اگر پاکستان کے آرمی چیف‘ پبلک کے جذبات کو ابھارنے اور ان میں انتہا پسندی پیدا کرنے کیلئے یہ کہنا شروع ہو جائیں کہ سندھ یا کسی دوسرے صوبے میں فلاں جماعت یا پی پی پی اس لئے طاقتور ہو جاتی ہے کہ اسے سندھ کے پچاس لاکھ سے زائد ہندوئوں کی مدد حاصل ہے اور پی پی پی یہ سب کچھ ان کو ساتھ ملا کر کر رہی ہے‘ تو مجھے یقین ہے کہ پاکستان کے اندر فوج دشمن عنا صر‘ دانشور اور پروفیسرز سمیت نئے نئے لبرل وردی پہننے والے اینکرز اور تجزیہ کار ایک طوفان کھڑا کر کے رکھ دیں گے‘ بلکہ پاکستان کی تمام سیا سی جماعتیں جن میں مولانا فضل الرحمن اوردیگر سیاسی جماعتیں سب سے پیش پیش ہوں گی۔ آسمان سر پر اٹھا لیں گے کہ اس آرمی چیف کو بر طرف کرتے ہوئے اس پر آئین سے غداری کا مقدمہ درج کیا جائے‘لیکن دوسری جانب کسی نے اس خبر کو باہر نہیں آنے دیا کہ بھارت کے موجودہ آرمی چیف جنرل بپن راوت نے جنتا پارٹی کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''آسام میں جنتا پارٹی کی بجائے آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ طاقتور ہوتا جا رہا ہے‘ جس کی اصل وجہ وہاں کے مسلمانوں کی اسے زبردست سپورٹ ہے اور جنتا پارٹی کو چاہیے کہ وہاں کی عوام کو ساتھ ملانے کیلئے ترقیا تی کاموں کو تیز تر کر دے ‘‘ ۔
جنرل راوت کے مذکورہ بیان کے بعد بھارتی جنتا پارٹی کی جمہوریت اور سیکو لر ازم نے جنرل بپن راوت کو سلیوٹ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنرل ہو تو ایسا‘ جس کے دل میں دیش کیلئے اس قسم کا درد ہے۔یہ بیان جاری کرتے ہوئے بھارت کے آرمی چیف نے آئین میں اسے دیئے گئے اختیارات سے کیا تجاوز نہیں کیا‘ کیا اس پر یورپی یونین یا دولت مشترکہ سمیت اقوام متحدہ اورامریکی کانگریس یا سینیٹ سے کوئی ہلکی سی آواز اٹھی ہے کہ جنرل بپن راوت پر آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت غداری کا مقدمہ چلایا جائے ؟ کیا کسی امریکی تھنک ٹینک نے فاکس نیوز اور بی بی سی وغیرہ نے اس جنرل کو سیا ست میں اس قدر گھس کر مداخلت کرنے کے جرم میں آڑے ہاتھوں لیا؟ کیا کبھی جنرل راوت نے یہ کہا ہے کہ راشٹریہ سیوک سنگھ یا وشوا ہندو پریشد کانگریس یا جنتا پارٹی سے زیادہ طاقتور ہوتے جا رہے ہیں۔پاکستان میں تو رضا ربانی جیسے چیئر مین سینیٹ نے دشمنوں کو خوش کرنے کیلئے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کو سینیٹ میں پیش ہو کر اپنے اس بیان کی وضاحت کرنے کیلئے حاضر ہونے کا حکم دے دیا کہ وہ یہاں آ کر بتائے کہ ملک کی سکیورٹی کو کیا خطرات ہیں ‘تاکہ ہم اسے اپنے دوستوں تک پہنچا سکیں‘لیکن بھارت کی کسی لوک سبھا یا راجیہ سبھا نے جنرل بپن راوت کو حاضر ہونے کا بلاوا بھیجا؟
پاکستان میں یوٹرن سے مرغی اور انڈے کی باتیں تو کی جا رہی ہیں‘ کسی نے بھارت کے آرمی چیف کی اس سیا سی بیان بازی پر بات کی ہے؟جنرل بپن راوت نے یہ بیان اس وقت جاری کیا‘ جب بھارت کی مشرقی ریا ستوں میگھالیہ اور ناگا لینڈ کی ریاستی اسمبلیوں کیلئے عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں‘ تاکہ اس طرح ان ریا ستوں کی ہندو آبادیوں کو آل انڈیا یونائیٹڈ فرنٹ کی بجائے بھارتی جنتا پارٹی کی کامیابی کیلئے مسلمانوں کے نام پر ہندو انتہا پسندی کی جانب دھکیلا جا سکے ۔ یہی نہیں‘ بلکہ جنرل بپن راوت نے ابھی چند روز پہلے ایک اور بیان دیتے ہوئے سب کو حیران کر دیا کہ '' بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں جو بھی آزادی کے نعرے لگاتا ہے‘ وہ کشمیری نہیں‘ بلکہ دشمن کا ایجنٹ ہے‘ اس لئے میرا حکم ہے کہ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے والا چاہے ‘وہ عورت ہو یا مرد سب کو پیلٹ گنوں کے چھروں کا نشانہ بنا دیا جائے۔ یہ سب آتنک وادیوں کے ایجنٹ ہیں‘ جس میجر نے اپنی جیپ کے ہڈ پر ایک کشمیری نوجوان کو باندھ کر پورے قصبے اور ارد گرد کی سڑکوں پر پریڈ مارچ کی تھی‘ اسے جب بھارت کا آرمی چیف ایک خصوصی تقریب میں ایوارڈ سے نوازے‘ تو ایسی فوج اور اس کے چیف سے ہلاکو خان اور چنگیزخان کی بر بریت کے سوا اور کیا امید کی جا سکتی ہے‘ جس کا مظاہرہ ہم آئے روز کشمیر میں دیکھ رہے ہیں۔
