ہر نظام کے تحت قائم شدہ حکومتوں کی اپنی رائے عامہ کے ساتھ تعلقات کی بے شمار نوعیتیں ہوتی ہیں‘اس طرح حکومتوں کے علاقائی ‘معاشی اور کاروباری حضرات سے روابط کی بے شمارجہتیں اور تہیں ہوتی ہیں‘جو ان کے معاشی نظام پر گہرے اثرات چھوڑتی ہیں‘سرسری غور و فکریا تجزیہ سے ان کی حقیقت جاننا دشوار نہیں‘جس طرح وقت کی تقسیم ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں کی جا چکی ہے‘ اس طرح معاشی سماجی مطالعے اور تجزیوں کے عناصر کو مائیکرولیول پر جانچنے کے لیے طریقے دریافت کر لیے گئے ہیں۔
غیر مؤثرحکومتی ا قدامات اور جامع پالیسیوں کے نہ ہونے سے عوام میں اس کے مستقبل کا یقین ڈگمگانے لگا ہے‘اگر ہم نے موجودہ معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے کوئی جامع پالیسی واضح نہ کی اور اس پر عمل پیرا نہ ہوئے یقینا اس ملک کے معاشی حالات بے قابو ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ہم اپنے جغرافیائی قافلوں کے ہمسفر دوست ملک ‘پڑوسی ایران کی بات کریں تو وہ امریکی پابندیوں کے باوجود اپنے معاشی بحرانوں پر قابو پانے کے لیے تگ دو کر رہا ہے اورجو معاشی حالات اور ڈالر کی اڑان پاکستان میں دیکھی جا رہی ہے‘ کچھ عرصہ قبل یہی سب ایران میں بڑے پیمانے پر دیکھا گیا اور ہمیں ان سب سے سبق بھی حاصل کرنا چاہیے۔
2017ء کے ایرانی صدارتی انتخابات میں سوشل میڈیا نے صدر روحانی کے گرتے ہوئے گراف کو ختم کرکے اس کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ کیا ‘ایرانی ریال مئی تک اپنی حیثیت برقرار رکھنے میں کامیاب رہا‘ جب امریکی صدر ٹرمپ کی ایرانی نیوکلیئرپر سمجھوتے کی خبریں بھی گردش کرنے لگیں‘امریکی ڈالر کی قیمت 37000ایرانی ریال کے برابر تھی‘ اچانک اس کی قدر کم ہونا اور ڈالر کی قیمت بڑھنا شروع ہو گئی ۔ایرانی ریال پہلے 44000فی امریکی ڈالر کے برابر ہوا‘پھر دن بدن تنزل کی جانب گامزن رہا‘صورتحال اس قدر تشویش ناک ہو گئی کہ ایرانی ریال 50,000اور پھر 80000اور دسمبر میں 90000فی امریکی ڈالر تک جا پہنچا‘ جب صدر روحانی نے اقوام متحدہ میں تقریر کی اس کے زوال میں مزید تیزی آئی اور یہ 120000 پر چلا گیا ۔یہ صرف امریکی پابندیوں کی وجہ سے ہی نہیں ‘بلکہ ایرانی معاشی منصوبہ جات کی جامع پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے بھی تھا‘یہی سبب تھا کہ ان کی کرنسی روزبروز گر رہی تھی‘کہا جا سکتا ہے‘ ان مفروضہ جات کا بھی اہم کردار رہا‘ جوانتخابی مہم کے دوران سوشل میڈیا پر کرنسی کے متعلق جھوٹے پیغامات پھیلائے گئے ۔
جلد ہی یہ بات واضح ہوگئی کہ وہ سب محض باتیں ہی تھیں ‘امریکہ نے مزید پابندیاں عائد کردیں ‘جس کا نقصان یہ ہوا کہ مڈل کلاس طبقہ اور امراء ایرانی تجارت کے فتنوں میں گھر گئے اور اس بات کوسمجھ گئے کہ ایرانی کرنسی کی حیثیت مزید گرنے والی ہے‘ جس کی وجہ سے بیشتر ایرانیوں نے اپنے گھر تک بیچ دئیے اور امریکی ڈالروں پر سرمایہ کاری کرنے لگے ‘ انہوں نے ایسا صرف اس لیے کیا ‘تاکہ اپنے اثاثہ جات کو محفوظ بنا سکیں اور خاطر خواہ منافع بھی کمائیں۔