پانچ گھنٹے مسلسل سفرکے دوران دوجگہ شدیدسینڈسٹارم ‘یعنی ریت کے طوفانوںمیںسے گزرے۔ تھکان کا احساس تک نہ ہوا۔ اس لیے بغیر کسی توقف کے عمرہ شروع کردیا۔معلم صاحبان کا خیال تھا؛عشا کے بعدرش ختم ہوجائے گا‘لیکن اللہ کا نام لے کراللہ کے گھر میں سعی کا آغاز کردیا۔مقامِ ابراہیمؑ سے گزرتے ہوئے دھیان سیدنا اسماعیل ذبیع علیہ السلام کی طرف بھی جاتا۔
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آدابِ فرزندی
حج کے دنوںجیسارش تھا۔ایک ایک قدم پھونک پھونک کررکھنا پڑا۔ایسے وارفتہ ہجوم میںسٹیمپیڈ جان لیوا بھی ہوسکتی ہے۔عشاکی نماز کھڑی ہونے تک صفا اورمروہ کاسفرمکمل ہوا۔مالکِ ارض و سما نے ایک ایسی ماں ‘حاجرہ سلام اللہ علیہا کو لافانی عظمت بخش دی ‘جو اپنے پیاسے بچے کے لیے پانی کی تلاش میںصفا اور مروہ کے پہاڑوں کے درمیان ایک مرتبہ نہیں سات دفعہ دوڑتی رہیں۔عمرے کے اختتام پرمولدِ حضرت محمدﷺ پرحاضری کے لیے چل نکلے۔سیدنا حضرت عبداللہ کامکان حرمِ کعبہ کے پڑوس میںایک اونچی ٹیکری پر واقع ہے‘جہاں آج کل مکتبہ ‘یعنی لائبریری بنادی گئی ہے۔ارد گرد بے شمار خواتین و خاندان درود و سلام میں محو پائے۔لائبریری کی عمارت کے اردگردلوہے کا جنگلہ نصب ہونے کے باوجودزائرین ِ حرم کو مولدِ حضرت محمدؐ کی خوشبوکھینچ لے جاتی ہے۔اسی مولد شریف میں دنیا بھر کے یتیموں‘مظلوموں‘یسیروں اور غلاموں کے مقدر کو اُجال دینے والاچاند چمکا تھا۔
میرے رسولؐ کہ نسبت تجھے اجالوں سے
میں تیرا ذکر کروں صبح کے حوالوں سے
شعبِ ابی طالب کی گھاٹی کے ساتھ ہی مکہ کی ریڈکریسنٹ نے کنگ عبدالعزیز ہسپتال تعمیرکررکھاہے۔بہت اچھے مزاج کاعملہ‘جدیدترین آلات اور صرف ویزہ شدہ پاسپورٹ دکھانے پرہرطرح کاعلاج اور ساری دوائیں مفت ہیں۔
مکے کی اگلی صبح شاہراہِ طائف پرنکلے تو ایک انتہائی خوبصورت ‘دل میں اتر جانے والا بل بورڈ نظر آیا‘جس پر یہ تحریرتھا:ر بنا اجعل ھذالبلداً آمناًترجمہ:اے ہمارے رب ‘ہمارے اس شہر کوامن کاشہربنائے رکھ۔حرمِ کعبہ شریف کی توسیع کا منصوبہ اس مبارک وادی کے چاروں معروف پہاڑوںکی چوٹیوں کی طرف گامزن ہے۔ایک ذمہ دارفرد نے انکشاف کیا کہ 2030ء تک‘ آج نظر آنے والی ساری عمارتیں ربِ کعبہ کے فضل سے کعبے کے روبرو سجدہ ریز ہوکر مسجدِ حرم میں شامل ہو جائیں گی۔ اسواقِ مکہ‘ یعنی مکے کی مارکیٹوں اور شاپنگ سینٹرز میں مدینے کے تاجروں کا کنٹراسٹ پایا جا تا ہے۔ مکہ شریف میں اشیاکی قیمتیں فکس ہو تی ہیں ۔اس لیے بار گینگ کی گنجا ئش ندارد۔ مقا می لوگ جسم و جان کے ہی نہیں مزاج کے بھی تکڑے ہیں ۔ میں نے لفظِ ''سخت‘‘ کا استعمال حدِ ادب کے پیشِ نظر نہیں کیا ۔یہاں کی بے آب و گیا سنگلاخ چٹانیں ‘ رسولِ خدا ﷺ پر روا رکھی گئی سختیوں کی یاد طبیعت کو رنجیدہ کر دیتی ہے۔
تیسرے دن مکے سے مدینے واپسی کا سفر پھر شروع ہوا ۔ اس سفر میں ہماری پہلی منزل بیرسٹر عبداللہ ممتاز اور عبدالرحمن ممتاز کے ہاں بریک تھی ۔ جدہ کے بین الاقوامی ہوا ئی اڈے کے سامنے محمدیہ نامی جدید بستی میں پہنچے ۔ کئی دنوں کے وقفے کے بعد پاکستانی کھانا کھایا ۔ سفر اندرونِ ملک ہو یا سات سمندر پار کوشش‘ یہی ہو تی ہے کہ جس علاقے میں جائوں وہاں کا کھانا کھا ئوں ۔ کسی بھی کلچر ‘ رہتل ‘ رسم و رواج یا وسیب کا سب سے اچھا تعارف اُس علاقے کے کھانے ہو تے ہیں۔ لائٹر نوٹ پر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ کسی شخص کے ظرف‘ظروف اور مہمان نوازی کا سب سے اچھا لِٹمس ٹیسٹ ڈائنگ ٹیبل پر ہی ممکن ہے ۔ میں نے چند سال پہلے سرگودھا میں بیرسٹر عبداللہ ممتاز کی شادی میں شرکت کی تھی۔ جدہ پہنچ کر اُن کی سات ماہ کی بیٹی عالیہ سے خوش کن ملاقات ہوئی۔جدہ ظہر کی نماز کے بعد چھوڑا۔شہر کے ایک سٹورسے پانی ‘فروٹ اور آرام کے لیے تکیہ خریدا۔تکیہ گاڑی میں ڈال کر رُخ مدینے کی طرف موڑ دیا۔270کلومیٹر کاسفر طے کرنے کے بعد راس کوہ ‘یعنی پہاڑی کا سر نامی وادی میںجارُکے۔مسجد سے نکلتے ہوئے‘مکہ کے چارعرب شیوخ سامنے آگئے۔ میں نے انہیںپہلے چلنے کے لیے کہا‘وہ ڈٹ گئے۔بولے: ''علی الیمین‘آپ دائیں ہاتھ پر ہیں‘ پہلے آپ۔تعارف ہوا تو پتا چلا کہ ایک شیخ12سال پاکستان میں مقیم رہے ہیںاور ایبٹ آباد ان کا سسرال نکل آیا۔دوسرے شیخ کی بیگم صاحبہ کا تعلق رینالہ خورد سے ہے۔دونوں عمر میں مجھ سے کافی بڑے تھے۔میں نے از راہِ مذاق کہا:میں آپ کا سسرالی بزرگ ہوگیا اور آپ ہو گئے‘ میرے بچے۔اس بات کا سب نے بہت لطف لیا۔زور دارقہقہے لگائے۔ پھر نہ صرف گپ شپ ہونے لگی ‘بلکہ ٹیلی فون نمبرز بھی ایکسچینج کیے گئے۔یہ چاروں شیوخ بھی مدینے کے مسافر تھے ۔بچھڑتے وقت میں نے ان سے کہا: آج سے ہم دوست ہوگئے۔ان کے قافلہ سالار الشیخ ابوطارق بولے:ہم انشاء اللہ یومِ قیامت نبیِ کریمؐ کے ارد گرد اکٹھے ہوں گے۔مدینہ آنے سے پہلے ہی آقائے مدینہ کے نام کی سرشاری سے روح جھوم اُٹھی۔ہجرہ روڈ سے اتر کربلدیہ مدینہ کے انٹر چینج سے داخل ہوں تو بائیں ہاتھ پر مسجد ِقبا سامنے نظر آتی ہے۔اسلام کی اس پہلی مسجد کے مینار روضۂ رسولؐ کے میناروں سے مشابہ ہیں۔قبا روڈکے تیسرے کلومیٹرپرشہرِنبیؐ کے سب سے بڑے رائونڈ ابائوٹ کے کنارے دائیں ہاتھ پرمسجدِ بلالؓ واقع ہے۔ افریقی طرز تعمیرکی شاہکار مسجد دیکھ کریہ کیفیت طاری ہوتی ہے۔
