تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     04-12-2018

سرخیاں ان کی‘متن ہمارے

کرپشن اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے: پرویز خٹک
وزیر دفاع پرویز خٹک نے کہا ہے کہ ''کرپشن اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے‘‘ بلکہ صرف علیحدہ علیحدہ ہی چل سکتے ہیں‘ کیونکہ علیحدہ چلنے کا ایک اپنا ہی مزہ ہے‘ کیونکہ اکٹھا چلنے سے ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرانے اور ایکسیڈنٹ کا بھی خطرہ ہے ‘جس میں پاکستان کا نقصان زیادہ ہو گا اور کرپشن کا کم‘ بلکہ انہیں راستہ بھی علیحدہ علیحدہ ہی اختیار کرنا چاہیے تاکہ کرپشن بھی آرام سے چلتی رہی اور پاکستان بھی اور دونوں آرام سے اپنی اپنی منزل تک بھی پہنچ جائیں ‘جبکہ ساتھ ساتھ چلنے سے ان میں لڑائی جھگڑا بھی پیدا ہو سکتا ہے‘ جبکہ ملکی مفاد اسی میں ہے کہ دونوں سکون اور آرام سے اپنی منزل کی طرف گامزن رہیں‘ جبکہ کرپشن کے لیے زیادہ کھلی سڑک کی ضرورت ہے‘ اس لیے بہتر ہے کہ کوئی موٹر وے اس کے لیے مخصوص کر دی جائے ‘جبکہ ملک کے لیے جی ٹی روڈ بھی ٹھیک رہے گی ‘کیونکہ وزیراعظم کی حکمت عملی کے مطابق ہمیں سادگی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ اگلے روز پشاور میں ایک اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔
شہباز شریف سے ملاقات کے بعد بہت پریشان ہوں: تہمینہ درانی
سابق اور گرفتار وزیر اعلیٰ پنجاب کی ایک اہلیہ تہمینہ درانی نے کہا ہے کہ ''میں شہباز شریف سے ملاقات کے بعد بہت پریشان ہوں‘‘ جبکہ میں کافی عرصے سے دونوں بھائیوں سے کہہ رہی تھی کہ احتیاط سے چلیں ‘لیکن دونوں نے بد احتیاطی کی انتہا کر دی اور اب دونوں بھگت بھی رہے ہیں؛ اگرچہ احتیاط بھی کرتے تو یہی نتیجہ نکلنا تھا‘ بلکہ ان کے معاملے میں تو یہ ہوا ہے کہ ؎
کثرتِ احتیاط سے کام خراب ہو گیا
کیونکہ اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ٹھیک ٹھاک چلتا ہوا کام بھی یک بیک خراب ہو جاتا ہے اور نانی یاد آ جاتی ہے‘ جبکہ یہ بہت زیادتی ہے‘ کیونکہ نانی کی بجائے کبھی دادی بھی یاد آنی چاہیے‘ کیونکہ اس سے دادی بُرا مان سکتی ہے‘ بلکہ اس پر تو مامیوں اور پھو پھیوں کا بھی پورا پورا حق ہے ۔ آپ اگلے روز میاں شہباز شریف سے نیب کے دفتر میں ملاقات کے بعد بیان جاری کر رہی تھیں۔
دیواریں توڑنے سے بجلی‘ گیس‘ روٹی اور آٹا سستا نہیں ہوگا: مریم 
سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات اور ن لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''دیواریں گرانے سے بجلی‘ گیس‘ روٹی‘ نان اور آٹا سستا نہیں ہوگا‘‘ کیونکہ اگر گرانی ہی ہیں‘ تو ملک بھر پھیلی ہوئی فالتو عمارتیں‘ مثلاً : ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن وغیرہ کے دفاتر گرائے جائیں‘ جن کی وجہ سے یہ ساری چیزیں مزید مہنگی ہو رہی ہیں‘ کیونکہ اگر حکومت 100دن ٹھیک طرح سے کام کرتی‘ تو ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا سکتی تھی اور اگر ہم اقتدار میں رہتے تو یہ دونوں کام کر دینے تھے‘ کیونکہ دودھ کی نہر بہانے کے منصوبے پر تو کام شروع بھی ہو گیا تھا‘ جس کے وزیراعظم ہاؤس کے لیے آئی نہایت پلی اور منوں کے حساب سے دودھ دینے والی بھینسیں خریدی گئی تھی‘ جو اس عاقبت نااندیش حکومت نے آتے ہی بیچ ڈالیں اور ہمارا ایک اچھا بھلا منصوبہ ناکام بنا دیا گیا‘ جبکہ ہمارے قائد فارغ وقت میں اُن کے سامنے بین بھی بجایا کرتے تھے۔ آپ اگلے روز لاہور میں گورنر ہاؤس کی دیواریں توڑنے پر اظہار خیال کر رہی تھیں۔
اسلام آباد میں اندھے بیٹھے ہیں‘ حکومت چلتی نظر نہیں آتی: زرداری
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''اسلام آباد میں اندھے‘ کانے‘ بہرے بیٹھے ہیں۔ حکومت چلتی نظر نہیں آتی‘‘ جبکہ مجھے تو بالکل بھی نظر نہیں آتی‘ بلکہ اس کی جگہ دوسری عجیب عجیب اور افسوسناک چیزیں صاف نظر آتی رہتی ہیں ‘جن کا تعلق میرے خلاف انکوائریوں وغیرہ سے ہے‘ تاہم ان احمقوں کو یہ معلوم نہیں کہ جیل کے اندر میں زیادہ خوش رہتا ہوں‘ بلکہ گھر سے بھی زیادہ ‘جبکہ وہاں ایسے افراد سے بھی ملاقات کی سہولت حاصل تھی‘ جس کا گھر میں بینظیر بھٹو کی وجہ سے کوئی امکان نہیں تھا‘ چنانچہ میں تو اُس شب‘ گھڑی کے انتظار میں ہوں کہ کب آتی ہے؛البتہ ایان علی بے چاری کا بہت خدشہ اور فکر ہے‘ تاہم اگر اسے بھی اسی جیل میں رکھا گیا جس میں مجھے ٹھہرایا گیا تو اُن کے ساتھ دُکھ سُکھ کرنے کا موقع بھی ملے گا۔ آپ اگلے روز صادق آباد میں ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
پی ٹی آئی نے کہا گھر دیں‘ یہ تباہی کا پیغام ہے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور ایم ایم اے کے سیکرٹری جنرل مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''پی ٹی آئی نے کہا گھر دیں۔ یہ تباہی کا پیغام ہے‘‘ کیونکہ اگر غریب غرباء کو بھی گھر مل گئے تو ان کے دماغ خراب ہو جائیں گے اور اگلی بار تحریک انصاف پھر جیت جائے گی ‘جو ہمارے لیے تباہی کا مقام ہے ‘جبکہ میرا گھر واپس لے کر مجھے پہلے ہی تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا ہے اور اگر اگلی بار نواز شریف اقتدار میں نہیں آتے تو یہ میرے لیے مزید تباہی کا باعث ہوگا ‘جبکہ اُن کے اب کبھی بھی اقتدار میں آنے کے امکانات ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکے ہیں ‘کیونکہ بری طرح وہ بھی تباہی کی طرف تیزی سے گامزن ہیں؛ حالانکہ وہ آرام آرام سے بھی چل سکتے ہیں‘ لیکن حکومت میں ہونے کے دوران بھی غراٹے بھرتے ہوئے ہی چل رہے تھے ‘بلکہ چل کیا‘ باقاعدہ بھاگ رہے تھے‘ جبکہ میں تو صرف اُس وقت بھاگتا ہوں‘ جب کوئی میرے پیچھے بھاگ رہا ہو‘ جبکہ اس سے اچھی خاصی ورزش بھی ہو جاتی ہے‘ آگے اور پیچھے بھاگنے والے دونوں کی۔ آپ اگلے روز ڈیرہ اسماعیل خاں میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
آج کا مطلع
محبت کا تماشا وصل کی تاثیر جیسا ہے
کہ مل بیٹھے نہیں اور ذائقہ انجیر جیسا ہے

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved