تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     06-12-2018

کرتار پور کے نانک جی!

پاکستان اور بھارت کے درمیان عجب ہی تعلقات ہیں‘دونوں ایک دوسرے سے دامن بھی نہیں چھڑا سکتے اور ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی کا سلسلہ بھی چلتا رہتا ہے۔ دونوں کے درمیان تعلقا ت رہے تو ہمیشہ اُتار چڑھاؤکا شکار ہیں‘ لیکن کچھ دہائیاں پہلے تک کچھ نہ کچھ سلسلہ جنبانی چلتا رہتا تھا۔قیام پاکستان کے بعد بھارتی وزیراعظم نہرو جب بھی پاکستان کی فضا ؤں سے گزر کرکسی دوسرے ملک میں جاتے ‘تو اکثر کراچی میں اُن کا مختصر قیام ضرور رہتا تھا۔اِدھر سے جانے والے پاکستانی حکمرانوں کا بھارتی فضاؤں سے گزر ہوتا تو دہلی میں مختصر قیام کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہوتی تھی۔جنرل ضیاالحق اور پرویز مشرف کا بھارت جانا بھی کوئی زیادہ دور کی بات نہیں ہے۔اب یہ عالم کہ تعلقات کی بہتری کی اُمید رکھنا تو دور کی بات ہے‘ دونوں کے درمیان بات چیت کے تمام دروازے عملی طور پر بند ہیں۔ایک وقت وہ تھا جب 1999ء میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی ‘ دوستی بس کے ذریعے پاکستان آئے ۔اُن کے بعد موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی بھی دسمبر 2015ء میں دوگھنٹوں کی مختصر سی جاتی اُمرا یاترا پر پاکستان آئے‘ لیکن تعلقات میں بہتری کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ اب یہ عالم کہ پاکستان کی طرف سے بھارت کو مسلسل خیرسگالی کے پیغامات بھیجے جارہے ہیں‘ لیکن سرحد کے اُس پار مسلسل سرد مہری چھائی ہوئی ہے۔ گویا کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی ایسی خرابی ضرور موجود رہتی ہے‘ جو دونوں ممالک کو قریب نہیں آنے دیتی۔پہلے اگر بھارت کی طرف سے یہ الزام لگایا جاتا تھا کہ پاکستان تعلقات میں بہتری کے لیے سنجیدہ نہیں‘ تو اب پاکستان کا موقف ہے کہ بھارت مذاکرات سے راہ فرار اختیار کررہا ہے۔ موجودہ حالات میںپاکستان کاموقف قدرے حقیقت کے نزدیک قرار دیا جاسکتا ہے کہ موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد سے مسلسل بھارت سے بہتر تعلقات استوار کرنے کے عزم کا اظہار سامنے آرہا ہے۔وزیراعظم عمران خان نے اس کا آغاز وزارت ِعظمی کا حلف اُٹھانے سے پہلے ہی کردیا تھا ‘جب اُن کی طرف سے اپنے تین بھارتی دوست کرکٹرز‘ نوجوت سنگھ سدھو‘کپل دیو اور سنیل گواسکرکوپاکستان آنے کی دعوت دی گئی تھی۔ان میں سے صرف سدھو ہی پاکستان آئے اوراُن کا یہی آنا کرتار پور راہداری کھولے جانے کے انقلابی فیصلے کا سبب بنا۔شاید ہی کسی کو اِس بات پر یقین ہو کہ صرف تین ماہ پہلے جو خواب دیکھا گیا تھا‘اُس کی تعبیر اتنی جلد مل جائے گی کہ صرف تین ماہ کے بعد پورا عالمی میڈیا کرتارپور پہنچا ہوگا‘سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے چہرے خوشی سے دمک رہے ہوں گے‘ جن کے لیے شاید روئے زمین پر کرتار پور سے مقدس اور کوئی مقام نہیں۔وہ مقام جہاں اُن کے پہلے گروبابا نانک جی نے زندگی کے آخری اٹھارہ سال گزارے ۔جہاں کی دھرتی پر جگہ جگہ وہ گرونانک جی کے قدموں کا لمس محسوس کرتے ہیں۔دنیا کے مختلف ممالک سے سکھ حضرات جب کرتار پور آتے ہیں ‘تو ان کی اکثریت پاؤں سے جوتے اُتار لیتی ہے‘ تاکہ اُن کے جوتے کسی ایسی جگہ نہ پڑجائیں ‘جہاں کبھی گرونانک جی کے قدم پڑے ہوں گے۔
ضلع نارروال سے شکرگڑھ جانے والی سڑک پر تقریباً 12کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد جسٹر کے قریب سے ایک چھوٹی سی سڑک دائیں ہاتھ کو مڑتی ہے۔اسی پر تقریباً تین کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد کرتار پورکا گردوارہ دربار صاحب سامنے آن موجود ہوتا ہے۔ وہ مقام جہاں ماتھا ٹیکنا دنیا کے کسی بھی کونے میں بسنے والے کسی بھی سکھ کی سب سے بڑی خواہش ہوسکتی ہے۔15اپریل 1469ء کو موجودہ ننکانہ صاحب میں پیدا ہونے والے‘ سکھ مذہب کے بانی گرونانک جی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اپنی پیدائش کے فورا بعد سے ہی اُنہیں مقدس پیغامات سنائی دینے لگے تھے۔ اپنے آبائی مذہب ہندومت سے قدرے اُکتاہٹ محسوس کرتے تھے ۔سید حسن اور متعدد دیگر مسلمان درویشوں کی قربت کے بعد اس اُکتاہٹ میں مزید اضافہ ہوگیا۔ یہی اُکتاہٹ اور بیزاری سکھ مذہب کی بنیاد بنی ۔ زندگی کا بیشتر حصہ سفر میں گذارنے کے بعد اپنے اہل خانہ کے ساتھ کرتار پور کو رہائش کے لیے چنا اور پھر زندگی کے آخری اٹھارہ سال‘ اسی مقام پر گذارے۔وفات کے بعد ان کی آخری رسومات ادا کرنے کا وقت آیا تو ہندو انہیں اپنے عقیدے کے مطابق جلانے تو مسلمان دفنانے پر مصر ہوئے۔روایات کے مطابق جب میت پر سے چادر ہٹائی گئی تو وہاں کچھ پھول پڑے ملے‘ جن میں سے کچھ کو ہندوؤں نے جلا دیا اور کچھ کو مسلمانوں نے دفنا دیا۔اس گردوارے میں آج بھی سمادھی اور قبر ساتھ ساتھ ہیں۔ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی یہاں بڑی تعداد میں آتے ہیں‘ لیکن سکھوں کے لیے اس مقام سے مقدس مقام اُن کے لیے کوئی اور نہیں۔ تقسیم ہند کے بعد یہ مقام پاکستانی حدود میں آگیا‘ جس کے بعد پاک ‘ بھارت تعلقات میں اُتار چڑھاؤکے باعث بھارت میں بسنے والے بیشتر سکھوں کے لیے یہ مقام ناقابل رسائی ہی رہا۔بھارتی سرحد سے صرف چار کلومیٹر کی دوری پر واقع اس گردوارے کو سکھ حضرات دیکھ تو سکتے تھے‘ لیکن یہاں پرآکر وہ ماتھا نہیں ٹیک نہیں سکتے تھے۔
ان حالات میں جب 28نومبر2018ء کو کرتار پور راہداری کا سنگ بنیاد رکھا گیا تو گویا یہ سکھوں کے لیے عید کا دن ٹہرا ۔ اب اُنہیں اُس دن کا انتظار ہے‘ جب وہ بغیر ویزے کے صرف پرمٹ پر پاکستانی حدود میں داخل ہوں گے ‘ چار کلومیٹر کا فیصلہ طے کرنے کے بعد گردوارے میں ماتھا ٹیکیں گے اور پھر واپس اپنے ملک کو روانہ ہوجائیں گے۔اب تو راہداری کی تعمیر کے لیے بھاری مشینری کی مدد سے کام کا آغاز بھی کردیا گیا ہے۔تقریب کی بات تو اب کچھ پرانی ہوگئی ہے‘ جس کی بہت تفصیل میں جانا تو شاید مناسب نہ ہوگا‘ لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ میں بھی اس تاریخی موقع کا عینی شاہد تھا۔جو کچھ وہاں دیکھا‘ اُسے الفاظ میں بیان کرنا شاید ممکن نہیں ہے اور نہ ہی اب قدرے پرانی باتوں کو دھرانے کا کوئی جواز ہے‘ لیکن وہاں مذہبی اعتقاد کی ایک الگ ہی انتہا دیکھنے کو ملی ‘ اُس کا تذکرہ بہرحال دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جب بھی تعلقات میں بہتری کی کوئی اُمید پیدا ہوتی ہے‘ کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہوجاتا ہے کہ اُٹھے ہوئے قدم واپس لوٹ جاتے ہیں‘ لیکن اِس مرتبہ سکھوں کا یقین کچھ الگ ہی داستان سنا رہا تھا۔یہاں جتنے بھی سکھوں سے گفتگو ہوئی‘ سب ایک ہی عقیدے کا اظہار کرتے دکھائی دے رہے تھے کہ اس مرتبہ باباگرونانک جی نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کا بیڑا اُٹھایا ہے۔ اس کاپہلا قدم کرتار پور کی راہداری کھولے جانے کا فیصلہ ہے۔ سکھوں کو پوری طرح سے یہ یقین تھا کہ اس مرتبہ کوئی بھی رکاؤٹ کرتار پور راہداری کھلنے کے آڑے نہیں آسکتی‘لیکن وہ ایک بات بھول رہے تھے کہ سیاسی چالیں اکثر اوقات نیک نیتی سے اُٹھائے گئے ‘قدموں کو واپس لوٹنے پر مجبور کردیتی ہیں۔بھارت کی وہی یونین منسٹرہرسمرت کور‘ جو کرتار پور راہدری کی افتتاحی تقریب میں ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے اسے ایک تاریخی موقع قرار دے رہی تھیں‘جن کی جذباتی تقریر نے تقریب میں موجود حاضرین کو بھی آبدیدہ کردیا تھا۔محترمہ کا کہنا تھا کہ اُن کا پاکستان میں کوئی دوست نہیں ‘اگر وہ یہاں آئی ہیں‘ تو اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ اُنہیں گرونانک جی نے بلایا ہے۔تقریب سے واپس بھارت پہنچتے ہی اُنہوں نے چولا تبدیل کرلیا۔سب سے پہلے تو اُنہوں نے نوجوت سنگھ سدھوکو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اُسے پاکستان کا ایجنٹ قرار دے دیا۔اُن کی طرف سے یہ مطالبہ بھی سامنے آیا ہے کہ سدھو کی کانگرس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی اس حوالے سے اپنی جماعت کی پوزیشن واضح کریں۔گویا بات پھر وہیں آن پہنچیں کہ اِدھر کچھ‘ اُدھر کچھ۔بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج کی طرف سے یہ پہلے ہی واضح کیا جاچکا کہ کرتار پور راہداری کا کھلنا اور پاک‘ بھارت مذاکرات کی بحالی ‘ دو الگ الگ معاملات ہیں اور انہیں الگ الگ حکمت عملی کے تحت ہی دیکھا جائے گا۔اُنہوں نے دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کی بحالی کے اس سنہری موقع کو ضائع کردیا ؛ حتی کہ اُن کے مطابق کرتار پور راہداری کی افتتاحی تقریب میں شرکت کرنے والے وزرا نے اپنی ذاتی حیثیت میں تقریب میں شرکت کی تھی۔
قصہ مختصر یہ ہے کہ بھارت میں وفاق کی سطح پر اس معاملے کو غیراہم ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔دوسری طرف بھارتی پنجاب میں بی جے پی کے رہنماؤں کو یہ فکر کھائے جارہی ہے کہ نوجوت سدھونے اس معاملے سے جو کچھ گین کیا ہے‘اُس کے نتیجے میں وہ بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ بھی بن سکتے ہیں۔دیکھتے ہیں کہ اب کے پھر سیاسی چالیں کامیاب ہوتی ہیں یا پھر عام سکھ کا کرتار پور کے نانک جی پر اعتماد جیتتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved