تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     04-12-2018

چراغِ بدر

وہ کوئی سعید لمحہ ہوتا ہے جب کسی دل میں ادارے کی جوت جاگتی ہے اورپھر جذبے کی آنچ اس میںشامل ہوکر کتنے ہی خوش رنگ منظروں کوتخلیق کرتی ہے۔ایک ایسا ہی خوش رنگ منظر اچانک میری نگاہوں کے سامنے آگیا۔ وہ اکتوبر کے مہینے کی ایک اُجلی صبح تھی ‘ میںاسلام آباد میں واقع نمل یونیورسٹی کے میڈیا سٹڈیز کے ڈیپارٹمنٹ کی طرف جارہاتھا کہ اچانک کورس کی شکل میں مجھے ''لب پہ آتی ہے‘ دعابن کے تمنا میری‘‘ سنائی دی۔ یہ چھوٹے بچوں کی آواز تھی۔مجھے حیرت تو ہوئی کہ یونیورسٹی میں چھوٹے بچوں کا کیا کام؟ پھر میرے قدم اس آواز کی طرف خود بخود اٹھنے لگے۔ اس دعاسے میرا بچپن سے گہراتعلق ہے‘ مجھے اپنے سکول کا گرائونڈ یادآگیا‘ جہاں ہرصبح اسمبلی میں ہم سب سے پہلے مل کر یہ دعاپڑھاکرتے تھے۔ آج برسوں کی دوری سے مجھے وہ آواز پھرسنائی دی اور میں اس کی طرف کھنچتا چلا گیا۔وہ دوکمروں پرمشتمل ایک عمارت تھی ‘جس کی پیشانی پر''چراغِ بدر‘‘ لکھاتھا۔ سکول کے برآمد ے میں اسمبلی ہورہی تھی اوردوقطاروں میں بچے دعا پڑھ رہے تھے۔
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
میرے لیے وقت جیسے رک گیا ہو‘ میں کتنی ہی دیرانہماک سے ننھے منے بچوں کو دیکھتا رہا ‘ جن کے ہاتھ دعا کے لیے اٹھے تھے‘ پھرسب نے مل کر قومی ترانہ پڑھا اور ایک ترتیب اورسلیقے سے کلاس رومز میں چلے گئے ۔میں اپنے بچپن کو چُھوکر واپس آگیا۔ واپسی پرسوچتا رہا یہ کون بچے تھے؟ یہ کیساسکول تھا؟ بعدمیں پتا چلا کہ چراغِ بدر ایک بہت ہی منفرد سکول ہے‘ جہاں پڑھنے والے بچوں اوربچیوں کاتعلق کچی بستیوں سے ہے۔ ان میں بیشتر کے والدین کاپیشہ گداگری ہے۔ یہ بچے بھی اپنے والدین کے ہمراہ بھیک مانگتے تھے‘ لیکن ا ب وہ اس سکول کے طالب علم ہیں۔ یہاں انہیں نہ صرف مفت تعلیم دی جاتی ہے‘ بلکہ ٹرانسپورٹ‘ یونیفارم اورکھانا بھی مفت فراہم کیاجاتاہے۔ سکول کانام ''چراغِ بدر‘‘ غزوہ بدر کے اس واقعے کی طرف اشارہ ہے‘ جب مسلمانوں کے قبضے میں آئے قیدیوں کی رہائی کے لیے یہ پیش کش کی گئی کہ اگر قیدی فدیہ نہیں دے سکتے اور پڑھے لکھے ہیں‘ تو وہ مدینہ کے دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھادیں ‘توانہیں رہائی مل سکتی ہے۔ یہ دراصل مدینہ کی ریاست میں خواندگی کی اہمیت کاحوالہ تھا۔ یہ علم کی روشنی کاچراغ تھا ‘ جو کبھی وحی کے پہلے لفظ ''اقرائ‘‘ کی شکل میں جگمگایا اور پھرحالت ِجنگ میں بھی محترم رہا۔
چراغِ بدر سکول میں کچی بستیوں کے غریب بچوں کے لیے مفت تعلیم کے خیال کی جوت جنرل ضیا الدین نجم کے دل میں اس وقت جاگی ‘جب وہ سندھ میں اپنے فرائض منصبی انجام دے رہے تھے۔ جب انہوں نے ان بچوںکودیکھا‘ جن کی آنکھوں میں رنگین خوابوں کی بجائے صحرائوں کی ریت اڑرہی تھی‘ جن کے بچپن کے دن رات غربت کی بھینٹ چڑھ گئے تھے‘ جنہیں حالات نے سکول کی بجائے حالات کی بے رحم لہروں کے حوالے کردیاتھا۔ یہ منظر ان کے دل کے درودیوار پرنقش ہوگئے تھے۔ برسوں بعدجب وہ نمل یونیورسٹی کے ریکٹربنے توان غریب بچوںکے چہرے ان کے سامنے آگئے جن کے چہروں پرایک ہی سوال تھا:ہم باقی بچوں کی طرح سکولوں میں کیوں نہیں پڑھ سکتے؟کیاہماری غربت ہمارا قصور ہے؟ یہی وہ لمحہ تھا جب چراغِ بدر کاخیال عمل میں بدلنے لگا۔اس خواب کوحقیقت بنانے میں بہت سے لوگوں نے رضاکارانہ طورپراپنی خدمات پیش کیں۔ ڈاکٹرارشد اور ان کی جواں ہمت ٹیم نے اس کام کے لیے دیوانہ وار کام کیا‘ وہ کچی بستیوں میںگئے‘بچوں کے والدین کی منتیں کیں کہ وہ اپنے بچوں سے بھیک مت منگوائیں‘ بلکہ انہیں سکول بھیجیں۔ ان بچوں کے والدین کوراضی کرنا آسان کام نہ تھا‘ کیوں کہ یہ بچے بھیک کے پیسے اپنے والدین کو لاکردیتے تھے اور کچھ نہیں تو تین ساڑھے تین سو کی دیہاڑی لگ جاتی تھی‘ لیکن نوجوانوں کی ٹیم نے ہمت نہیں ہاری‘ وہ کچی بستیوں میں جاتے رہے‘ ان کے دکھ درد میں شریک ہوتے رہے‘ آخر کار اخلاص اور محبت کی جیت ہوئی اوربستی کا سب سے شرارتی بچہ جمعہ خان چراغِ بدر کا طالب علم بن گیا۔ پھرآہستہ آہستہ سکول میں بچوں کی تعداد بڑھنے لگی اوراب ان بچوں کی تعداد چالیس کے قریب ہے۔