دنیا کی کسی بھی مہذب ملک کی فوج تو دور کی بات ہے؛ اگر پولیس بھی اپنے حق کیلئے جدو جہد کرنے والے کو جیپ یا کسی گاڑی کے ہڈ پر باندھ کر اس طرح کی گھٹیا حرکت کرے ‘تو کیا اس ملک کی سول سوسائٹی یا معاشرہ اور قانون اجا زت دے سکتا ہے؟ہمارے ملک کے لبرل اور ترقی پسندوں کے فخر اور تکبر سے بھرے ہوئے صحافیوں کے لہجے کل تک ہمیں یہی بتا بتا کر شرمسار کیے جا رہے تھے کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور اس کا وزیر اعظم تو دور کی بات ہے ایک عام ڈیفنس سیکرٹری بھی اس قدر طاقتور اور با اختیار ہوتا ہے کہ انڈین آرمی کا چیف بھی بغیر اجا زت اس کے کمرے میں داخل نہیں ہو سکتا۔بھارت کی تمام افواج کے سربراہان ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں اور مجال ہے کہ بھارتی فوج سرحدوں کی حفاظت اور نگرانی کے علا وہ ملکی معاملات میں کوئی داخل دے سکیں یا سیا ست تو دور کی بات ہے ‘اس کے بارے میںکوئی لفظ بھی کہہ سکیں۔ہمارے جیسے نہ جانے کتنے لوگ اس احساس کمتری کے ساتھ امن کی آشا کے پجاریوں کے سامنے دبے دبے سے رہ رہے تھے کہ ہم جس فوج کی حمایت کرتے ہیں ‘اس کا تو ملکی معاملات میں داخل ہوتا ہے اور ان ترقی پسندوں اور جنوں بھوتوں کی طرح طاقتور اینکرز حضرات کی پسندیدہ فوج کا جنرل تو سب سے بڑی جمہوریت کے وزیر اعظم کے سامنے پر بھی نہیں مار سکتا ہے ۔
لیکن یہ سب دیکھ اور سن رہے ہیں کہ کس طرح سینہ پھلا کرانڈین آرمی چیف دنیا بھر کو سنانے کیلئے کھلے عام بول رہا ہے کہ پاکستان سے اس وقت تک دوستی نہیں ہو سکتی جب تک وہ مذہب کی بجائے سیکو لر نظریات اپناتے ہوئے اپنے ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بجائے صرف پاکستان میں تبدیل نہ کر دے‘ بلکہ نام کی تبدیلی کافی نہیں‘ اسے مذہب کو اپنے نصاب اور فوجی تربیت سے بھی نکا لنا ہو گا‘ تب جا کر بھارت اس سے اپنے تعلقات بہتر بنائے گا۔مجھے تو یہی یاد تھا کہ واجپائی حکومت کے وزیر دفاع جارج فرنینڈس نے کوئی بائیس برس پیشتر پارلیمنٹ ہائوس نئی دہلی کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ '' چین بھارت کا دشمن نمبر ایک ہے‘‘ اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ بیان دنیا بھر کے الیکٹرانک میڈیا پر دھوم مچانے لگ گیا یہ بریکنگ نیوز سنتے ہی اس وقت بھارت کے آرمی چیف جنرل وی پی ملک نے ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر کو خصوصی طور پر آرمی کے جنرل ہیڈ کوارٹر بلایا اور ان کوانٹرویودیتے ہوئے کہا کہ‘‘ چین اور بھارت کی دشمنی ہی نہیں ‘اس لئے نمبر ون دشمن کا توسوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘اور پھر پندرہ رو زبعد جنرل ملک کے حکم سے جارج فرنینڈس کو یہ بیان دینے پر وزارت دفاع سے فارغ کرتے ہوئے ماحولیات کا وزیر بنا دیا گیا۔ وزیر اعظم واجپائی نے بہت کہا کہ فرنینڈس کا تعلق اس کی کولیشن حکومت سے اور اس کی اتحادی جماعتیں ناراض ہو جائیں گی ‘جس سے اس کی حکومت کو خطرہ ہو سکتا ہے۔
لیکن سب سے بڑی جمہوریت کو اپنے ہی آرمی چیف کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑ گئے۔من موہن سنگھ سیا چن اور سر کریک پر جنرل مشرف سے تاریخی معاہدہ کرنے ہی جا رہے تھے کہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل جے جے سنگھ نے مارچ2007 ء میں ایک سیمینار سے خطاب کے دوران دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیر اعظم کو واشگاف پیغام دیتے ہوئے کہا '' بھارتی فوج ایک حد سے آگے اپنی فوج سیاچن سے واپس نہیں لائے گی ‘کیونکہ ہمیں علم ہے کہ ہماری دفاعی ضروریات کیا ہیں اور اس وقت کسی معاہدے کی ضرورت بھی نہیں‘ کیو نکہ افتخار چوہدری‘ عدلیہ آزادی کے نام پر جنرل مشرف کی حکومت ہی ختم کرنے جا رہا ہے‘‘۔