ریال اور گرتا چلا گیا یہاں تک کہ حکومت کو فیصلہ کرنا پڑا کوئی بھی مقامی ایرانی خریدوفروخت ڈالر میں نہ کر سکے گا اور ایسا کرنے والے گرفتار کیے جا نے لگے ‘اس فیصلے سے عوام اور کرنسی تبدیل کرنے والے تاجروں میں ایک خلا ء پیدا ہونے لگا ‘مگر رفتہ رفتہ حکومتی خوف میں کمی ہونے لگی‘غیر قانونی مارکیٹ بڑہتی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے سنٹر آف ایران منی چینجر کا گڑھ بن گیا‘جہاں ہر کوئی کیش لے آتا اور امریکی ڈالر میں تبدیل کرا کے بل لے جاتا۔یہ صورتحال اس قدر بگڑتی چلی گئی کہ فروری میں عمر رسیدہ لوگوں کو بھی اپنی رقوم امریکی ڈالرز میں تبدیل کراتے ہوئے دیکھا گیا ‘ جو اپنی جوانی میں کمائی ہوئی رقم کو 170000 کے عوض ڈالرز میں تبدیل کرارہے تھے اور یوں ایرانی ریال اپنی حیثیت مکمل طور پر کھو چکا تھا‘سب لوگ ڈالرز کو ترجیح دے رہے تھے۔
ایران میں چوٹی کے تاجروں نے غلط خبریں سوشل میڈیا پر بھیجنا شروع کیںکہ ایرانی کرنسی مزید تنزلی کا شکار ہو گی ‘جس کا مقصد خریداروں کی تعداد بڑھانا اور زیادہ سے زیادہ منافع کمانا تھا‘حالات اس حد تک جا پہنچے کہ ایرانی عوام حکومت کے خلاف ہوگئے‘ایرانی حکومت نے سوشل میڈیا پر کوئی خاص توجہ نہ دی‘ سوشل میڈیا پر چلنے والی خبریں ایرانی اخبارات کی شہ سرخیاں بننے لگیں اور وہ غلط خبریں الیکٹرانک میڈیا پر چھا گئیں ۔نئے سال میں جب ریال کے متعلق حکومت کوئی نئی پالیسی لاتی‘ منی چینجرزتاجروں نے سوشل میڈیاپر ہزاروں چینل بنا لئے‘ وہ غلط خبریں مزید پھیلاتے رہے ‘جن میں زیادہ تر یہی ہوتا کہ اتنا ڈالر ایران سے باہر منتقل ہوگیاہے‘ اب ڈالر کی قیمت خرید اور فروخت مختلف ہوگی ۔ایرانیوں کی بڑی تعداد نے ان چینلز کو جوائن کرنا شروع کر دیا ۔ایک اندازے کے مطابق قریبا ً 20لاکھ لوگ ان چینلز سے منسلک ہوئے ‘تاجر غلط خبریں پھیلاتے رہے اور کرنسی مزید گرتی رہی اورایرانی اکانومی تباہی کے دھانے تک آ پہنچی۔
ایرانی سرکاری میڈیا نے بالآخر فیصلہ کیا کہ وہ سوشل میڈیا پر چلنے والی غلط خبروں کی تردید اور مثبت پہلو عوام کے سامنے اجاگرکرے گا ‘مگر پھر بھی بہت سے ایرانی عوام نے ان کی خبروں پر یقین کرنے کی بجائے ڈالر کی خرید وفروخت جاری رکھی ‘ڈالر اور ایرانی ریال میں آنکھ مچولی کا کھیل چلتا رہا کبھی ڈالر کی قیمت بڑھ جاتی تو کبھی ریال اپنی آب و تاب کیساتھ اوپر آتا ‘ اچانک ایرانی حکومت کی جانب سے ان تمام سوشل میڈیا کے چینلز کو غیر ضروری وجہ بتائے بغیربند کر دیا گیا ‘ان چینلز کے ممبران کی تعداد پہلے 20لاکھ ہوتی تھی ‘ ان کے نام سے ملتے جلتے اور چینلز بنائے گئے تو ان کی تعداد صرف 55000تک ہی رہ گئی ہے۔
ایرانی حکومت غلط خبروں کو ختم کرنے اور اپنے ریال کی حیثیت کو مستحکم کرنے کے لیے جامع پالیسی بنا رہی ہے‘تجزیہ کاروں اور معاشی ماہرین کیمطابق ایرانی کرنسی ایک سطح پر برقرار رہے گی اور انکے سسٹم NIMAسے منسلک رہے گی‘اس سسٹم کے تحت انکا مرکزی بینک تاجروں کو ڈیبٹ کارڈ کا اجراء عمل میں لائے گا ‘جس سے وہ خریدوفروخت ڈالرز میں کر سکیں گے‘مگر یہ حقیقت ہے ریال بے شک اپنی پہلے والی حیثیت نہ پاسکا ‘مگر جس پروپیگنڈا کے تحت اس پر کاری ضرب لگائی گئی‘ اپنی ساکھ بچا لینے میں کافی حد تک کامیاب رہا ۔ان سوشل میڈیا چینلز کا فائدہ امریکیوں نے بھی اٹھایا اور غلط استعمال کیا ‘ مگر اب ان خبروں کی تردید کردی جاتی ہے اور ان چینلز پر قابو بھی پا لیا گیا ہے۔
حکومت وقت کو بھی ہنگامی بنیادوں پر معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے اقدامات کرنے ہونگے اور ان سب حالات و اقعات سے سیکھ کر جامع پالیسی بنانا ہوگی۔