تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     04-12-2018

گاں ویچ کے کھوتی لئی

میں ٹی وی نہیں دیکھتا۔ اس نہ دیکھنے سے یہ مراد نہیں کہ اس سلسلے میں کوئی قسم کھائی ہے ‘لیکن میں ٹی وی دیکھتا نہیں ہوں۔ مہینے میں کبھی ایک آدھ بار دیکھ بھی لیتا ہوں‘ لیکن پانچ سات منٹ۔ اب بھلا اس جادو نگری میں پانچ سات منٹ کی کیا اہمیت ہے؟ پچھلے پانچ چھ سال میں جو نئے اینکرز آئے ہیں‘ نہ ان کا نام سنا ہے اور نہ کبھی دیکھا ہے۔ اگر کبھی آمنا سامنا ہو جائے تو مجھے بالکل پتا نہیں چلتا کہ یہ کون ہے۔ اردگرد کے لوگوں کی جانب سے پذیرائی کے باعث احساس ہوتا ہے کہ کوئی مشہور آدمی ہے تو کسی طرح ساتھ والے کسی دوست سے چپکے سے پوچھ کر متوقع شرمندگی سے بچنے کی کوشش کرتا ہوں اور اکثر کامیاب بھی ہو جاتا ہوں۔ اپنی اس بُری عادت کے طفیل جو بہرحال میرے لیے تو کسی حد تک باعث سہولت اور آرام ہے‘ کبھی کبھار تو بڑے کام کی چیزوں سے محروم رہ جاتا ہوں‘ لیکن آسانی یہ ہے کہ ہر صبح پانچ چھ اخبارات کا اچھی طرح ''ملیدہ‘‘ بناتا ہوں اور گزشتہ دن والی محرومی کا ازالہ کر لیتا ہوں‘ تاہم کئی چیزیں صرف دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں‘ اس لیے ان کی محرومی کا کماحقہ ازالہ ممکن نہیں ہوتا۔ کل بھی ایسا ہی ہوا۔ میں لاہور کے گورنر ہاؤس کی قدیمی دیوار کے گرائے جانے کا منظر دیکھنے سے محروم رہ گیا‘ لیکن پھر سوچتا ہوں کہ اس منظر کو دیکھنے سے محرومی سے میرا کیا نقصان ہوا ہے؟ یہ کونسا ایسا منظر تھا کہ اگر نہیں دیکھ سکا تو کوئی ناقابل تلافی قسم کا منظر دیکھنے سے محروم رہ گیا ہوں؟ کیا یہ دیوار برلن کے گرائے جانے جیسا کوئی تاریخی واقعہ تھا...؟
اللہ جانے عمران خان کو ایسے مشورے کون دیتا ہے؟ اگر کوئی انہیں یہ مشورے نہیں دے رہا تو آخر انہیں ایسا کرنے سے کوئی روکتا کیوں نہیں؟ اس دیوار کے گرائے جانے سے کوئی ایک فائدہ ہوا ہو تو بتایا جائے۔؛حتیٰ کہ خود عمران خان نے بھی اس دیوار گرانے کا نہ تو کوئی وعدہ کیا تھا اور نہ ہی اعلان۔ اعلان تو کیا تھا؛ گورنر ہاؤس کو تعلیمی ادارے میں تبدیل کرنے کا اور آخر کار گرا دی اس کی دیوار۔ میں کبھی کبھار اپنے آپ کو بڑا عقلمند خیال کرتا ہوں۔ یہ گمراہ کن خیال میرے دماغ میں تب آتا ہے جب میں اپنے سے بھی زیادہ حماقت آمیز حرکتیں کرنے والوں کو دیکھتا ہوں۔ ان احمقانہ حرکتوں کے طفیل میرے دماغ میں یہ خناس آ جاتا ہے کہ میں بہت عقلمند اور سیانا ہوں۔ ایمانداری کی بات ہے کہ گورنر ہاؤس کی دیوار گرانے کے فیصلے کا سن کر بھی میرے دماغ میں پھر اسی خوش فہمی کا کیڑا کلبلانے لگ پڑا اور مجھے لگا کہ میں کافی سیانا آدمی ہوں۔ اسی عقلمندی کے گھمنڈ میں آ کر میں نے کئی منٹ تک یہ سوچنے کی کوشش کی کہ آخر اس دیوار کے گرانے میں کوئی ایک فائدہ تو دریافت کیا جائے۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ میں نے اس دیوار کے گرانے سے پیدا ہونے والے کئی فوائد دریافت کیے ‘جو درج ذیل ہیں:
پہلا یہ کہ میرے جیسے کم حیثیت آدمی‘ جنہوں نے کبھی بھی یہ تاریخی عمارت اندر سے نہیں دیکھی ‘باہر سے گزرتے ہوئے دیکھ لیں گے۔ دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ چوہدری سرور صبح کی سیر کرتے ہوئے باہر سے گزرنے والے لوگوں کو ہاتھ وغیرہ ہلا کر خوش ہوا کریں گے۔ تیسرا یہ کہ وہ جنگلے سے ہاتھ باہر نکال کر لاہوری بچوں سے ہاتھ ملا سکیں گے۔ ایسے بچے سکول میں جا کر اپنے ہم جماعت بچوں کو بتا سکیں گے کہ وہ گورنر چوہدری سرور سے ہاتھ ملا کر آئے ہیں‘ پھر دماغ میں ایک گمراہ کن خیال آیا کہ کوئی ناہنجار اس شریف آدمی کو ٹھینگا بھی دکھا سکتا ہے اور زیادہ کمینگی پر اتر آئے تو گندا انڈہ بھی مار سکتا ہے‘ لیکن میں نے اس خیال کو دماغ سے جھٹک دیاکہ فی الحال صرف فوائد کے سلسلے میں خیال کا گھوڑا دوڑایا جا رہا تھا‘ تاہم کافی دیر تک سوچنے کے باوجود کوئی چوتھا فائدہ ذہن میں نہیں آ سکا۔
دو تین گھنٹے بعد جب دماغ سے عقلمندی کا بھوت اترا اور میں نے اپنے سوچے گئے تین فوائد پر دوبارہ غور کیا تو احساس ہوا کہ یہ تینوں فوائد بھی مرحوم کرنل شفیق الرحمان کی کتاب ''مزید حماقتیں‘‘ کے پہلے مضمون ''تزک نادری‘‘ میںدرج ان وجوہات جیسے ہیں ‘جو نادر شاہ کے وزیر عقلمند خان نے بسلسلہ حملہ ہندوستان گھڑے تھے۔ حکومتی وزراء اور بالخصوص اپنے فواد چودھری صاحب کے علاوہ اگر کسی عام آدمی کے ذہن میں اس دیوار کے گرانے کا کوئی ایک معقول فائدہ بھی ہو تو وہ اس عاجز کو بتا سکتا ہے۔ حکومتی وزراء کیونکہ عام آدمی نہیں ہوتے‘ اس لیے ان کو اس فہرست سے خارج کر دیا ہے۔
پہلے پہل تو میں بڑا حیران ہوا کہ دیوار گرا کر گورنر ہاؤس کو چوروں چکاروں کے رحم و کرم پر چھوڑنا بھلا کہاں کی عقلمندی ہے؟ لیکن میری یہ فکرمندی جلد ہی دور ہو گئی اور پتا چلا کہ دیوار گرا کر یہاں لوہے کا جنگلہ لگایا جا رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دیوار گرانے اور جنگلہ لگانے کے عمل میں نفع نقصان کی کیا صورت ہوگی؟ دیوار توڑنے پر خرچہ آئے گا۔ ملبہ اٹھانے پر مزید خرچہ آئے گا اور لوہے کا جنگلہ لگانے پر اور مزید خرچہ آئے گا‘ یعنی خرچہ ہی خرچہ۔ اگر یہ حرکت گزشتہ حکومت نے کی ہوتی تو عمران خان نے فوراً الزام لگا دینا تھا کہ یہ سارا اہتمام اتفاق فونڈری کا سریا بیچنے کی غرض سے کیا جا رہا ہے‘ لیکن اس میں دو باتیں باعث ِاطمینان ہیں۔ پہلی یہ کہ یہ دیوار آل شریفین نے نہیں گرائی اور دوسری یہ کہ خود عمران خان یا ان کے دوستوں از قسم جہانگیر ترین وغیرہ کے با رے میں یہ نہیں سنا کہ ان کی کوئی سٹیل مل ہے‘ لیکن یہ سوال بہرحال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ دیوار گرا کر وہاں جنگلہ لگانے میں کیا رمز پوشیدہ ہے؟ اس عمل سے ملکی اقتصادی صورتحال میں بہتری کے کیا امکانات نظر آ رہے ہیں؟ کیا یہ جنگلہ لگانے سے بے قابو ڈالر حکومت کی گرفت میں آ جائے گا؟معاشی صورتحال نا صرف یہ کہ خراب ہے‘ بلکہ خود بقول عمران خان ابھی اور سخت اقدامات اٹھانے پڑیں گے‘یعنی صورتحال میں مزید خرابی متوقع ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ یہ خرابی موجودہ حکومت کو ورثے میں ملی ہے اور اس میں اسحاق ڈار اینڈ کمپنی سو فیصد ذمہ دار ہے۔ اس ساری معاشی خراب صورتحال میں موجودہ حکومت کا کوئی قصور نہیں۔ یہ وہ خرابیاں ہیں ‘جو انہیں حکومت سنبھالتے ہی جہیز میں ملی ہیں‘ لہٰذا ان خرابیوں کی حد تک تو یہ سو فیصد بے قصور ہیں‘ لیکن اب ان خرابیوں کو ٹھیک کرنے کی ذمہ داری بہرحال موجودہ حکومت کے کندھوں پر ہے اور عالم یہ ہے کہ انہیں سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ انہوں نے کرنا کیا ہے؟ انگریزی کا ایک محاورہ ہے کہ "Good begun is Half Done" یعنی اچھا آغاز‘ نصف تکمیل کے مترادف ہے۔ کیا سو دن میں اچھا آغاز نظر آ رہا ہے؟
اس سلسلے میں سرکاری تقریبات سے قطع نظر‘ مجھے تو کم از کم کوئی اچھا آغاز نظر نہیں آ رہا۔ اچھا آغاز اس لیے نہیں ہو سکا کہ اچھی ٹیم بروئے کار نہیں ہے۔ اب ہر جلسے میں‘ ہر تقریب میں اور ہر میٹنگ میں عمران خان بے شک عثمان بزدار کے بارے میں جتنی تعریفیں مرضی کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کی زبانی تعریف کے علاوہ ان کی اپنی ذاتی کارکردگی صفر بھی نہیں ہے کہ اگر وہ صفر بھی ہوتی تو کم از کم نظر تو آتی۔ یہ تو نظر بھی نہیں آ رہی۔ ویسے بھی اگر کارکردگی نظر آ رہی ہوتی‘ تو عمران خان کو ان کی کارکردگی کے بارے میں ہر جگہ زور زبردستی والا اعلان کرنے کی نہ تو ضرورت پڑتی اور نہ ہی اس کی نوبت آتی۔ یہی حال باقی جگہوں پر ہے۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے وزیر کو کمپیوٹر چلانا نہیں آتا۔ اوورسیز پاکستانیوں کا مشیر ای سی ایل پر ہے اور بذات خود ''اوورسیز‘‘ نہیں جا سکتا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر کو گائے رگیدتی پھر رہی ہے۔ پچاس لاکھ مکانوں کا پراجیکٹ اپنے ذاتی دوست کے سپرد کیا گیا ہے‘ جو برطانوی شہری ہے۔ اسد عمر کی معاشی مہارت کی ہوا ڈالر نے نکال دی ہے۔ ویسے بھی اسد عمر کا کل تجربہ اینگرو کا چیف ایگزیکٹو ہونا تھا اور یہ سو فیصد کاروباری انتظامی کام تھا‘ نہ کہ ملکی معیشت چلانا۔ اقتصادیات اور معیشت کے معاملات کو سمجھنا ایک بالکل مختلف چیز ہے اور ایک بڑی کاروباری کمپنی کو چلانا ایک بالکل ہی مختلف کام ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے‘ ہماری وزارت خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق جیسے ماہر معاشیات کے بعد نوید قمر‘ شوکت عزیز‘ شوکت ترین اور اسحاق ڈار سے ہوتی ہوئی اسد عمر تک آن پہنچی ہے۔ وزیر خزانہ کا نام سن کر ذہن میں آتا ہے کہ ایک بہت بڑے ہیرے جواہرات سے بھرے ہوئے کمرے کے باہر ایک عدد تختی لگی ہوگی‘ جس پر لکھا ہوگا ''خزانہ‘‘ اور اس کمرے کے باہر ایک شخص اس کمرے کی چابی اور حساب کتاب کا کھاتہ لیے بیٹھا ہوگا ‘یہ اکاؤنٹینٹ ٹائپ آدمی وزیر خزانہ ہوگا۔
قارئین! ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر معذرت۔ بات گورنر ہاؤس کی دیوار سے وزیر خزانہ کی طرف چلی گئی۔ اس دیوارکو گرا کر جنگلہ لگانے پر اندازاً چھ کروڑ روپے خرچ ہونگے ‘اس پر ایک پنجابی محاورہ آیا‘ جس کا ترجمہ ہے ''گائے بیچ کر گدھی خرید لی۔ دودھ سے محروم ہوئے اور لید صاف کرنی پڑ گئی‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved