مولانا فضل الرحمن ان دنوں وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ شدید قسم کی سیاسی محاذ آرائی میں الجھ کے ستّر کی دہائی کی اس تاریخ کو دوہرا رہے ہیں جب ان کے والد محترم مولانا مفتی محمود مغفور نے ہماری تاریخ کے مقبول سیاسی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ایسی فیصلہ کن سیاسی مزاحمت کی قیادت کی جو بالآخر ضیاء الحق کے مہیب مارشل لاء پہ منتج ہوئی۔ بلا شبہ مفتی صاحب نے سقوط ڈھاکہ کے بعد باقی ماندہ ملک میں حکومتوں کی تشکیل، 1973ء کے آئین کی منظوری، ختم نبوت و نظام مصطفی کی تحریکوں اور ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی تک ملکی سیاست میں نہایت توانا سیاسی کردار ادا کیا تھا۔
1980ء میں وفات کے بعد ان کے سیاسی جانشین مولانا فضل الرحمن جب میدان سیاست میں اترے تو ملکی و عالمی حالات قدرے مختلف اور ہماری سیاسی روایات زوال پذیر ہو چکی تھیں۔ مولانا فضل الرحمن نے ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم سے ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خلاف جدوجہد کر کے اپنی سیاسی حیثیت کو مستحکم بنایا اور بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے نیم جمہوری ادوار میں وہ فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کے علاوہ کسی نہ کسی طور اقتدار کی سیاست سے منسلک رہ کے پاور پالیٹیکس میں جگہ بناتے رہے؛ تاہم جنرل مشرف کے زیر سایہ 2002ء کے عام انتخابات میں انہوں نے ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے الیکشن جیت کر خیبر پختون خوا میں حکومت بنا کے براہ راست اقتدار سے استفادہ کیا اور 62 نشستوں کے ساتھ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا منصب حاصل کرکے پہلی بار بیک وقت اپوزیشن اور اقتدار کی سیاست کے تقاضوں کو نبھانے کا تجربہ کیا۔ کم و بیش اڑتیس سال کے سیاسی سفر کے بعد حالات کے جبر نے بالآخر مولانا فضل الرحمن کو اسی دو راہے پہ لا کھڑا کیا‘ جہاں آخری ایام میں ان کے والد محترم کھڑے نظر آتے تھے۔ سوموار کے دن راقم نے مولانا فضل الرحمن سے پوچھا کہ عمران خان کے خلاف ان کی سیاسی مزاحمت کا موازنہ، ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ان کے والد مولانا مفتی محمود کی سیاسی جدوجہد سے کیا جا سکتا ہے‘ تو مولانا نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے ایک وسیع تناظر میں سیاسی صورت حال کا تجزیہ یوں پیش کیا ''سقوط ڈھاکہ کے بعد جب قوم مایوسی کی تاریکی میں ڈوب چکی تھی اور دل گرفتہ قومی قیادت ٹٹول ٹٹول کے قنوطیت کے اندھیروں سے نکلنے کی کوشش میں سرگرداں تھی، اس وقت پیپلز پارٹی، نیشنل عوامی پارٹی (جو بعد میں ANP بنی) اور جمعیت علمائے اسلام کے درمیان وسیع تر سیاسی اتفاق رائے کے تحت مرکز، پنجاب اور سندھ میں پیپلز پارٹی، بلوچستان میں نیپ اور این ڈبلیو ایف پی (کے پی) میں جمعیت علمائے اسلام نے حکومتیں بنا کے نئے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔ حسن اتفاق سے پیپلز پارٹی کے روٹی کپڑا اور مکان کے نعروں اور جاگیرداری و سرمایہ داری کے خلاف سیاسی مہمات سے بہت ہی پہلے جمعیت ہاریوں، کسانوں اور پسے ہوئے طبقات کی آواز بننے کی کوشش کر رہی تھی۔ اسی قدرِ مشترک نے پیپلز پارٹی اور جمعیت کے درمیان ایک قسم کی سیاسی ہم آہنگی پیدا کر کے بظاہر متضاد فکر کی حامل دونوں جماعتوں کو قربت کا موقعہ دیا، تاہم اقتدار کے نشہ میں سرشار مسٹر بھٹو نے جلد ہی اپنے سیاسی منشور کے برعکس مقتدرہ کی ایما پہ بلوچستان میں نیپ کی حکومت ختم کر کے صورت حال کو یکسر بدل دیا۔ مفتی صاحب نے احتجاجاً این ڈبلیو ایف پی حکومت سے مستعفی ہو کے پیپلز پارٹی سے راہیں جدا کر لیں۔