عرش والے بھی سُنتے تھے جس کو‘کیا اذاں تھی اذانِ بلالی
بھردو جھولی میری یامحمد! لَوٹ کر میں نہ جائوں گا خالی
مدینہ شریف منطقۂ حجاز میں وادیوں کی سرزمین ہے۔آپؐ کی تشریف آوری سے پہلے یہ سرزمین یثرب کہلاتی تھی۔وادیٔ یثرب کے سامنے اُحد کا پہاڑ ہے۔میں نے اور میری فیملی نے بارہا یہاں دوچیزوں کا تجربہ کیا‘ آپ سے شئیرکرتا ہوں:پہلایہ کہ نبیِ کریم ﷺ کے عظیم چچا سیدناحضرت حمزہ ؓ کی مرقدِ منورہ پر اسلام علیک یاعم الرسول ؐکا، جب بھی سپاس بھیجا‘خوشبو کا جھونکا واپس آیا۔اس کے باوجود کہ اب وہاں پانچ فٹ سے اونچی دیوار۔ اس کے اوپرتقریباً پانچ فٹ کاجنگلہ اورشیشہ۔ دیوار سے تین فٹ دور رکھنے والی گرِل لگ چکی ہے۔پھر بھی سلام کے جواب میں معطرکُن خوشبو واپس آئی۔مدینہ منورہ کے اردگرد پہاڑ ہی پہاڑ ہیں‘لیکن اُحد کو آسان زبان میں ان وادیوں کے پہاڑوں کا آئیکون‘سردار یا لینڈ مارک کہا جاسکتا ہے۔میں نے کل بھی ظہر کے وقت دور کھڑے ہوکر ان پہاڑوں پر نظر دوڑائی۔میرا تجربہ پھر وہی نکلا‘کہ جس جگہ غزوہِ اُحد برپا ہوا وہاں سے اُحد کا رنگ باقی پہاڑ سے مختلف ہے‘جس کی وجہ مجھے معلوم نہیں‘مگرکوہِ اُحد کے بارے میں رسولِ پاکؐ نے ارشاد فرمایا کہ ہمیں اُحد سے محبت ہے اور اُحد کو ہم سے۔اُحد پہاڑ کے ساتھ ساتھ تقریباً 20کلومیٹر کے بعد ایک ٹی جنکشن آتا ہے‘جہاں سے ایک سڑک وادیِ جن کو مڑتی ہے اور دوسری وادیِ ہدہد کی جانب‘جو خاص بدوئوں کا علاقہ ہے۔اس علاقے کے ایک معروف قبیلے الحربی کے شیخ عمادالترکی گاڑی چلا رہے تھے۔اردگرد کی پہاڑیاں تازہ سبزے کی نمو سے بھری ہوئی تھیں۔شیخ حربی نے بتایا یہاں کے لوگوں کو پچھلے سال شدید خشک سالی کا سامنا رہا۔لوگوں نے اپنے اونٹ اونے پونے داموں پر بیچ کر گزارا کیا۔بعض حکام نے انہیں وادی چھوڑنے کا کہا اور ساتھ بتایا کہ آپ کی پوری مدد ہوگی‘لیکن بدو نہ مانے‘کہنے لگے: نئے سال کا ربیع الاول دیکھ کر فیصلہ کریں گے۔اللہ کا کرنا ایسا ہو اکہ ربیع الاول کی پہلی تاریخ کو مدینہ اور اس کے اردگرد وادیوں کو بارش نے جل تھل کردیا۔شیخ الحربی نے بتایا:ایسی بارش ان کی یاداشت میں پہلے کبھی نہیں برسی۔ابرِ رحمت‘ جس نے بدوؤں کی شدید زحمت میں مسیحائی کر دی۔
میں لجپالاں دے لڑ لگی ہاں‘ میرے توں غم پَرے رہنیدے
مری آساں اُمیداں دے‘ سدا ٹُھوٹھے بھرے رہیندے