کچھ ابدی قوانین ہیں‘ جن کی پاسداری میں رفعت و بالیدگی اور انحراف میں پستی و پامالی ہے۔ مگر ہمیں ان سے کیا۔ ہم پہاڑ ایسی عقلوں کے حامل ہیں اور ان پہاڑوں تلے سسک رہے ہیں۔
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
احتیاطاً ایک بار پاکستان ٹیلی ویژن لاہور کے دفتر کا رخ کیا۔ یہ سمجھنے کی کوشش میں کہ کارکن کیا سوچتے ہیں۔
غسل خانے میں صابن کی ایک ٹکیہ تک نہیں تھی۔ ایک صاحب اتفاق سے موجود تھے‘ ان سے پوچھا تو حیرت سے انہوں نے میری طرف دیکھا: یہ کون احمق ہے جو پی ٹی وی کے غسل خانے میں صابن ڈھونڈ رہا ہے۔
تین چار ذمہ دار آدمیوں سے بات ہوئی۔ سب کے سب دل شکستہ اور یکسر مایوس۔ کہانیاں بہت سے لوگوں نے سنائیں۔ ایک سے ایک دل خراش۔ اس سوال کا جواب مگر کسی کے پاس نہ تھا کہ کیا اس مردے کو زندہ کیا جا سکتا ہے۔
ایم ڈی ارشد خان سے بہت دیر گفتگو کی۔ وہ ایک شائستہ آدمی ہیں۔ شہرت ان کی اچھی ہے۔ بہت تحمل سے سنتے رہے مگر یہ نہ بتا سکے کہ ان کا لائحہ عمل کیا ہوگا۔ بس یہ کہتے رہے : ہاں ہاں‘ آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ یہ ایک بہت ہی مشکل کام ہے۔ اپنی سی کوشش میں کر رہا ہوں۔ ایک ماہ ہی تو ہوا ہے۔ امید ہے کہ دھاگے کا سرا ہاتھ آ جائے گا۔
ان سے عرض کیا کہ لا محدود وسائل کے باوجود‘ سات آٹھ ہزار کارکنوں کے باوجود‘ برسوں سے پی ٹی وی‘ اپنا ایک پروگرام بھی خود نہیں بناتا۔ بازار سے خریداری کرتا ہے۔ آخر کیوں؟
عرض کیا: کیا یہ درست ہے کہ اعلیٰ مناصب پہ نالائق‘ سفارشی لوگ مسلط ہیں؟... انہوں نے اس سے اتفاق کیا۔
دنیا کا شاید یہ واحد ادارہ ہے‘ جہاں غیر متعلق لوگ وہ فرائض سر انجام دیتے ہیں‘ جس کی انہیں تربیت نہیں دی گئی۔ دو تین عشرے پہلے‘ جو لوگ مالی‘ یا کلرک بھرتی ہوئے تھے‘ اب وہ پروڈیوسر بن چکے ہیں۔ ایک سٹیشن کے جنرل منیجر وہ صاحب ہیں جو کبھی فلم دھونے کے لیے رکھے گئے تھے۔لاہور کا جنرل منیجر کبھی سٹینو گرافر تھا۔
ارشدخان صاحب سے پوچھا: پی ٹی وی سے نشر ہونے والے حالاتِ حاضرہ کے میزبانوں کے بارے میں وہ کیا کہتے ہیں‘ ایک آدھ کے سوا کیا سب کے سب نا اہل نہیں۔ اس سے بھی انہوں نے اتفاق کیا۔ کرپشن ہے اور دھڑلے سے کی جاتی ہے۔اس پر وہ خاموش رہے۔
آخر کو گزارش کی: کم از کم آٹھ اور دس بجے کے لیے اہل لوگ تلاش کر لیں۔ اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے لیے یہ مشکل وقت ہے۔ اشتہارات حکومت نے بند کر رکھے ہیں۔ آسانی سے ‘کم معاوضے پر ڈھنگ کے میزبان مل جائیں گے۔ اثبات میں انہوں نے سر ہلایا مگر مزید کچھ کہنے سے گریز کیا۔
ایک آدھ دن میں نہیں‘ ریلوے‘ پی آئی اے اور سٹیل ملز کی طرح‘ رفتہ رفتہ یہ ادارہ اس حال کو پہنچا ہے۔ کوئی زمانہ تھا کہ اس پورے خطے میں پی ٹی وی کے ڈرامے مثال کے طور پر پیش کیے جاتے تھے۔ پھر ایک کے بعد دوسری حکومت نے سفارشی بھرتی شروع کی۔ ہوتے ہوتے وہ ایک عبرت کدہ بن گیا۔ کبھی طلعت حسین اور کامران شاہد ایسے لوگ پی ٹی وی سے وابستہ تھے۔طلعت حسین تو خیر کفایت شعاری کی نذر ہو گئے ؛ چونکہ تحریک انصاف کے ناقد ہیں؛ چنانچہ دن رات دشنام سہتے ہیں۔
رضا شاہ پہلوی کے دور میں‘ ایک ایرانی شاعر نے کہا تھا: یہ مردانِ شجاع و دلیر کی موت کا موسم ہے۔ پاکستانی سیاست میں یہ کردار کشی کا موسم ہے۔ دنیا کی تاریخ میں شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہوگا کہ اپنے سیاسی حریفوں کے علاوہ ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں نے‘ اخبار نویسوں کے لیے گالی بریگیڈ میدان میں اتارے ہوں۔ قدیم عرب ہجو کے عادی تھے مگر ایسی سفاکی کا مظاہرہ‘ شاید وہ بھی نہ کر سکے ہوں۔ کیا تحریک انصاف اور نون لیگ کے قائدین کرام کو کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ ایک دن‘ اس دنیا سے انہیں رخصت ہونا اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔
پی ٹی آئی کے مخالفین میڈیا سے خاص طور پہ نفرت کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کو بتایا گیا ہے کہ اخبار نویس پرلے درجے کے غیر ذمہ دار اور بدعنوان ہوتے ہیں۔ 90‘ 95 فیصد۔ یہ آزاد میڈیا اگر موجود نہ ہوتا تو کیا عمران خان ملک کے وزیراعظم بن سکتے؟ اس سوال پر غور کرنے والا کوئی نہیں۔ جنون کو سوچ بچار سے کیا واسطہ!