مجھے وزیراعظم عمران خان کی قوم سے پہلی تقریر یاد آرہی ہے‘ جس میں انہوں نے درد مندی سے اُن اڑھائی کروڑ بچوں کا ذکر کیا‘ جنہیں سکول تک رسائی نہیں مل سکی اور وہ زندگی کی دوڑ میں باقیوں سے پیچھے رہ گئے ہیں۔جن کی قسمت میںمعروف شاہراہوںپر گاڑیوںکی ونڈسکرین صاف کرنااورپھول بیچنا لکھاہے‘ جن کی عزت دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے مسخ ہو گئی ہے۔ وزیر اعظم کی سطح پر ا س اہم مسئلے کا ادراک ایک خوش کن پیش رفت ہے‘ لیکن یہ اہم مسئلہ حکومتی توجہ کے ساتھ سول سوسائٹی کی توجہ کامتقاضی بھی ہے۔ اس سلسلے میں تعلیمی ادارے کمیونٹی سروس کے حوالے سے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔نمل یونیورسٹی کا چراغِ بدر کا تجربہ بہت سے اداروں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ کیاہی اچھاہو کہ اگر ہائر ایجوکیشن یونیورسٹیوں کو کمیونٹی سروس کے حوالے سے متوجہ کروائیںاور اس سلسلے میں ان کی مالی امداد بھی کریں ‘تاکہ جامعات آؤٹ آف سکول بچوں کے حوالے سے حکومت کا ہاتھ بٹا سکیں۔
چراغِ بدر سکول کی قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہاں بچوں کاڈراپ آئوٹ ریٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔اگرکوئی بچہ غیرحاضرہوتو گھروں سے رابطہ کرکے اسے واپس لایاجاتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ بچے مشکل سے سکول آتے تھے اوراب یوں ہے کہ بچے شوق سے سکول آتے ہیں۔ سردی ہویاگرمی‘ دھوپ ہویابارش وہ چھٹی نہیں کرتے۔ سکول میں بچوں کوبنیادی لکھائی اورپڑھائی کے علاوہ زندگی کے آداب بھی سکھائے جاتے ہیں۔ ایک دن خاص طورپر میں ان بچوں سے ملنے گیا‘ ان سے گفتگو کی ان میں اعتماد کی جھلک دیکھی۔ بچوںنے گفتگو کے دوران دلچسپ بات بتائی کہ کیسے وہ سکول میں سیکھی ہوئی باتیں اپنے والدین کوسکھاتے ہیں ۔ایک بچی نے بتایا کہ کلاس کی تربیت سے ان میں بہت سی تبدیلی آئی ہے‘یہ تبدیلی ان کے اٹھنے بیٹھنے اورگفتگو میں جھلکتی ہے۔چراغِ بدر سکول میں اور مضامین کے علاوہ کمپیوٹر کلاسز بھی ہوتی ہیں۔ بچوں کے والدین کی فرمائش پربچوں کو سلائی سکھانے کااہتمام کیاگیاہے۔ بچوں میں اس مثبت تبدیلی کاکریڈٹ ان کے اساتذہ علی‘ زینب اور کنزا کوجاتاہے۔ علی کو اب راولپنڈی میںنوکری مل گئی ہے‘ لیکن وہ شام کوچراغِ بدر میں ان بچوں کوپڑھانے آتے ہیں۔ کنزا نے کبھی ٹیچر بننے کانہیں سوچاتھا ‘لیکن ان بچوںکوپڑھاتے ہوئے انہیں تدریس کے شعبے سے محبت ہوگئی ہے۔ زینب اسلام آباد سے تقریباً20کلومیٹر دور سے آتی ہیں۔ وہ ہرروز ساڑھے پانچ بجے بیدارہوتی ہیں اورساڑھے چھہ بجے اپنے گھر سے روانہ ہوجاتی ہیں۔ ان کے بقول ان بچوں کو پڑھاتے ہوئے انہیں عبادت جیسی تسکین ملتی ہے۔ میں سوچتا ہوں انسانیت کی خدمت کایہ جذبہ‘ یہ لگن‘ یہ جنون جن دلوں میں جگہ بنالیتا ہے انہیں کسی اور متاع کی ضرورت نہیں رہتی۔ ان کی آنکھوں میںخوش نمامنظروں کاعکس ہوتاہے جو زندگی کے سفر میں ان کا زادِ راہ ہوتا ہے‘ یوں یہ سفر آسانی سے کٹ جاتا ہے‘ لیکن اس سفرکاآغاز اسی سعید لمحے سے ہوتاہے جب کسی دل میں ادارے کی جوت جاگتی ہے۔ اور پھر جذبے کی آنچ اس میں شامل ہوکرخوش رنگ منظروں کو تخلیق کرتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved