دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہندو انتہا پسندوں کے ہزاروں کی تعداد میں کام کرنے والے سوشل میڈیا سیل اور بھارت کے الیکٹرانک میڈیا پر راجستھان میں نوجوت سنگھ سدھو کے جلسے کے دوران چند ایک لوگوں کی جانب سے پاکستان زندہ باد کے نعروں کی‘ جس قدر تشہیر کی جا رہی ہے‘ اسے'' انٹیلی جنس کی زبان میں SABOTAGE کہا جاتا ہے اور یہ کام بھارت کی خفیہ ایجنسی راء انتہائی مہارت سے اس لئے کروا رہی ہے‘ تاکہ سدھو کی بڑھتی ہوئی عوامی مقبولیت اور کرتار پور راہداری کی سہولت دینے پر پاکستان کی نیک خواہشات اور سکھوں کے دلوں میں اس کی محبت کو شکوک و شبہات میں تبدیل کیا جا سکے‘ نوجوت سنگھ سدھو ہو سکتا ہے کہ اپنی روانی یا بھولپن میں راء کے اس وار کو سمجھ نہ رہے ہوں‘ لیکن میں اپنے تجربے کی بنیاد پر انہیں خبردار کررہا ہوں کہ ان کے جلسوں اور ریلیوں میں پاکستان زندہ باد کے نعرے راء کی پلاننگ سے لگوائے جا رہے ہیں‘ تاکہ ان نعروں کی آڑ میں اسے پاکستان اور آئی ایس آئی کے ایجنٹ کی صورت میں پیش کرتے ہوئے ان کی بھارت میں یک دم بڑھنے والی عوامی مقبولیت کو کم کیا جا ئے اور کرتار پور راہداری کھلنے سے بھارت کے عام اور غریب سکھوں کے دلوں اور ذہنوں پر اس کے بارے ابھرنے والے ہمدردی اور قیا دت کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔
کیپٹن امریندر سنگھ اور نریندر مودی سمیت راشٹریہ سیوک سنگھ اور جنتا پارٹی کے نام سے اس کی انتخابی ٹیم سمیت اس وقت پورے بھارت کا میڈیا کرتار پور راہداری کے نام سے نوجوت سنگھ سدھو کی بے تحاشا بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خائف ہو چکا ہے اور بھارت کی تمام خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے ان کی بھر پور کوشش ہے کہ سدھو کو پاکستان سے منسلک کرتے ہوئے اپریل 2019ء میںہونے والے عام انتخابات میں نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو نئی دہلی ‘یو پی‘ مہاراشٹر‘ گجرات ‘ہریانہ سمیت پورے بھارت میں ایک مرتبہ پھر تمام ہندوئوں کا نجات دہندہ اور پاکستان کے سب سے بڑے دشمن کے روپ میں پیش کرتے ہوئے انتخابات میں کامیابی سمیٹی جا سکے۔ بھارت کی اسٹیبلشمنٹ کسی طور بھی نہیں چاہے گی کہ بھارتی پنجاب میں کوئی ایسی حکومت آ جائے‘ جو پاکستان کیلئے ہمدردی اور خیر سگالی کے جذبات رکھتی ہواور وہ تو کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہو گی ‘جو ننکانہ صاحب‘ کرتار پور صاحب اور پنجہ صاحب حسن ابدال جیسے سکھوں کے مقدس ترین مقامات کی دل و جان سے حفاظت اور صفائی ستھرائی سمیت ان کی عظمت کیلئے ہر سہولت مہیا کر رہی ہو ۔ کسی دوسرے کو نہیں ‘بلکہ خاص طور پر کسی واہ گرو جی کے خالصہ کو و تو یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ براہمن ‘جس قدر مسلمانوں اورخاص طور پر پاکستان کا دشمن ہے؟ اس سے اگر زیا دہ نہیں تو تھوڑا سا کم سکھوں کا بھی اسی طرح مخالف اور دشمن ہے۔ مسلمانوں کے بعد اگر کسی قوم سے اسے ہر وقت خطرے کا سامنا رہتا ہے تو وہ سکھ دھرم سے تعلق رکھنے والے نانک جی کے سچے پرستار ہیں۔
الغرض ‘براہمنوں کی سکھوں کے مذہبی جذبات اور رسومات سے نفرت اور ناپسندیدگی کی حال ہی میں ایک چھوٹی سی مثال پڑھنے سے ہی اندازہ ہو جائے گا کہ عام سکھ تو دور کی بات ہے‘ سکھوں کیلئے انتہائی قابل احترام رائے بلار بھٹی‘ جنہوں نے سب سے پہلے با با جی گرو نانک کی کرامات اور بزرگی کا مشاہدہ کرتے ہوئے اقرار کیا اور پھر با با نانک جی کی جانب لوگ مائل ہونا شروع ہوئے۔اس رائے بلار نے اسی وقت اپنی جاگیر میں سے 750 مربع زمین با با جی گرو نانک کیلئے وقف کر دی تھی۔ اس رائے بلار کی تصویر کی نمائش کی اجا زت دینے سے انکار کر دیا۔ با با جی گرو نانک کے550 برس مکمل ہونے پر سکھ دھرم سے تعلق رکھنے والے دنیا بھر میں ایک جشن منارہے ہیں اور اس سلسلے میں گولڈن ٹیمپل‘ امرتسر کے میوزیم میں رائے بلار بھٹی کی تصویر کی تقریب رونمائی کیلئے شرومنی گردوارہ پربندھک کمیٹی کے چیئرمین کی جانب سے رائے بلار بھٹی کی نسل در نسل چلنے والی پیڑھی کے موجو دہ چشم و چراغ رائے محمد اکرم بھٹی صدر ڈسٹرکٹ بار ننکانہ اور ان کے بڑے بیٹے رائے سلیم اکرم بھٹی ایڈو کیٹ اور رائے بلال اکرم بھٹی کو بھارت سمیت دنیا بھر کے سکھوں کی جانب سے رائے بلار کی تصویر کی نقاب کشائی کیلئے خصوصی طور پر بلا وا بھیجا گیا۔ اس سلسلے میں ان تینوں باپ بیٹوں کی بھارت آمد کیلئے چیف سیکرٹری انڈین پنجاب پوری صاحب اور شرومنی گردوارہ پربندھک کمیٹی نے بھارتی حکومت اور اسلام آباد میں بھارت کے ہائی کمیشن کو خصوصی طور پر خطوط لکھتے ہوئے رائے فیملی کے ان تینوں فرزندان کو ویزے جاری کرنے کی درخواست کی‘لیکن بھارت نے ان سکھوں کے سب سے مقدس مقام گولڈن ٹیمپل سے منسلک ان کی کمیٹی اور چیف سیکرٹری انڈین پنجاب کی درخواست کو پائوں تلے روندتے ہوئے بھٹی فیملی کیلئے ویزے جاری کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔
دنیا بھر کے سکھ مذکورہ خبر کو سنتے ہوئے سکتے میں آگئے۔ انہیں اپنے کانوں پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا ‘کیونکہ سکھوں کے نزدیک رائے بلار بھٹی کی قدر و منزلت اور احترام کا اندازہ اس سے کیجئے کہ بڑے بڑے اور انتہائی تعلیم یافتہ ارب پتی سکھ حضرات ننکانہ صاحب حاضری دیتے ہوئے جب ان بھٹی برادران سے ملتے ہیں ‘تو ان کے برا بر بیٹھنے کی بہت کم کوشش کرتے ہیںاور جب اس قسم کے بے ضرر‘ لیکن سکھوں کے قابل احترام خاندان کے لوگوں کونریندر مودی سرکار ویزہ جاری کرنے سے صاٖ ف انکار کر دے ‘تو اسی ایک حوالے سے اندازہ ہو جا نا چاہئے کہ براہمن اور ان کے زیر سایہ پنپنے والے پیروکار انتہا پسند ہندوئوں کے نزدیک سکھوں اور ان کے گروئوں اور مقدس مقامات کی کیا عزت اور اہمیت ہے؟بھارتیہ جنتا پارٹی کا خیال تھا کہ سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی کی اس بے عزتی پر بھارت کے سکھ چپ رہیں گے ‘لیکن ایسا نہیں ہوا‘کیونکہ جیسے جیسے رائے بلار کی پیڑھی سے تعلق رکھنے والوں کو ان کی تصویر کی رونمائی تقریب میں شرکت سے روکنے کی یہ خبر عام سکھوں میں پھیلتی جا رہی ہے ‘ویسے ویسے ہی ان کے ویزوں کا معاملہ اب گھروں سے نکل کر بھارتی پارلیمنٹ تک جا پہنچا ہے۔ اب دیکھئے مودی سرکار اس سلسلے میں پارلیمنٹ کے اندر کون سا نیا پینترا بدلنے کا ناٹک کرتی ہے؟ آخر چانکیہ کے چیلے ہی تو ہیں۔
براہمن ‘جس قدر اندر سے سکھوں سے نفرت کرتے ہیں‘ اس کا اندازہ1984ء میں اندر گاندھی کا ا س کے دو سکھ محافظوں کے ہاتھوں قتل کے بعد پورے بھارت میں سکھوں کے ہونے والے قتل عام سے لگایا جا سکتا ہے۔سکھوں نے اپنی 70 سالہ زندگی میں دو بھیانک اور در بدر ہونے کے مشاہدات کئے پہلا قائد اعظم محمد علی جناح کی پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کی بات نہ مان کر اور دوسرا اندرا گاندھی کے قتل کے بعد جب ان کی مائوں‘ بہنوں‘ بیٹیوں کو نئی دہلی‘ سورت‘ کلکتہ‘ ممبئی‘ گجرات تک ہی نہیں ‘بلکہ بھارت کے ہر شہر اور گائوں میں زندہ جلایا گیا۔( جس کی مکمل تفصیل کسی اورکالم میں پیش کروں گا)۔گوردواروں کے اندر سکھ خواتین سے اجتماعی زیا دتیاں کی گئیں اور پھر انہیںان گردواروں سمیت زندہ جلا دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ بھارت کے ہندوؤں نے مذکورہ بالا ظلم و ستم کا بہانہ یہ تراشا کہ سکھ اندر گاندھی کے قتل کے بعد جذباتی ہو گئے تھے‘ جس پر میں نے سوال کیا تھا کہ جب مہاتما گاندھی کو قتل کیا گیا تو کیا کسی ہندو نے ا ن کے قاتل اس کے خاندان گھر یا قوم کے کسی فرد کے خلاف جذباتی ہو کر اس طرح کے رد عمل کا اظہار کیا تھا‘کیونکہ وہ قاتل ایک انتہا پسند ہندو تھا۔