پروگرام بنانے والے پروڈیوسروں کی تعداد 102 واقع ہوئی ہے۔ ٹی وی کے لیے ایک منٹ کا پروگرام کا بھی وہ تخلیق نہیں کرتے۔ ان میں سے اکثر اس قابل ہی نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ لاشوں سے بھرا ایک میدان ہے‘ ان گنت گدھ ہمہ وقت جنہیں نوچتے رہتے ہیں۔
صرف پی ٹی وی کے اسلام آباد صدر دفتر میں ایک ہزار ملازمین براجمان ہیں۔ ان میں سے اکثر ہاتھ پہ ہاتھ دھڑے بیٹھے رہتے ہیں۔ وہ اُکتا کیوں نہیں جاتے؟ بیزار کیوں نہیں ہوتے؟ زندہ لوگوں کی طرح جینے کی خواہش ان کے دلوں میں کبھی پیدا نہیں ہوتی؟
کہا جاتا ہے کہ بہت سوں کی ڈگریاں جعلی ہیں۔ یہ لوگ سبکدوش کیوں نہیں کر دیئے جاتے ہیں۔ دس پندرہ فیصد بچت تو اسی سے ہو جائے۔ ارشد خان سے یہ سوال کیا گیا۔ انہوں نے کہا: کئی سو نکال دیئے گئے‘ باقیوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے ''لیکن یہ ایک مشکل کام ہے‘‘۔ یہ ارشد خان صاحب کا تکیہ کلام ہے ''لیکن یہ ایک مشکل کام ہے‘‘۔
کوئی زوال سا زوال ہے۔ کبھی یہ تخلیق کاروں کی جنت تھا۔ پی ٹی وی کے ڈرامے بھارت کی آرٹ فلموں سے بہتر سمجھے جاتے۔ موسیقی کے پروگرام دنیا بھر میں اپنی مثال آپ تھے۔ ایسے ڈرامے بھی تھے کہ نشر ہونے کا وقت آتا تو بڑے بڑے شہروں کی سڑکیں ویران ہو جاتیں‘ جیسے امجد اسلام کاوارث جو ایک کلاسیک کا درجہ رکھتا ہے۔ اشفاق احمد مرحوم کے ڈرامے‘ جو عرق ریزی سے لکھی عبارتوں کی طرح مقدس اور معتبر سمجھے جاتے۔ منو بھائی‘ معاشرے کے غموں اور مسرّتوں کے مصوّرتھے۔ ''سونا‘‘ اور ''چاندی‘‘ ایسے کردار انہوں نے متعارف کرائے‘ جو آج بھی زندہ ہیں اور زمانوں تک زندہ رہیں گے۔یاور حیات اور قنبر علی شاہ جیسے ہدایت کار اس ادارے نے پیدا کئے‘ دنیا کے بہترین ہدایت کاروں سے‘ جن کا موازنہ کیا جاتا۔اپنی زندگیوں ہی میں جو لیجنڈ ہو گئے۔عابد علی، عظمیٰ گیلانی ، منور سعید اورافضال احمد ایسے اداکار ۔ آج بھی سکرین پہ جگمگائیں تو خوابیدہ سپنے جاگ اٹھتے ہیں۔ بیتے دنوں کی سنہری یادیں یلغار کرتی ہوئی آتی ہیں۔
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
جیسے صحرائوں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے
رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ پی ٹی وی کو زندہ رکھنے کے لیے‘ بجلی کے ہر بل پہ بھتہ وصول کیا جانے لگا۔ رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ اوّل یہ محمد مالک اور پھر عطاء الحق قاسمی کو سونپ دیا گیا۔ قاسمی صاحب کے بارے میں اظہار خیال سے گریز تھا کہ حالات کے مارے ہیں۔ کل ان کے ارشاد نے حیرت زدہ کر دیا ''میاں صاحب سے میں محبت کرتا تھا‘ آج بھی کرتا ہوں اور آئندہ بھی کرتا رہوں گا‘ نتیجہ خواہ کچھ بھی ہو‘‘ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
کچھ ابدی قوانین ہیں‘ جن کی پاسداری میں رفعت و بالیدگی اور انحراف میں پستی و پامالی ہے۔ مگر ہمیں ان سے کیا۔ ہم پہاڑ ایسی عقلوں کے حامل ہیں اور ان پہاڑوں تلے سسک رہے ہیں۔
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو