مرزا تنقید بیگ آج کل بہت خوش ہیں۔ جب وہ بہت خوش دکھائی دیتے ہیں تب ہم تشویش میں مبتلا ہو جاتے ہیں‘ کیونکہ ہم سمجھ جاتے ہیں کہ دال میں کچھ کالا ہے‘ کہیں نہ کہیں کچھ گڑبڑ ضرور ہے۔ مرزا انوکھے مزاج کے ساتھ دنیا میں آئے ہیں۔ جب سب ہنس رہے ہوتے ہیں تب انہیں رونے کی سُوجھتی ہے اور جب ہر طرف رونا دھونا چل رہا ہو تب اُن کی باچھیں کِھل اٹھتی ہیں۔ اُن کی دنیا الگ ہے اور یہ دنیا اُنہوں نے خود بنائی ہے۔ سیدھی سی بات ہے‘ اس طرح کی دنیا وہ خود ہی بناسکتے ہیں ... کوئی اور اس کا ''کریڈٹ‘‘ لینا پسند نہیں کرے گا!
بات یہ ہے کہ کچھ مدت سے مرزا پریشان تھے کہ میڈیا کے پلیٹ فارم پر سب کچھ خلط ملط‘ گڈمڈ ہوگیا ہے۔ کل تک انفارمیشن الگ چیز ہوا کرتی تھی اور انٹر ٹینمنٹ اُس سے بہت ہٹ کر کوئی چیز تھی‘ پھر یہ ہوا کہ دونوں کو ملاکر ''انفوٹینمنٹ‘‘ کی راہ ہموار کی گئی۔ خیر ہو عمران خان کی کہ وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد انہوں نے خالص تفریح کو ''معلومات‘‘ کے دائرے سے نکال کر الگ کھڑا کردیا ہے۔ ہم ایک زمانے سے اُن کی اردو سنتے آئے ہیں۔ جب وہ کپتان تھے تب اُن کی اردو کے جوہر ہم پر کم ہی کُھلے تھے ‘کیونکہ معاملہ کھلاڑیوں تک محدود رہتا تھا‘ بھینسوں اور بکریوں تک نہیں پہنچتا تھا! اب وہ وزیر اعظم کی حیثیت سے جو اردو بول رہے ہیں اُسے گلابی نہ سہی‘ سُرمئی اور چمپئی تو کہا ہی جاسکتا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک اُن کی اُردو سبز ہے کیونکہ وہ گفتگو میں کھیتوں کی ہریالی اور مویشیوں کا ذکر بھی کرتے ہیں جس کے بعد سامعین خود کو چارے کے ڈھیر پر کھڑا ہوا محسوس کرنے لگتے ہیں!
مرزا کہتے ہیں کہ کہ عمران خان نے قوم کو اور کچھ دیا ہو یا نہ دیا ہو‘ اپنی حکومت کے پہلے سو دنوں کے تجزیے کے حوالے سے ایسے لطیف نکات بخشے ہیں کہ لوگ سوچ سوچ کر حیران ہیں کہ کس بات پر ہنسیں اور کس بات پر زیادہ ہنسیں۔ فی زمانہ یہ بھی بڑی بات ہے کہ کوئی وزیر اعظم حالات سے پریشان‘ سکتہ زدہ لوگوں کے ہونٹوں کو تھوڑی بہت مسکراہٹ ہی بخش دے۔
ہم مرزا کی روش پر حیران ہیں۔ وہ تو عمران خان کے کٹّر اور خاصے ڈائی ہارڈ قسم کے مخالف تھے‘ پھر ایسا کیا ہوا کہ ساری مخالفت ایک طرف ہٹاکر اب وہ عمران خان کے گُن گارہے ہیں؟ عمومی سطح پر سوچیے تو کیا ہنسانا واقعی ایسا وصف ہے کہ کسی کے دیگر تمام اوصافِ حمیدہ اور ''اوصافِ خبیثہ‘‘ کا موازنہ ترک کردیا جائے؟ ہمارے خیال میں کم از کم مرزا تو اِسی خیال کے حامل ہیں کہ ہنسانے کے وصف پر دیگر تمام اوصاف کو ترجیح دی جائے اور صرف اُسی کا احترام کیا جائے ‘جو تھکے ہارے‘ سُوکھے ہونٹوں کو مسکراہٹ بخشے۔ چلئے‘ کم از کم ایک معاملے میں تو مرزا کی سوچ کا سفینہ کنارے لگا۔
گزشتہ دنوں کنونشن سینٹر میں تقریب سے خطاب کے دوران وزیر اعظم نے جو لب و لہجہ اختیار کیا ‘اُس نے روتے ہوؤں کو ہنسادیا اور جو ہنس رہے تھے ‘اُنہیں مزید ہنسا ہنساکر بے حال کردیا۔ کبھی اُنہوں نے مسکراکر کچھ کہا اور کبھی کچھ کہہ کے مسکرائے۔ بقول اصغرؔ گونڈوی ؎
یوں مسکرائے جان سی کلیوں میں پڑ گئی
یوں لب کُشا ہوئے کہ گلستاں بنا دیا!
خود مرزا کا یہ حال تھا کہ وزیر اعظم کی باتوں پر ہنستے ہنستے یوں بے حال ہوئے کہ بھول گئے کہ اگر کوئی وزیر یا مشیر دیکھ لے تو معاملہ ''توہین ِ وزارت‘‘ تک بھی جاسکتا ہے! کل ملاقات ہوئی تو مرزا نے چُھوٹتے ہی کہا ''اگر یہی حال رہا تو تحریکِ انصاف کے پانچ سالہ اقتدار میں مہنگائی اس حد تک بڑھ جائے گی کہ ہم 'اوور ایٹنگ‘ کے عذاب سے چُھوٹ جائیں گے ‘مگر خطرناک حد تک 'اوور لافنگ‘ کے شکار ضرور رہیں گے! خان صاحب نے تو ابھی سے یہ حال کردیا ہے کہ ہم اِدھر اُدھر کے چھوٹے موٹے غم بھول کر منتظر رہتے ہیں کہ وہ کب لب کُشائی فرمائیں اور گلستاں بنائیں!‘‘
کنونشن سینٹر میں وزیر اعظم نے قومی معیشت کو بحال کرنے سے متعلق اقدامات بیانات کرنے کے بعد جب خاصے اَن کنوینشنل‘ یعنی غیر روایتی انداز کی چند تجاویز پیش کیں ‘تو پورے ہال میں پہلے مسکراہٹ اور پھر قہقہوں کی فصل لہرانے لگی!
وزیر اعظم کی ایک بڑی اور واضح مہربانی یہ ہے کہ دیکھے بغیر یعنی فی البدیہ خطاب فرماتے ہیں۔ ہمارے ہاں حکمرانوں کا un-scripted خطاب عام طور پر شدید‘ بلکہ غضب ناک حد تک پُرمزاح ہوتا ہے۔ ایسے میں شُترِ بے مہار کی صورت کوئی بھی بات کہیں بھی جا نکلتی ہے۔ کوئی لاکھ کوشش کرے‘ ہنسی ضبط کر نہیں سکتا۔ بے نظیر بھٹو جب اپنی گلابی اردو میں ''منہ زبانی‘‘ تقریر کرتی تھیں تو قیامت ڈھا دیتی تھیں۔ بہت حد تک بلاول بھٹو کا بھی اب تک یہی حال ہے۔ بے نظیر بھٹو بھی آکسفرڈ سے فارغ التحصیل تھیں اور عمران خان بھی وہیں کے پڑھے ہوئے ہیں‘ اس لیے دونوں کی اردو ''انگریزیائی‘‘ ہوئی ہے۔
فی البدیہ تقریر کے معاملے میں عمران خان بھولے بادشاہ ہیں۔ انہوں نے جب کیٹل فارمنگ کا ذکر کیا تو چوزوں‘ مرغیوں اور بکریوں سے ہوتے ہوئے ''بھینس کی بچی‘‘ تک پہنچ گئے! قوم کا یہ حال ہے کہ سادگی میں کسی کے منہ سے نکلے ہوئے کسی بھی لفظ کو پکڑتی ہے اور کھیلنا شروع کردیتی ہے۔ عزت مآب وزیر اعظم کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ جب لوگوں نے ''بھینس کی بچی‘‘ کی آڑ لے کر رگڑا دینا شروع کیا تو وزیر اعظم کو کہنا پڑا ''مائیکرو سوفٹ کے بانی سربراہ بل گیٹس نے بھی پولٹری فارمنگ کو غربت سے نکلنے کا مؤثر طریقہ قرار دیتے ہوئے افریقا میں ایک لاکھ مرغیاں دینے کا اعلان کیا تھا۔ تب کسی نے کچھ نہیں کہا۔ ہم ایک بات کہیں تو لوگ ہنستے ہیں ... اور اگر وہی بات گورے کہیں تو شاندار کہلاتی ہے۔‘‘
بات تو ٹھیک ہے‘ اگر وزیر اعظم نے پولٹری فارمنگ کے ذیل میں کچھ کہا ہے تو اُسے ''پولٹری لافنگ‘‘ کے کھاتے میں ڈال کر وزیر اعظم کو لافنگ سٹاک بنانے سے گریز کیا جانا چاہیے۔ خیر‘ ہم تو ایسے معاملات کی باریکی اور نزاکت کو خوب سمجھتے ہیں‘ مگر مرزا جیسے پاکستانیوں کو کون سمجھائے جو اعلیٰ شخصیات کی بیان کردہ کسی بھی بات پر اتنا اور ایسا ہنستے ہیں کہ ہنہنانے کا گماں ہوتا ہے! مرزا کی دیدہ دِلیری دیکھیے کہ حکومت کی اب تک کی کارکردگی کا پوسٹ مارٹم کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ کہتے ہیں ''حکومت کی اب تک کی کارکردگی پر غالبؔ کی زبان میں 'ہرچند کہیں کہ ہے‘ نہیں ہے‘ کا گماں ہوتا ہے‘ مگر خیر‘ اس کی کچھ خاص پروا بھی نہیں۔ ہم تو خوش ہیں کہ جب تک حکومت باضابطہ طور پر کچھ نہیں کر رہی تب تک ہنسا تو رہی ہے‘ کسی کو اداس تو نہیں رہنے دے رہی!‘‘
ہم نے سہمے ہوئے انداز سے دست بستہ عرض کیا کہ معاملات کو ہنسی ٹھٹھول کی منزل میں مت رکھیے۔ یہ حکومت کا معاملہ ہے‘ تھوڑی سی سنجیدگی بھی اختیار کیجیے۔ یہ سننا تھا کہ مرزا بِدکے‘ بھڑکے اور ہتّھے سے اکھڑ گئے۔ مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق ہمیں ڈانٹ کر چُپ رہنے کی تاکید کرتے ہوئے مرزا نے کہا ''سنجیدہ بھی ہوں تو ہم! جنہیں سنجیدہ ہونا ہے ‘وہ تو ہنسانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ہمیں کیا سمجھاتے ہو؟ اُن سے جاکر کہو کہ افکار و اعمال کی ٹرین کو کبھی کبھی سنجیدگی کے سٹیشن پر بھی روک لیا کریں!‘‘
مرزا کی بات سن کر ہم چپ ہو رہے ‘کیونکہ معترض ہونے کی صورت میں اُن کے ہاتھوں اچھی خاصی ''پولٹری لافنگ‘‘ کا احتمال تھا!