وزیر اعظم عمران خان نے بالآخر کابینہ میں رد و بدل کا اشارہ دے ہی دیا۔ کابینہ میں تبدیلی کا یہ اشارہ اس تناظر میں متوقع اور عین منطقی ہے کہ سو روزہ کارکردگی کے حوالے سے وزیر اعظم نے اپنی حالیہ تقریر میں کسی وزیر اور مشیر کی کارکردگی کو قابل تعریف قرار نہیں دیا۔ انھوں نے اپنی سیاسی اور انتظامی ٹیم کے کسی بھی رکن کی علمی اور فکری قابلیت کا اعتراف تو درکنار‘ تذکرہ تک مناسب نہ سمجھا۔ ان سو دنوں کے دوران وفاقی کابینہ کے چودہ اجلاس ہوئے۔ یقینا ان اجلاسوں میں کوئی ''بزم ادب‘‘ کی محفل تو سجائی نہیں گئی ہو گی۔ امور مملکت ا ور اہداف کے حصول سمیت دیگر معاملات بھی زیر بحث آئے ہوں گے۔ ان میں سے کئی ایک پر اتفاق رائے بھی ہوا ہو گا۔ کچھ فیصلے بھی کیے گئے ہوں گے۔ کیا کسی وزیر، مشیر اور بیوروکریٹ کی اتنی بھی ''کنٹری بیوشن‘‘ نہیں رہی کہ اس کا ذکر کیا جا سکتا؟ کہاں گئی وہ قابلیت جس کا شہرہ تھا؟ کہاں رہ گئی وہ مہارت جس کا ڈنکا بجایا جا رہا تھا؟ سب دعوے اور وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے‘ کیونکہ کپتان نے جنہیں ''چیمپئن‘‘ سمجھ کر میدان میں اتارا تھا‘ وہ انڈر 19 بھی نہ نکلے۔ اور کابینہ میں ردوبدل کا اشارہ بھی اس امر کا برملا اعتراف ہے کہ کپتان کی ٹیم ان کی توقعات اور معیار پر پورا نہیں اتر سکی۔ لیکن بعض وزرا اپنی ناکامی تسلیم کرنے سے تاحال انکاری ہیں۔ وہ اس کا عذر یوں بیان کرتے ہیں کہ ان کی وزارت میں غیر ضروری مداخلت ان کی کارکردگی اور اہداف پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ یعنی وزارت ایک... اور چلانے والے کئی ایک۔
یاددہانی اور ریکارڈ کی درستی کے لیے عرض ہے کہ میں نے اپنے حالیہ کالم بعنوان ''سو دن کی آزمائشی پرواز‘‘ میں اسی صورتحال کی نشاندہی کی تھی اور میرے بیان کردہ تحفظات آج حکومت کے سامنے حقیقت بن کر آ چکے ہیں۔ مشیروں اور معاونین کا کام وزیر اعظم کو مشورہ اور فیڈ بیک دینا ہوتا ہے نہ کہ متعلقہ وزارت میں مداخلت، گروپ بندی اور سسٹم کو ''بائی پاس‘‘ کرنا۔ وزیر اعظم عمران خان اقتدار میں آنے سے قبل اقربا پروری اور سرکاری عہدوں کی بندر بانٹ پر سخت تنقید کرتے تھے‘ لیکن آج بھی صورتحال اور منظرنامہ مختلف نہیں ہے۔ اس حوالے سے دوستیوں اور تعلق کی بنیاد پر بنائے گئے مشیروں اور معاونین کی وجہ سے عمران خان خود کڑے سوالات کی زد میں ہیں۔ انچارج وزیر کی موجودگی میں مشیروں اور معاونین کا وزارت کے معاملات میں مداخلت کنفیوژن اور گروپ بندی کا باعث ہے۔ اور بات کنفیوژن اور گروپ بندی سے بڑھ کر غالباً محاذ آرائی تک جا پہنچی ہے۔ مشیروں کی بے تکی مداخلت سے ''چین آف کمانڈ‘‘ کے ساتھ ساتھ حکومتی کارکردگی بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں شرارتی عناصر اپنا کام دکھا کر حکومت کی سبکی اور شرمندگی کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔
حال ہی میں ایس پی طاہر داوڑ کی اندوہناک موت پر ایک حکومتی مشیر کے غیر ذمہ دارانہ اور حقائق کے برعکس بیان سے ہونے والی شرمندگی پر بھی حکومت نے کوئی نوٹس نہیں لیا‘ نہ ہی کسی کو یہ پوچھنے کی زحمت ہوئی کہ یہ بیان ''کس طوطے سے فال نکلوا کر دیا‘‘۔ بلا شبہ غلطی کی اصلاح سے ہی مزید غلطیوں سے بچا جا سکتا ہے۔
اس تناظر میں بحیثیت مجموعی پوری کابینہ اور باقی ٹیم کی کارکردگی بھی میری نظر میں صفر ہی نکلی۔ وفاقی کابینہ سمیت مملکت خداداد کی ''خدمت‘‘ پر مامور گورنرز، وزرا اور مشیروں کی اتنی بڑی فوج میں سے بھی کوئی ایسا مرد مجاہد نہ دریافت ہو سکا‘ جس کی عملی‘ علمی‘ فکری خدمات کا اعتراف کیا جا سکے یا جسے کوئی کریڈٹ دیا جا سکے۔ خیر‘ کام بھی تو ایسا کوئی نہیں ہوا کہ جس کا ڈھنڈورا پیٹا جائے۔ گا گے گی‘ اور اعداد و شمار کے گورکھ دھندے کے سوا ان سو دنوں میں کیا سامنے آیا؟
وزیر اعظم کی حالیہ تقریر کے بعد پارٹی اور حکومتی عہدیدار اپنی نجی محفلوں میں اب کھل کر اظہار کرنے لگے ہیں کہ انہیں فی البدیہہ تقریر سے گریز کرنا چاہیے۔ پہلے سے طے شدہ تقریر کرنی چاہئے اور تقریر کے پوائنٹس اور سکرپٹ سے باہر نہیں جانا چاہیے۔ ان کے خیال میں جب وہ طے شدہ تقریری سکرپٹ سے باہر نکل کر بولتے ہیں تو کوئی ایسی بات ضرور ہو جاتی ہے‘ جس کی وضاحت اور دفاع دشوار اور بعض اوقات نہ ممکن ہو جاتا ہے۔
بعض حکومتی عہدے دار یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ اگر سب کچھ کسی ایک فرد کی مہربانی کا نتیجہ ہے تو پھر سو دنوں سے وہ کیا کر رہے ہیں؟ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس تاثر کو مزید تقویت ملتی نظر آ رہی ہے کہ آیا وطن عزیز کو زائچوں، قیافوں اور استخاروں کی مدد سے چلایا جا رہا ہے اور فیصلوں سے قبل اہلیت، علمیت، مہارت اور قانونی تقاضوں کو ثانوی سے بھی کم اہمیت دی جاتی ہے۔
عین اس وقت جب میں یہ کالم تحریر کر رہا ہوں مفاہمت کے بادشاہ آصف علی زرداری صادق آباد میں عوام سے مخاطب ہیں اور پانی کے حوالے سے شکایت پر حاضرین جلسہ کو یہ نوید سنا رہے ہیں کہ عنقریب صاف پانی کی فراہمی کے منصوبے پر کام شروع کر دیا جائے گا۔ اس موقع پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ پانی کی مصنوعی قلت پیدا کی جا رہی ہے۔ جلسہ گاہ میں ان خیالات کے اظہار سے قبل انہوں نے اپنے اعزاز میں دیے گئے ظہرانے میں ہرن، تیتر، بٹیر سمیت دیگر من پسند پکوانوں، کھیر اور گاجر سے لطف اٹھایا۔ بعد ازاں عوام کو یہ تسلی دی کہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ موقع پر موجود ہیں‘ جو عوام کی ''مرادیں‘‘ جلد پوری کریں گے۔
زرداری صاحب کی طرف سے عوام کو پانی کی فراہمی کے حوالے سے اعلان پر نہ جانے کیوں یکایک میرا خیال تھر کے اس مسیحا ڈاکٹر آصف جاہ کی طرف چلا گیا‘ جس نے تھر کے لق و دق صحرا میں ہری گھاس اگانے سے لے کر گندم اور دیگر اجناس کی پیداوار تک کامیاب تجربہ کیا اور چھ سو ساٹھ کنویں تعمیر کر کے تھر کے بے کس اور لاچار عوام کی زندگیوں کو سیراب کیا۔ جبکہ حکومت سندھ کی طرف سے لگائے گئے صاف پانی کے پلانٹ ستر فیصد ناکارہ ہو چکے ہیں۔ ایسے میں آصف جاہ کا تھر کے لق و دق صحرا میں ہریالی، پانی کی فراہمی، علاج معالجہ اور سکولوں کا قیام یقینا ایک ناقابل یقین اور گرانقدر کارنامہ ہے۔ ''تھر گرین‘‘ کا سلوگن بظاہر آصف جاہ کے پاگل پن کی نشانی ہے۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ سیلاب کی تباہی ہو یا زلزلے کی قیامت تھر کی بنجر سرزمین پر شب و روز ہونے والی ہلاکتیں ہو، یا چترال، بلوچستان کے پسماندہ علاقوں میں صاف پانی کے نلکوں کی فراہمی‘ معاملہ بنگلہ دیش کے پناہ گزینوں کا ہو یا ترکی و شام کا‘ یا پھر آواران جیسے پُرخطر اور دشوار گزار علاقہ میں بحالی کا کام ہو‘ آصف جاہ اپنی سماجی اور سرکاری حیثیت سے بے نیاز ہو کر جا پہنچتے ہیں۔ گھروں اور مساجد کی تعمیر سے لے کر، 35 فنکشنل کلینکس اور کمیونٹی سنٹر سے لے کر آئی ٹی اور دستکاری سکولوں، اور تمام سہولیات سے مزین بڑے ہسپتال کے قیام تک آصف جاہ کا کوئی ثانی نہیں۔
پانچ سال اس ملک کے اقتدار اور وسائل پر حکومت کرنے والے آصف زرداری آج بھی سندھ کے عوام کو دعووں اور وعدوں سے بہلا رہے ہیں۔ تئیس کتابوں کے مصنف اور انسانیت کے بے مثال اور قابل تقلید خدمات کے اعتراف میں تھر کے اس مسیحا کو حکومت پاکستان نے ''ستارۂ امتیاز‘‘ سے بھی نوازا ہے۔ اعلیٰ سرکاری عہدہ، مراعات اور اپنی سماجی اور سرکاری حیثیت سے بے نیاز ڈاکٹر آصف جاہ اگر تھر کے صحرا کو سرسبز اور سیراب کر کے صبح شام مرنے والے بے کس عوام کی ہلاکتوں کو روکنے کے لیے مسیحا بن کر جا سکتا ہے تو بے پناہ وسائل کی حامل حکومتی مشینری یہ کام کیوں نہیں کر سکتی؟ کیا صرف اس لیے کہ ان ارباب اختیار و اقتدار کو صرف نیم مردہ ''ووٹرز‘‘ ہی درکار ہیں؟ کیونکہ بھوک اور پیاس سے نڈھال اور خستہ حالی کا شکار ووٹ دینے سے پہلے کیا سوچ سکتا ہے۔ شاباش۔ آصف جاہ تم سلامت رہو!! اسی طرح قدرتی آفات، بھوک، افلاس، قحط سالی، خشک سالی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بد حالیوں اور بیماریوں کے خلاف لڑتے رہو۔ مسیحائی کرتے رہو‘ اور سرکاری دعووں کی قلعی کھولتے رہو۔