عمران خان کو خطرہ ہوا تو وہی مدد کریں گے‘ جو اقتدار میں لائے: زرداری
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''عمران خان کو خطرہ ہوا تو وہی مدد کریں گے‘ جو اقتدار میں لائے تھے‘‘ کیونکہ ہم تو اس وقت سرکاری مہمان ہوں گے اور اپنے دوستوں وغیرہ‘ کے ساتھ تبدیلیٔ آب و ہوا کے مزے لے رہے ہوں گے‘ جبکہ ملک عزیز میں تبدیلیٔ آب و ہوا کے کئی اور مراکز بھی قائم ہونا چاہئیں؛ اگرچہ ملک میں جیلوں کی بھی کمی نہیں ہے اور ہم اگر اقتدار میں آئے‘ تو ملک میں جیلوں کا جال بچھا دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خان کو اگلا وزیراعظم جیل بھیجے گا‘‘ اور اگر اگلا وزیراعظم بھی خود عمران خان ہوا تو اُس سے ا گلی بار سہی‘ تاہم وہ خود بھی اپنے آپ کو جیل بھیج سکتے ہیں‘ کیونکہ اگر نواز شریف اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار سکتے ہیں‘ تو کچھ بھی ہو سکتا ہے‘ جبکہ ملکِ عزیز میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ ہوتے رہنا چاہیے اور اگر عدالت اسی طرح دلیری سے کام لیتی رہی تو کچھ نہ کچھ بہت تیزی اور کثرت سے ہوتا رہے گا اور اگر مجھے سیاست میں نہ آنے دیا گیا ‘تو وصیت سازی کا کام شروع کر دوں گا‘ جس میں پہلے ہی تجربہ رکھتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ''کٹھ پتلیوں سے کام نہیں چلے گا‘ جنہوں نے قبل از وقت عام انتخابات کی بھی دھمکی دی ہے ‘تاکہ اپوزیشن کا صفایا ہی کر دیا جائے ‘‘جو کہ ویسے بھی ہو چکا ہوگا کہ کم و بیش ساری کی ساری اپوزیشن آب و ہوا تبدیل کر رہی ہوگی اور بچی کھچی اپوزیشن کا ویسے بھی بولورام ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''جے آئی ٹی نے بلاول کو نہیں‘ مجھے اور میری بہن کو بلایا‘‘ کیونکہ ہم اگر پکڑے گئے تو بلاول کو جے آئی ٹی کے بغیر بھی دھر لیا جائے گا؛ حالانکہ میں نے اُسے کہا تھا کہ ذرا احتیاط سے کام لو‘ پکڑے جانے کیلئے میں ہی کافی ہوں‘ جبکہ میرے جملہ جانثار فرنٹ مین بھی جلدی ہی مجھ سے آ ملیں گے اور کافی رونق لگ جائے گی۔ آپ اگلے روز ٹنڈو الہٰ یار میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اوقاف کی اراضی پر دکانوں کا معاملہ 32سال پرانا ہے: نواز شریف
مستقل نااہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم نے کہا ہے کہ ''اوقاف کی اراضی پر دکانوں کی تعمیر کا معاملہ 32سال پرانا ہے‘‘ اس لیے اس گڑے مُردے کو اکھاڑنے کا کوئی فائدہ نہیں‘ جبکہ وہ اراضی بھی فوت شدگان کی تھی‘ جنہیں بھی گڑے مردوں کی طرح اکھاڑا جا رہا ہے اور اگر اُن کی بد دُعا لگی تو سب کو دن میں تارے نظر آ جائیں گے‘ جبکہ مجھے تو رات کو بھی نظر نہیں آتے اور ایسا لگتا ہے کہ یا تو آسمان ہی تاروں سے خالی ہو گیا ہے یا مجھے عینک کا نمبر بدلوانے کی ضرورت ہے؛ چنانچہ اگر ایسا ہی ہے تو اپنے نالائق وکیلوں سے فیس واپس لے کر کوئی اچھی سی عینک لگواؤں گا ‘جبکہ دُور بین لگوانی پڑے گی‘ کیونکہ جیل سے واپسی کا دُور دُور تک کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ انہوں نے کہا کہ ''جے آئی ٹی نہ بنائیں‘ اس کے حوالے سے میرا تجربہ کچھ اچھا نہیں ہے‘‘ کیونکہ مجھے اس کے ہاتھ لگے ہوئے ہیں‘ اور یہ سب وہی بدبخت تھے‘ جو کبھی میرے ماتحت تھے اور میرے ڈر سے تھرتھر کانپتے رہتے تھے‘ کیا میں غلط کہہ رہا ہوں‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز احتساب عدالت سے سوال و جواب کر رہے تھے۔
مڈٹرم الیکشن‘ حکومت اپنی تباہی کی خود ذمہ دار ہوگی: خواجہ آصف
سابق وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ''مڈٹرم الیکشن‘ حکومت اپنی تباہی کی خود ذمہ دار ہوگی‘‘ بلکہ اصل میں تو یہ تباہی ہماری ہوگی ‘کیونکہ جو سیٹیں حاصل کی ہیں ‘اُن سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے‘ جبکہ ہم بھی اپنی تباہی کے خود ہی ذ مہ دار ہیں کہ نہ اتنی خدمت کرتے اور نہ یہ انجام ہوتا اور آدمی کو انجام سے ہمیشہ ڈرنا چاہیے جو کہ اکثر اوقات بُرا ہی ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''وزیر اعظم ے پوچھا جائے کہ جو 100ارب آنا تھے‘ وہ کیا ہوئے؟ ''اور‘ اُمید ہے کہ کوئی نہ کوئی اُن سے ضرور پوچھے گا کیونکہ ہم تو اپنے چکروں میں پڑے ہوئے اور آئے روز نئے سے نیا کیس کھل جاتا ہے جبکہ اوقاف اراضی کیس ہی کیا کم تھا کہ اوپر سے ماڈل ٹاؤن سانحہ پر بھی اللہ کا نام لے کر سپریم کورٹ پھر بیٹھ گئی ہے‘‘۔ وزیراعظم کہتے ہیں ڈالر کی قیمت بڑھنے کا مجھے علم ہی نہیں تھا‘ جبکہ ہمارے قائد کو تو کسی چیز کا بھی کوئی علم نہیں ہوتا تھا‘ کیونکہ وہ ملکی ترقی ہی میں اس قدر مصروف تھے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل میں گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں ضمیر طالب کا تازہ کلام:
لگی ہے آگ جو تیرے مرے بیچ
ذرا کم ہو تو دیکھوں کون ہے تُو
کبھی کبھی تو میں وہ لفظ بول دیتا ہوں
میرے مکالمے میں جو لکھا نہیں ہوتا
یہ بھی اچھا ہے مجھے سنتا نہیں ہے کوئی
جو بھی آتا ہے مرے جی میں وہ کہہ دیتا ہوں
پہنے ہوئے سے کس کو غرض ہے یہاں ضمیرؔ
اب لوگ دیکھتے ہیں جو پہنا نہیں ہوا
اُس طرف میں بھی گیا تھا‘ سوچ لو
کوئی لوٹ آیا نہیں ہے آج تک
وہ جو مر سکتا تھا میرے واسطے
جی رہا ہے وہ کسی کے واسطے
اس لیے چُپ نہیں رہتا ہوں تری محفل میں
تُو میرے آنے کا مقصد نہ سمجھ جائے کہیں
اپنا حصہ بچانا چاہتے ہیں
حصہ اوروں کا کھانا چاہتے ہیں
جو ہُنر خود ہمیں نہیں آتا
دوسروں کو سکھانا چاہتے ہیں
نظر نہ آؤں کہیں سے کسی کو بھی میں ضمیرؔ
کہیں سے دیکھ سکوں میں جہان سارے کو
آج کا مطلع
کھولیے آنکھ تو منظر ہے نیا اور بہت
تو بھی کیا کچھ ہے مگر تیرے سوا اور بہت