نبی اکرم ﷺ کی پہلی شادی عرب کی سب سے عظیم خاتون کے ساتھ ہوئی۔ سیدہ خدیجہؓ کی عمر شادی کے وقت چالیس برس تھی اور وہ دو مرتبہ بیوہ ہوچکی تھیں۔ دونوں شوہروں سے ان کی اولاد بھی تھی‘ پہلے شوہر ابوہالہ بن زرارہ سے ان کے دو بیٹے اور دوسرے شوہر عتیق بن عابد مخزومی سے ایک بیٹی ہند تھی‘ جو صحابیہ بھی ہیں۔ آنحضورؐ کی عمر پچیس سال تھی۔ شادی کے بعد آنحضورؐ کے گھر میں سیدہ خدیجہؓ بہت خوش تھیں۔ آپؐ کے اخلاقِ حسنہ اور پاکیزہ کردار نے ان کے گھر کو دنیا ہی میں جنت نظیر بنا دیا تھا۔ مورخین نے سیدہ خدیجہ سے اولاد کی ترتیب بیان کرنے میں مختلف انداز اختیار کیے ہیں۔ ہمارے نزدیک صحیح ترین روایت کے مطابق ترتیب یوں ہے: آنحضورﷺ کی شادی کے تقریباً ایک سال بعد آپؐ کو اللہ نے پہلے صاحبزادے جناب قاسم کی ولادت سے خوشیاں عطا فرمائیں۔ ان کا نام مشورے کے ساتھ قاسم رکھا گیا۔ انہی کی نسبت سے آنحضورﷺ ابوالقاسم کہلاتے ہیں۔ قاسمؓ کا نام طیّب بھی معروف ہے‘ مگر زیادہ مستند روایات کے مطابق آپ کے دوسرے فرزند عبداللہ بن محمدؐ ہی کو طیّب اور طاہر دونوں القاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ قاسم کے دوسال بعد آپ کی بڑی بیٹی سیدہ زینبؓ بنت محمدؐ پیدا ہوئیں‘ پھر ان کے بعد آپ کے دوسرے بیٹے عبداللہ پیدا ہوئے‘ جو طیب اور طاہر کے نام سے تاریخ میں معروف ہیں۔ ان کے بعد سیدہ رقیہؓ بنت محمدؐ کی ولادت ہوئی۔ رقیہ سے چھوٹی صاحبزادی حضرت ام کلثومؓ تھیں۔ حضرت خدیجہؓ سے آپ کی آخری اولاد سیدہ فاطمۃ الزہراؓ ہیں ‘جو آپ کو سب سے زیادہ محبوب تھیں۔ انہی کو آپ نے خواتین جنت کی سردار (سیدۃ نساء اہل الجنۃ) کا لقب دیا۔ آپؓ شیرخدا علی المرتضیٰؓ سے بیاہی گئیں۔ آپؓ ہی حسنین کریمین کی والدہ ہیں۔ خاتونِ کربلا سیدہ زینب بنت علیؓ اسی جوڑے کی شیردل بیٹی تھیں ‘جو ابن زیاد اور یزید کے درباروں میں بھی ذرا بھر مرعوب نہ ہوئیں۔
سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کا مقام ومرتبہ بہت بلند ہے‘ مگر بعض لوگ آنحضورؐ کی دیگر بیٹیوں کا انکار کردیتے ہیں۔ یہ جہالت اور گستاخی کی بدترین مثال ہے۔ آنحضورؐ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں حکم دیا: ''اے نبیؐ اپنی بیویوں اور بیٹیوں [جمع کاصیغہ بَنَاتک] اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں۔‘‘ (الاحزاب۳۳:۵۹)۔ مولانا مودودیؒ نے ''تفہیم القرآن‘‘ میں اس موضوع پر تفصیلی حاشیہ لکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جو لوگ آنحضورﷺ کی اپنی صلبی بیٹیوں کو ان کی صاحبزادیاں نہیں سمجھتے وہ ''تعصب میں اندھے ہو کر یہ بھی نہیں سوچتے کہ اولادِ رسولؐ کے نسب سے انکار کرکے وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کررہے ہیں اور اس کی کیسی سخت جواب دہی انھیں آخرت میں کرنی ہوگی۔‘‘ (تفہیم القرآن جلدچہارم‘ سورۂ الاحزاب‘ حاشیہ ۱۱۰)
آپ کے صاحبزادے قاسم بچپن میں فوت ہوگئے۔ بعض روایات کے مطابق قاسم اتنی عمر کو پہنچ گئے تھے کہ وہ گھوڑے پر سوار ہوسکتے تھے‘ پھر اچانک ان کی وفات ہوگئی۔ آپ کے دوسرے بیٹے عبداللہ بھی آنحضورﷺ کی بعثت کے چند سال بعد فوت ہوگئے تھے۔ یکے بعد دیگرے دونوں بیٹے داغِ مفارقت دے گئے تو فطری طور پر والدین پر غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے‘ مگر ان کا صبر بے مثال تھا۔ عبداللہ بن محمدؐ کی وفات پر بدبخت کفارِ مکہ نے بڑی خوشیاں منائیں اور آنحضورﷺ کو اَبْتَرْ (دم کٹا) قرار دیا۔ ابن سعد لکھتے ہیں کہ عاص بن وائل سہمی نے کہا: قد انقطع ولدہ فھو ابتر‘ یعنی محمدؐ کی نرینہ اولاد ختم ہوگئی ہے‘ لہٰذا وہ ابتر ہیں۔ کم وبیش ایسے ہی الفاظ آپ کے بدبخت چچا ابولہب نے بھی کہے‘ اسی پر قرآن کی مختصر مگر جامع ترین سورت سورۂ الکوثر نازل ہوئی۔
إِنَّآ أَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَo فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْo إِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الْأَبْتَرo (الکوثر۱۰۸:۱-۳)۔ (اے نبیؐ) ہم نے تمھیں کوثر عطا کردیا۔ پس تم اپنے رب ہی کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔ تمہارا دشمن ہی جڑ کٹا ہے۔ [آج دیکھ لیجیے آپؐ کے دشمنوں کا تذکرہ ہوتا ہے‘ تو ساری کائنات ان پر لعنت بھیجتی ہے اور محمدعربیؐ کا تذکرہ زمینوں میں نہیں آسمانوں کے اندر بھی درود وسلام کی حسین گونج میں سنا جاتا ہے]
آنحضور ﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب کی آزاد کردہ ایک لونڈی تھی‘ جس کا نام سلمیٰ تھا۔ وہ بہت سمجھ دار اور باشعور خاتون تھیں۔ سیدہ خدیجہؓ عموماً اپنے ذاتی کاموں کیلئے اس کی خدمات حاصل کرتی تھیں۔ جب بھی زچگی کا زمانہ ہوتا تو وہ ان کو اپنے ہاں بلا لیا کرتی تھیں۔ وہ بچوں کی پیدایش سے لے کر دودھ پلانے والی خواتین کے تقرر تک زچہ اور بچہ کی دیکھ بھال کرتیں۔ سیدہ خدیجہؓ اپنے بچوں کو دودھ پلانے کے لیے پہلے ہی سے مناسب خواتین کا اہتمام کرلیا کرتی تھیں۔ اسلام میں بیٹے کی پیدایش پر دو بکرے‘ مینڈھے یا دنبے اور بیٹی کی پیدایش پر ایک بکرا‘ مینڈھا یا دنبہ ذبح کرکے عقیقہ کرنے کا حکم ہے۔ یہ شریعت ابراہیمی میں بھی مسنون عمل تھا۔ سیدہ خدیجہؓ دورِ اسلام سے قبل بھی اپنے بچوں کیلئے عقیقے کا اہتمام کیا کرتی تھیں۔ کیا خوب اللہ کی بندی تھیں۔ یہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کے وقت سے عربوں میں رائج تھا‘ مگر اکثر لوگ اسے بھول چکے تھے۔ نبی محترم ﷺ نے اس سنت کو پھر سے زندہ کیا۔ (طبقات ابن سعد‘ ج۱‘ ص۱۳۳-۱۳۴‘ سیرۃ ابن ہشام‘ القسم الاول‘ ص۱۹۰)
آنحضورﷺ اور سیدہ خدیجہؓ کا نکاح ہونے کے بعد اس قدسی جوڑے کے کاروبار میں حسب سابق اللہ نے بہت برکت دی۔ وقت گزرتا گیا اور بہت سے واقعات رونما ہوتے چلے گئے۔ یہ واقعات سیرت کی کتابوں میں تفصیلاً نقل کیے گئے ہیں۔ یہاں ہم عرض کرنا چاہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کی عمر مبارک جوں جوں بڑھ رہی تھی‘ آپؐ کا تعلق اللہ رب العزت کے ساتھ اسی نسبت سے گہرے سے گہرا ہوتا چلا جارہا تھا۔ آپؐ دنیوی ہنگاموں سے ذرا ہٹ کر غوروفکر میں کافی وقت گزارنے لگے تھے۔ اس کیفیت کو عربی زبان اور قرآنی اصطلاح میں تبّتُل کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ نبوت کے بعد بھی قرآن پاک میں آنحضورﷺ کو حکم دیا گیا: وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّلْ إِلَیْہِ تَبْتِیْلًا۔ (المزمل۷۳:۸) اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کرو اور سب سے کٹ کر اسی کے ہورہو۔ آنحضورﷺ کے اس غوروفکر کے زمانے میں کاروبار کی طرف آپ کی توجہ کافی حد تک کم ہوگئی تھی‘ تاہم سیدہ خدیجہؓ کے تجارتی کاروان معمول کے مطابق شام اور دیگر علاقوں کی طرف آتے جاتے تھے۔ سیدہ خدیجہؓ نے کبھی بھی اپنا پیسہ خرچ کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا تھا۔ نبوت سے قبل آنحضورﷺ کے تبتل اور گوشہ نشینی کا دور ایک لحاظ سے اس عظیم ذمہ داری کو اٹھانے کیلئے ابتدائی تیاری‘ تربیت اور ریاضت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دوران آپؐ دوست احباب‘ خاندان اور رشتہ داروں‘ اپنی اہلیہ اور بچوں سب کے حقوق پوری طرح ادا کرتے تھے۔ ایسا نہیں کہ آپؐ نے ان ذمہ داریوں کو نظرانداز کردیا ہو۔ آپؐ برابر اپنے گھر میں بچوں کی تربیت اور انہیں شفقت پدری سے مالا مال کرنے کا فریضہ ادا کرتے رہتے تھے۔ کاروبار اور تجارت پر بھی توجہ رکھتے تھے؛ اگرچہ خود عملاً وقت کم دے پاتے تھے ‘تاہم پوری ہدایات اور نگرانی کا اہتمام فرماتے تھے۔ آپؐ نے نبوت سے قبل بھی عملاً یہ پیغام دیا کہ متوازن زندگی کا حسن یہی ہے کہ انسان نہ ترک دنیا کرے اور نہ غرقِ دنیا ہوجائے۔
آپؐ کی آخری اولاد حضرت ماریہ قبطیہؓ کے بطن سے جنم لینے والے سیدنا ابراہیم بن محمدؐتھے۔ ان کا نام آپ نے اپنے جدامجد حضرت ابراہیمؑ کے نام پر رکھا۔ محبوب بیٹے نے کم سنی میں اپنے عظیم باپ کی گود میں آخری سانس لی تو نبیٔ رحمتؐ کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔ عجیب رقت انگیز منظر ہے۔ صحابہ کو شدید غم کے ساتھ اس بات پر تعجب بھی ہو رہا ہے کہ آنحضورؐ رو رہے ہیں‘ مگر یہ رونا کوئی کمزوری نہیں‘بشری تقاضا اور فطری رحمت و شفقت کا مظہر ہے۔ معصوم بچے کی عمر ڈیڑھ سال ہے۔ یہ رسولِ رحمت کی آخری اولاد اور بیٹوں میں تیسرا فرزندِ دلبند ہے۔ بڑھاپے میں اللہ نے عطا فرمایا تھا۔ قلیل عرصے تک بیتِ نبوی میں خوشیاں بکھیرتا رہا اور آج جنت کو سدھار گیا ہے۔ آپؐ اس دل فگار سانحہ پر اپنے لختِ جگر سے یوں مخاطب ہیں: ''دل زخمی ہوگیا ہے‘ آنکھیں اشک بار ہیں۔ اے ابراہیم غم کی ان گھڑیوں میں تیری جدائی نے تڑپا دیا ہے‘ مگر ہم زبان سے وہی کچھ کہیں گے‘ جو ہمارے رب کو پسند ہے انّا للہ وانّا الیہ راجعون۔‘‘ اس واقعہ میں ہر امتی کے لیے کتنا بڑا درس ہے! اللہ نے بڑھاپے میں فرزند عطا کیا جو ماں باپ کی آنکھوں کا تارا اور دل کا قرار تھا‘ مگر اللہ نے اپنے محبوب نبیؐ سے ان کے دل کا قرار اور آنکھوں کی ٹھنڈک واپس لے لی۔ بندہ اپنے مالک کی مرضی پر راضی ہے۔ بندے کا یہی عمل اللہ کو محبوب ہے۔