انسان دنیاوی معاملات میں الجھا ہوتاہے ۔ بچوں کا سکول‘ فکرِ روزگار ‘ماں باپ کے احکامات ۔ نفس کی فرمائشیں ‘ شیطان کی ورغلاہٹیںاور ایسے میں عقل کی روک ٹوک۔ وقت ایسے گزرتا ہے کہ پتا ہی نہیں چلتا۔انسان پلٹ کر دیکھتاہے تو ایسا لگتاہے کہ زندگی کے یہ تین عشرے پلک جھپکنے میںتمام ہوئے ۔ اسی دوران کبھی کوئی ایسی آیت انسان کی نظر سے گزرتی ہے کہ بندہ وہیں مبہوت رہ جاتا ہے ۔
قرآن کہتاہے ''رنگ اللہ کاہے‘ اور اللہ سے بہتر رنگ کس کا؟ ۔۔۔‘‘
انسان جب سوچتاہے کہ رنگ کیا ہے ۔ سفید ‘سیاہ ‘ ہرا‘ نیلا‘ سرخ ‘سرمئی اور بھورا ۔ دنیا کس قدر سادہ اور اکتادینے والی جگہ ہوتی‘ اگر رنگ نہ ہوتے ۔ ہم لوگوں نے بچپن میں بلیک اینڈ وائٹ ٹیلی ویژن اور کیمرے دیکھ رکھے ہیں ۔ ہمیں بخوبی انداز ہ ہے کہ رنگوں سے کیا فرق پڑتا ہے ۔
جب اللہ نے رنگ تخلیق کیے تو کیا تخلیق کر ڈالا ۔ انسان سوچتا چلا جاتاہے‘ حیرت میں ڈوبتا جاتا ہے ۔خدانخواستہ اگر یہ رنگ نہ ہوتے ‘ فرض کریں ‘ ہر شے سیاہ رنگ میں پیدا کی جاتی تو؟ خدا کی شان دیکھیے ‘ آسمان اور پانی کا رنگ نیلا کر دیا‘ پھر کہیں کہیں سے اسے بادلوں کی سفیدی کا کنٹراسٹ دیا ۔کہیں کہیں پانی کا رنگ بھی شفاف سفید ہوتاہے ۔ جب دور خلا میں جا کر کرہ ٔ ارض کو آنکھ بھر کے دیکھیں تو یہ نیلی اورکہیں کہیں سے سفید نظر آتی ہے ۔
پھر ایک بلّی نظر آتی ہے ‘مکمل طور پر سفید رنگ ‘ او پر سے نیلی آنکھیں ۔ نرم و ملائم بال‘ خوبصورت آواز میں بولتی ہوئی ۔ بندہ اس کی خوبصورتی میں گم ہوتا ہے کہ اوپر سے کالا کوّا ''کائیں کائیں ‘‘ کرتا گزر جاتاہے ۔
خدا نے پھر انسان کو بنایا ۔ بھورے /سفید/سیاہ رنگ کی جلد‘ پھر اس کے دانت سفید بنائے ۔ سامنے والے دانتوں میں سے دوتوڑ کر ذرا ان سے کہیں کہ مسکرا کر دکھائو۔
پھر جب مردوں اور عورتوں کو بنا چکا تو ان کے سروں پہ کالے بالوں سے خوبصورتی میں اضافہ کیا۔ ذرا یہ بال اتاریں تو دیکھیں کہ نیچے سے کیا چیز برآمد ہوتی ہے ۔ بالوں اور جلد کی صورت میں تو خدا نے کام ہی تمام کر ڈالا ۔ اس پہ انتہا دیکھیے ‘ مردوں کے چہروں پہ بھی بال اگا دیے اور عورتوں کے چہرے صاف شفاف ‘ پھر مردوں کی آواز تو کرخت بنا دی اور عورتوں کی نرم ۔ سبحان اللہ!
کوئی نسیم طاہر صاحب ہیں ‘ جنہوں نے آواز کے بارے میں کچھ ایسی چیزیں مجھے ای میل کی ہیں ‘ جنہوں نے خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا۔ کبھی وہ بھی آپ سے شیئر کروں گا۔
رنگوں کی بات ہو رہی تھی ۔ انسان سورج کے رنگ کی طرف دیکھنے لگتاہے ۔ شروع سے ہم اسے زرد دیکھتے آرہے ہیں‘ لیکن آپ ذرا اس کی شعاع کو سائنسی آلات میں گزار کر دیکھیں ۔ وہ سات رنگوں میں تقسیم ہو جائے گی ۔ سائنسدان بتاتے ہیں کہ سورج کا رنگ تو اصل میں سفید ہے ۔ یہ تو زمین کی فضا اس کی روشنی کے ساتھ تعامل کر کے اسے زرد کر دیتی ہے ۔ یہی سورج جب غروب ہونے پہ آتا ہے تو سرخ دکھائی دیتاہے ۔
چلیے‘ سب کچھ چھوڑیے ‘ ذرا پر پھیلاکر ناچتے ہوئے مور کے رنگ دیکھیں ۔آپ کو سمجھ آجائے گی کہ رنگ ہوتے کیا ہیں ۔ پرندوں میں یہ بات عام ہے کہ نر مادہ کو متاثر کرنے کے لیے رنگدار پر پھیلا کر رقص کرتاہے ۔ مادہ اس تلاش میں ہوتی ہے کہ اسے سب سے طاقتور نر میسر آئے‘ جو بچوں کی پرورش اور ان کا دفاع کرنے میں اس کی مدد کر سکے ۔
رنگ بدلتے ہوئے گرگٹ کو کبھی دیکھیں ۔ آپ رنگوں پہ ایمان لے آئیں گے ۔ جب انسان نیانیا اس سیارے پر اتارا گیا تھا تو وہ ہر عجیب چیز کو دیکھ کر ایمان لے آتا تھا؛ حالانکہ ایمان لانا بنتا تو اس پہ ہے‘ جس نے ان عجیب چیزوں کو تخلیق کیا‘ ورنہ گرگٹ بیچارے کو خود کسی بات کا پتا نہیں کہ وہ رنگ کیسے بدل رہا ہے ؛ اگر وہ کسی قابل ہوتا تو اپنے لیے کوئی ایسی سرزمین حاصل کرتا ‘ جہاں انسانوں اور گرگٹ کا شکار کرنے والے جانداروں کا داخلہ ممنوع ہوتا ۔
رنگوں کی مدد سے خشکی اور پانی میں رہنے والے جاندار اپنی حفاظت کرتے ہیں اور مادائوں کو لبھاتے ہیں ۔ شتر مرغ اپنی گرد ن کا رنگ گہرا سرخ کر کے رقص کرتا ہے ۔ بندروں میں بھی ایسا ہوتاہے کہ جس کے اعضا سب سے زیادہ رنگدار ہوتے ہیں ‘ وہ الفا میل کہلاتا ہے ۔ گروپ میں چلتی اسی کی ہے۔ باقیوں کو اس کے سامنے ہتھیار ڈالنا پڑتے ہیں ۔ اپنی نسل بڑھانے کا حق بھی صرف اسے ہی حاصل ہوتاہے ۔
آپ اللہ کی شان دیکھیں کہ انسان اعلیٰ سے اعلیٰ کیمرے کا جو رزلٹ چیک کرتا ہے ‘ وہ اپنی اس آنکھ سے کرتاہے ‘ جو اسے مفت میں ملی ہوتی ہے۔ یہ آسمان پہ چاند اور سورج تک دیکھ سکتی ہے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ شیر اور بلی جیسے جانداروں کی آنکھیں ا نسان جیسی اعلیٰ نہیں ہوتیں ۔رنگوں کا جیسا رزلٹ انسان دیکھتاہے ‘ وہ نہیں دیکھتے ۔ انہیں اس کے بدلے سونگھنے کی اعلیٰ حس ملی ہے ۔ وہ دور سے سونگھ لیتے ہیں اور سمجھ جاتے ہیں کہ کون آرہا ہے ۔
مزید حیرانی کی بات یہ ہے کہ اگر انسان یا کسی بھی جاندار کی آنکھیں اعلیٰ کوالٹی کی نہ ہوں تو اردگرد بکھرے انتہائی خوصورت رنگ بھی اس کے کسی کام کے نہیں ۔ ساون کے اندھے کو ہرا ہی نظر آتا ہے ‘ مکڑے کی طرح۔ اللہ نے انسان کی آنکھوں اور اس کے دماغ میں وہ سسٹم پیدا کیے ‘ جس سے وہ یہ سب خوبصورتیاں دیکھ سکتا اور ان سے فائدے اٹھا سکتا تھا ۔ خدا نے انسان کے دماغ میں رنگوں کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کی ۔ خوبصورتی اور بد صورتی کے معیار پیدا کیے ۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ گرگٹ‘ تتلی اور مختلف جانداروں پہ بنے ہوئے نقش و نگار دیکھیے ۔ جن میں مختلف رنگوں کے کمبی نیشن سے خوبصورتی پیدا کی گئی ہے ۔ یہ سب کیا ہے ؟ یہ خدا کی نشانیاں ہیں ‘ جو ہر طرف بکھری ہوئی ہیں ‘ اگر کوئی دیکھنے والی آنکھ ہو تو ورنہ وہی ساون کا اندھا!
سیاہ رنگ بہت خوبصورت ہے ۔سفید رنگ میں اس قدر خوبصورتی ہے کہ جو بیان سے باہر ہے ۔ ایک تقریب میں ‘ جہاں سب نے سیاہ لباس پہنا ہو‘ وہاں سفید لباس والا ایک شخص سب میں نمایاں ہو جاتا ہے ۔ آپ آنکھوں کے اندر دیکھیں اللہ نے کیسی خوبصورتی پیدا کی۔ سفید رنگ کی زمین میں سیاہ ‘ بھورے اور نیلے رنگ کی پتلی ۔ آپ اس آنکھ کو مکمل طور پر سفید یا مکمل طور پر سیاہ کر کے دیکھیے ‘ایسی آنکھ آپ کو بھیانک نظر آئے گی ۔ یہ بات آسانی سے کہی جا سکتی ہے کہ خدا اگر رنگ تخلیق نہ کرتا ‘ اگر انسانوں کی جلد‘ دانت‘ بال اور آنکھیں ایک ہی رنگ کی ہوتیں تو یہ دنیا ایک اکتا دینے والی جگہ ہوتی ۔ انسان کے دماغ کے اندر رنگوں کو سمجھنے کی صلاحیت سب سے زیادہ اہم ہے ۔ سائنسدان تو ستاروں /سورجوں کے رنگوں سے ہی ساری کہانی سمجھ جاتے ہیں کہ اس میں ہائیڈروجن کتنی ہے اور ہیلییم کتنی۔ اس کی composition کیا ہے ‘ اس کا درجہ ٔ حرارت کیا ہے ‘ عمر کیاہے۔
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ یہ رنگ کس کے ہیں ؟ انسان کے ؟ انسان نے انہیں تخلیق کیا ہے یا خدا نے ؟ انسان کی آنکھوں اور دماغ کو رنگ سمجھنے کے قابل کس نے بنایا؟
اسی تو وہ فرماتا ہے کہ رنگ تو اللہ کا ہے اور اللہ سے بہتر رنگ کس کا ؟ سچ تو یہ ہے کہ رنگ ہیں ہی اللہ کے!سوال یہ بھی ہے کہ اللہ کا اپنا رنگ کون سا ہے ؟