے حامی نہیں۔گیلپ فاونڈیشن آف پاکستان کے 1981ء سے لے کر2014 ء کے درمیان کئے گئے متعدد سرویز سے پتا چلتا ہے کہ51 فیصد پاکستانی سمجھتے ہیں کہ بھارت پاکستان کے خلاف ایٹم بم استعمال نہیں کر سکتا۔1979 ء میں39 فیصد لوگ کہتے تھے کہ مسئلہ کشمیر بات چیت کے ذریعے حل ہو جائے گا‘ 33 فیصد لوگوں کا خیال تھا کہ اس مسئلہ کا حل جنگ میں پوشیدہ ہے۔ان ساری لن ترانیوں کے باوجود دونوں ممالک میں کرتار پور راہداری پر اتفاق خوش آئند ہے‘جس سے یہ تاثر ملا ہے کہ سرحد کے دونوں اطراف کی لیڈر شپ سیاسی بلوغت کو پہنچ گئی ہے۔اب باہمی تنازعات کو نمٹانے میں وہ کسی تیسرے فریق کی محتاج نہیں رہی۔کیا ہم یقین سے کہہ سکتے ہیںکہ بھارت اور پاکستان باہم مل کے علاقائی تنازعات حل کرنے کے قابل ہو جائیں گے؟