ہم آمد کے منتظر رہتے ہیں۔ دل جنہیں چاہتا ہے ‘اُن کے آنے کی آس ہمیں ذہنی‘ جذباتی اور روحانی سطح پر توانا رکھتی ہے۔ یہ بھی کیا کیفیت ہوتی ہے کہ بیان کرنا بھی چاہیں تو بیان نہ ہو پائے۔ صرف محسوس کی جاسکتی ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے ؎
مرگئے ہم‘ کھلی رہیں آنکھیں
یہ تِرے انتظار کی حد تھی!
اگر کسی کا انتظار ہو تو دم بھی مشکل سے نکلتا ہے۔ آنکھوں کی پیاس نہ بجھی ہو تو مرنے پر اُنہیں بند کرنا بھی دردِ سر ہوتا ہے۔
رساؔ چغتائی مرحوم کا مشہور مطلع ہے ؎
تیرے آنے کا انتظار رہا
عمر بھر موسم بہار رہا
ایک بار کسی محفل میں ہم نے یونہی‘ گستاخی ''فرماتے‘‘ ہوئے جملۂ معترضہ کے طور پر کہہ دیا کہ اس مطلع میں بنیادی سقم یہ ہے کہ ''آنے کا‘‘ زائد ہے۔ توجیہ و توضیح کی مد میں عرض کیا کہ انتظار کسی کی آمد ہی کا ہوا کرتا ہے۔ جب ایسا ہے تو آنے کا ذکر کرنا ''آبِ زمزم کا پانی‘‘ یا پھر ''لبِ سڑک کے کنارے‘‘ والا معاملہ کہلائے گا! اس گستاخی و زبان درازی پر اہلِ نظر نے ڈانٹا کہ یہ منہ اور مسور کی دال۔ بڑوں پر معترض ہوتے ہو! ع
دامن کو ذرا دیکھ‘ ذرا بندِ قبا دیکھ!
بات یہ ہے کہ جناب کہ اب ہمیں اپنی غلطی اور خطا تسلیم کرنے میں کچھ شرم محسوس نہیں ہونی چاہیے۔ مطلع میں سقم کے باوجود رساؔ چغتائی بہت حد تک غلط نہ تھے۔ زندگی انسان کو بہت کچھ سکھاتی ہے۔ رساؔ چغتائی نے بھی جو کچھ زندگی سے سیکھا تھا اُس کی روشنی میں یہ بات کہی تھی۔ ہم بھی اب تک سیکھ ہی رہے ہیں۔ کسی کی آمد کا منتظر رہنا خاصی دل آویز کیفیت ہوا کرتی ہے۔ دل چاہتا ہے کہ جسے آنا ہے وہ پَر لگاکر چلا جائے۔ ہر آہٹ پر دل چونک پڑتا ہے کہ جس کا انتظار تھا وہ شاہکار تو نہیں آگیا! معاملہ یہاں تک محدود نہیں۔ آنے کا انتظار تو سمجھ میں آگیا تھا۔ اب ''جانے کا انتظار‘‘ بھی سمجھ میں آتا جارہا ہے! رساؔ چغتائی کا اشارا اسی طرف تھا۔
دنیا میں بہت کچھ ہے‘ جو ہماری پسند اور مرضی کا نہیں اور اس سے بھی زیادہ دل خراش حقیقت یہ ہے کہ بہت کچھ ایسا ہے ‘جو ہمیں ذرا بھی پسند نہ ہونے کے باوجود ہماری زندگی کا حصہ ہوکر رہ گیا ہے۔ قدم قدم پر ایسی باتیں سنائی دیتی ہیں‘ جو ہمارے لیے کسی بھی اعتبار سے خوش کُن نہیں ہوتیں‘ اسی طور بہت سے لوگ ہیں ہمارے لیے کسی کام کے نہیں ہوتے‘ مگر کسی نہ کسی طور اُنہیں نبھانا پڑتا ہے۔ معاملہ یہاں تک محدود رہے تو کوئی بات نہیں۔ ایسی حالت کو انسان کسی نہ کسی طور جھیل ہی لیتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ بہت سے ناپسندیدہ افراد زندگی کا کم و بیش لازمی حصہ بن کر رہ جاتے ہیں۔ ایسا اُس وقت ہوتا ہے‘ جب ہم ڈھیل دکھاتے ہیں‘ معاملات کی پتنگ کو کچھ زیادہ ہی ڈھیل دے بیٹھتے ہیں اور کسی بھی معاملے کی درستی پر خاطر خواہ حد تک متوجہ نہیں رہتے۔
کسی کی راہ دیکھنا لغوی اعتبار سے اُس کی آمد کی راہ دیکھنا ہے‘ مگر زندگی بتاتی ہے کہ آنے سے بڑھ کر جانے کی راہ دیکھنی چاہیے! ہماری زندگی میں ایسا بہت کچھ ہے جو ایک بار آجائے تو بڑی مشکل سے جاتا ہے۔ بہت سے ناپسندیدہ معاملات خواہ مخواہ حرزِ جاں بن جاتے ہیں یا بنالیے جاتے ہیں۔ یہی معاملہ انسانوں کا بھی ہے۔ معاشرتی حیوان ہونے کے حوالے سے ہمیں بہت سوں سے رابطہ رکھنا پڑتا ہے۔ رابطہ رکھنے اور کسی کو اپنی زندگی کا حصہ بنالینے میں بہت فرق ہے۔ ہم زندگی بھر یہی تو کرتے رہتے ہیں ‘یعنی اس فرق کو نظر انداز کر بیٹھتے ہیں۔ کام کی چیزیں جمع کرنا ہمارا مشغلہ ہوا کرتا ہے۔ ٹھیک ہے‘ یہاں تک تو معاملہ سمجھ میں آتا ہے ‘مگر ہم اپنے ہی عمل سے اپنے فکر کی تردید کردیتے ہیں۔ جب کسی چیز کا مصرف نہیں رہتا تو اُس سے جان چھڑائی جاتی ہے ‘مگر ہمارا ایک بنیادی المیہ یہ ہے کہ جب کوئی کام کا نہیں رہتا‘ تب ہم اُسے اپنے سے الگ کرنے میں غیر معمولی تساہل یا ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں۔
انسان کے لیے انتہائی لازم ہے کہ جو کچھ کام کا نہیں وہ اُس کی زندگی کا حصہ نہ ہو اور حصہ ہونا تو دور کی بات ہے‘ معمولی سا تعلق بھی خرابیاں پیدا کرتا ہے۔ دانش کا تقاضا ہے کہ جب کوئی چیز بدبو یا کوئی اور خرابی پیدا کر رہی ہو تو اُسے اپنے سے دور کردیا جائے یا اُس سے فاصلہ رکھا جائے۔ تعلقات کا بھی تو یہی معاملہ ہوا کرتا ہے؛ اگر کسی سے تعلقات خرابی کی راہ ہموار کر رہے ہوں‘ تو اُس سے فاصلہ رکھنے میں کچھ ہرج نہیں‘ بلکہ بلند فکر سے کہیں ہٹ کر یہ تو عمومی نوعیت کی عقل کا بھی تقاضا ہے اور یہ تقاضا قدم قدم پر ہم سے ''ٹکرتا‘‘ ہے۔ ہمیں قدم قدم پر سنبھلنا ہے‘ بچنا ہے‘ بچ بچ کے چلنا ہے۔
عمومی سطح پر روا رکھی جانے والی سہل انگاری ہمیں بہت سے معاملات میں خرابیوں کی طرف دھکیلتی رہتی ہے۔ ہم نہ چاہتے ہوئے بھی بہت کچھ برداشت کرتے رہتے ہیں اور پھر برداشت کرنے کا معاملہ اشیاء تک محدود نہیں رہتا۔ انسانوں کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوتا رہتا ہے‘ جن سے کسی بھی معاملے میں‘ کسی بھی سطح پر کوئی فیض نہ پہنچ رہا ہو ہم اُنہیں بھی ''چشمِ ما روشن‘ دلِ ما شاد‘‘ کے مصداق بخوشی جھیلتے رہتے ہیں۔ جھیلتے رہنے کا یہ عمل رفتہ رفتہ پوری زندگی پر محیط ہو جاتا ہے‘ جس طور کوئی ہمارے نزدیک بیٹھ کر سگریٹ پی رہا ہو اور ہم سگریٹ کا دھواں برداشت کرکے passive smoking کے عادی ہوتے جاتے ہیں ‘یعنی سگریٹ کے دھویں کو اپنے پھیپھڑوں میں خوش آمدید کہتے ہیں‘ بالکل اُسی طرح بہت سوں کو ہم اُن کی تمام خرابیوں کے باوجود‘ کسی جواز کے بغیر‘ قبول کیے رہتے ہیں۔ یہ عمل ہمیں passive smoking ہی کی طرح غیر محسوس طور پر نقصان پہنچاتا رہتا ہے‘ مگر ہم متوجہ نہیں ہوتے۔
ہمارے شعراء نے کسی کے آنے کے حوالے سے‘ یعنی انتظار کی کیفیت کے بارے میں تو بہت کچھ لکھا ہے‘ مگر یہ نہیں لکھا کہ کسی کے جانے کی خوشی کیا ہوا کرتی ہے! کسی نے خوب کہا ہے ؎
مِری زندگی کے مالک‘ مِرے دل پہ ہاتھ رکھ دے
تِرے آنے کی خوشی میں مِرا دم نکل نہ جائے!
حق تو یہ ہے کہ کبھی کبھی کسی کے جانے کا انتظار زیادہ اور شدید ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر اس شعر کے مصرعِ ثانی کو ذرا سی تبدیلی سے پڑھیں تو دل کی ترجمانی کا حق ادا ہو جائے۔ ع
تِرے ''جانے‘‘ کی خوشی میں مِرا دم نکل نہ جائے!
ہر پسندیدہ حقیقت اپنی آمد کے ذریعے مسرّت پیدا کرتی ہے‘ اسی طور ہر ناپسندیدہ حقیقت بھی رخصت ہوتے وقت عجیب سی خوشی دیتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کسی ناپسندیدہ حقیقت کے رخصت ہونے سے حاصل ہونے والی خوشی کا سامان خود ہمیں اور شعوری سطح پر کرنا پڑتا ہے اور اس حقیقت سے تو آپ بھی انکار نہیں کرسکتے کہ کوئی خوشی جب ہماری اپنی شعوری کوشش کا نتیجہ ہو ‘تو اُس کا نشا اور مزا کچھ اور ہی ہوتا ہے۔