1973ء کے آئین کی تیاری کے وقت قومی قیادت نے تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھ کے ملک کو متفقہ آئین دیا۔ خوش قسمتی سے اس وقت دو قطبی دنیا تھی اور مغربی طاقتیں سوشلسٹ انقلاب کی راہ روکنے کی خاطر سیاست میں مذہبی نظریات کی تلویث کی حامی تھیں اس لئے مذہبی تحریکیں بہت آسودہ تھیں۔ 73ء کے آئین میں اسلامی دفعات کی شمولیت اور بعد ازاں ضیاء الحق کے عہد میں کی گئی اسلامی قانون سازی اسی دور کی یادگار ہیں‘ لیکن اب یک قطبی دنیا میں مغربی طاقتیں اپنی پوری توانائی صرف کر کے مملکتوں کے سیاسی نظام کو سیکولر بنانے کی خاطر ''تبدیلی‘‘ چاہتی ہیں؛ چنانچہ ماضی کے سیاستدانوں کے برعکس ہمیں اپنی سماجی اقدار، سیاسی روایات اور تہذیبی شناخت کے تحفظ کا مسئلہ درپیش ہے۔ شومیٔ قسمت سے پی ٹی آئی کی قیادت معاشرتی اقدار، اس خطہ کی سیاسی اخلاقیات اور تہذیبی شناخت کی اہمیت سے نابلد ہے، اس لئے سیاسی تضادات بڑھتے جا رہے ہیں۔ بھٹو اپنی ذہانت و فطانت کے علاوہ طاقتور سیاسی پس منظر کے حامل ہونے کے ناتے اخلاقی اقدار، سیاسی روایات اور رائے عامہ کی قدر و قیمت کو جانتے تھے، اسی لئے اپنی افتاد طبع کے برعکس ختم نبوت کی تحریک میں بھٹو صاحب نے علمائے کرام کی رائے کو تسلیم کر کے قادیانیوں کو کافر قرار دیا۔ 1977 کے انتخابات اور اس سے قبل نظام مصطفی کی پُرجوش تحریک کے دوران بھی انہوں نے اپوزیشن کی اہمیت کم نہیں ہونے دی۔ آخری دم تک مفتی صاحب سے ان کے ذاتی رابطے اور سماجی رشتے قائم رہے۔ شدید ترین سیاسی تلخی کے ماحول میں بھی جب شاہ فیصل کا قتل ہوا تو جنازے میں شرکت کیلئے مفتی محمود بھٹو صاحب کے ہمراہ ہی مکہ مکرمہ گئے۔ مفتی محمود جیل میں تھے یا سہالہ ریسٹ ہائوس میں نظر بند، بھٹو انہیں ملتے رہے، انہوں نے حکومت کے خلاف پی این اے تحریک کے دوران جیلوں میں قید اپوزیشن کی لیڈرشپ کو پورے سیاسی حقوق دیئے۔ ذوالفقار علی بھٹو لا محالہ دھرتی کا بیٹا اور اسی تہذیب کا فرزند تھا‘ اسی لئے وہ یہاں کی خوبصورت سیاسی روایات کا امین بھی تھا۔ انہوں نے قومی سیاست میں صحت مند اور یادگار سیاسی کردار ادا کیا۔ اس لئے ہم انہیں فراموش نہیں کر پائے، مگر بھٹو صاحب کے برعکس عمران خان غیر سیاسی پس منظر کے حامل ہیں۔ وہ اس دھرتی کی انسیت سے برگشتہ اور سیاسی مکالمہ کی صلاحیت سے عاری ہیں، جب تک وہ سیاسی مکالمہ کی اہمیت کو تسلیم کر کے ڈائیلاگ کی طرف نہیں آتے ان کی فطرت میں وفا اور شخصیت میں توازن پیدا نہیں ہو سکتا‘‘۔ مولانا فضل الرحمٰن نے مزید کہا ''بد قسمتی سے فی الوقت ہمیں یک قطبی دنیا کے استبداد کا سامنا ہے جو مذہبی سیاست سے موافقت نہیں رکھتی، بوجوہ ہماری داخلی سیاسی صورت حال بھی انتشار کا شکار بن کے مہیب صورت اختیار کر چکی ہے، واحد سپر پاورگلوبلائزیشن کی پالیسی کے تحت چھوٹی مملکتوں کو استعماری اقتصادی نظام کے ذریعے کنٹرول کر رہی ہے، عالمی طاقتیں، خواتین کو با اختیار بنانے کے نام پہ، لوکلائزیشن کی پالیسی کے تحت مغرب گزیدہ این جی اوز کو معاشرے میں سرایت کرنے کے وسائل دے کر ہماری تہذیب و ثقافت کو بدلنے کی کوشش کر رہی ہیں تاکہ ہمارے سماج کی مذہبی اساس کی بیخ کنی کی جا سکے، اس وقت ہم تہذیبوں کی جنگ اور اقتصادی غلبے کا شکار ہیں، ملک کی شمال مغربی سرحدات پہ آباد قبائل اور پختون سماج، جہاں مذہب کی جڑیں کافی گہری ہیں، ان کا مرکزی ہدف ہیں۔ عمران خان کی پی ٹی آئی عالمی وسائل کی مدد سے این جی اوز کے ساتھ مل کر یہاں کی تہذیب و ثقافت اور مذہبی اقدار کو بدلنے کی کوشش کرے گی، یعنی پی ٹی آئی مغرب کے اقتصادی اور نظریاتی ایجنڈے کی علمبردار جبکہ ہم اپنی تہذیب کے محافظ ہیں، وہ تہذیب جس کے تحفظ میں ہماری سیاسی، اخلاقی اور معاشرتی بقا مضمر ہے، ہم اپنی تہذیب و ثقافت، مذہبی اقدار اور قومی مفادات کے تحفظ کی خاطر عالمی ایجنڈے کے خلاف مزاحمت کرنے پہ مجبور ہیں، ہم اپنی نئی نسلوں کو بزرگوں کی اجلی روایات، اسلام کی پاکیزہ اقدار اور ایک درخشاں مستقبل دینا چاہتے ہیں‘‘۔
صورت حالات کا تجزیہ کرتے وقت مولانا فضل الرحمن کا انداز اگرچہ ناصحانہ تھا لیکن لہجے میں تلخی ہرگز نہیں تھی، کئی انتہائی تلخ حقائق کو بھی انہوں نے نہایت ہلکے پھلکے انداز میں بیان کر کے سیاسی پختگی کا مظاہرہ کیا، بلا شبہ وہ اپنے عہد کے تقاضوں کو سمجھتے ہیں، ہم ان کے خیالات سے اختلاف توکر سکتے ہیں مگر ان کے سیاسی کردار کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