تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     08-12-2018

صلاحیتیں یہ اور بات ریاستِ مدینہ کی

ہم اُمتی ہیں لیکن گناہگار اُمتی۔ خباثتیں ہم میں کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی ہیں۔ ہمارے گناہ کرنے کے طریقوں میں بھی کوئی لذت نہیں۔ چھوٹی چھوٹی چالاکیاں کرنا ہمارے خمیر کا حصہ بن چکا ہے۔ واردات ڈالتے بھی ہیں تو بھاری منافقت کے لبادے کے پیچھے۔ ایک عرشی ریاست یہاں کیا بننی ہے۔ ہمارے لئے تو یہی بہت ہو کہ ایک نارمل ریاست بن جائے۔ 
نارمل ریاست کا مطلب کیا ہے؟ جنون بہت اعلیٰ قدر ہے ۔ اِس کے بغیر کوئی تخلیقی کام نہیں ہو سکتا۔ نہ موسیقی ممکن ہے نہ مصوری۔ نہ ہی آسمانوں کے راز دریافت کرنے کی جستجو پیدا ہو سکتی ہے ۔ لیکن ہمارے معاشرے کا جنون ایک اورہی نوعیت کا ہے ۔ تخلیقی کاموں والے جنون کی بجائے جہالت اور بند ذہنوں سے پیدا ہونے والا جنون ہر طرف دیکھا جا سکتا ہے۔ ایسی چیزیں جو اور معاشروں میں کوئی اہمیت نہ رکھیں ہمارے ہاں زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتی ہیں۔ پھر چیخنے چلانے کا ایسا سلسلہ شروع ہوتاہے کہ عقل نام کی بات کرنا ناممکن ہو جائے۔ جنون کا نام تو ایسی کیفیت کو دینا ہی نہیں چاہیے ۔ یہ تو ایک وحشت کا عالم ہے جو معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے ۔
پہلی شرط تو پھر نارمل معاشرے کی یہ ہے کہ ایسی وحشت سے نجات پائی جائے ۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب حادثاتِ زمانہ کی بدولت بنے حکمرانوں میں تھوڑی سی ہمت ہو ۔ یہاں تو مخصوص طبقات کی طرف سے چند نعرے لگتے ہیں اور حکمران دبک کے رہ جاتے ہیں۔ آسیہ بی بی کے کیس میں خرابی کی شروعات اُن دو اَن پڑھ خواتین‘ جنہوں نے اس پہ الزام لگایا‘ سے نہیں ہوئیں۔ خرابی کے اصل ذمہ دار وہ مقامی پولیس افسران تھے جو نہ عقل سے کام لے سکے نہ معمولی ہمت دِکھا سکے۔ ہمارا ایک ناخواندہ معاشرہ ہے اور ہمارے دیہاتوں میں خاصی رجعت پسندی پائی جاتی ہے۔
ایسے میں سنگین الزامات کا لگنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ اصل بیماری تب شروع ہوتی ہے جب ایسے مقدموں میں جو مناسب جانچ پڑتال پولیس کو کرنی چاہیے وہ نہیں ہوتی اور سینئر پولیس افسران بھی اپنی ذمہ داریوں سے راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔ پھر ہمارے بعض وکلا صاحبان رسمِ شہنشاہی کے پیکر بن چکے ہیں۔ کوئی بھی لا یعنی بات ہو آپ کو ایک ٹولہ مل جائے گا جو اُس کے دفاع میں کھڑ ا ہو جائے۔ بات دلائل اور قانون تک نہیں رہی ،گریبان پکڑنا اور مکا بازی تک نوبت آچکی ہے۔ جونیئر جج صاحبان بھی گھبرا جاتے ہیں اور پولیس افسران کی طرح وہ بھی راہِ فرار ڈھونڈتے ہیں۔ پھر جو مسئلہ کم علمی اور کم سمجھی سے شروع ہوا ہو وہ پاکستان کیلئے بین الاقوامی دردِ سر بن جاتا ہے ۔ شکر کا مقام ہے کہ سینئر ترین جج صاحبان نے ایسے ماحول میں ڈھلنے کی بجائے اپنے آپ کو اِس سے آزاد رکھا ہوا ہے۔ 
نارمل ریاست کی دوسری شرط جنرل ضیاء الحق کی مصنوعی اسلامائزیشن سے پاکستان کو آزاد کرانا ہے۔ جنرل موصوف دینی رجحانات تو رکھتے تھے لیکن وہ بڑے گہر ے سیاستدان بھی تھے اور اسلام کو اُنہوں نے ایک سیاسی حربے کے طور پہ استعمال کیا۔ بہت سارے قوانین جو اُنہوں نے پاس کرائے اُن کے پیچھے جذبہ اسلامی کم اور مصلحت پسندی زیادہ کارفرما تھی ۔ وہ چلے گئے لیکن اُن کے بنائے قوانین پیچھے رہ گئے ۔ اِن قوانین کی وجہ سے معاشرہ بہتر ہو جاتا تو اور بات تھی ۔ پھر تو بحث کی گنجائش نہ رہتی ۔ لیکن جنرل ضیاء کے مصنوعی اسلامی قوانین کی وجہ سے سب سے بڑا نتیجہ منافقت کے پھیلاؤ کی صورت میں نکلا۔ ہم بہتر مسلمان نہ ہوئے، بس ہماری سطحی اداکاری میں زبردست اضافہ دیکھنے میںآیا۔ جسے ہم گناہ سمجھتے ہیں اُس کا ارتکاب رہا لیکن پردے کے پیچھے ۔ کئی وجوہات کی بناء پہ مالی بدعنوانی اورکرپشن بھی بڑھ گئی ۔ لیکن مملکتِ خداداد میں حالت یہ بن چکی ہے کہ رشوت اور مالی بدعنوانی کو گناہ سمجھا ہی نہیں جاتا۔ جو سرکار کا ملازم ہو اور کرپشن میں ہاتھ اُس کے نہ رنگے ہوں عموماً اُسے بیوقوف ہی سمجھا جاتا ہے ۔ 
حدود آرڈیننس کے بارے میں تو اِن سطور میں بارہا لکھا جا چکا ہے کہ یہ مصلحت کے تحت اور سعودیوں کو خوش کرنے کیلئے نافذ کیا گیا تھا۔ اِس سے معاشرے میں کوئی بہتری نہیں آئی، پولیس کا رشوت کا لیول بڑھ گیا۔ پہلے بھی شراب نوشی کے حوالے سے قانون تھا۔ لیکن اگر جرم سمجھا بھی جاتا تو قابلِ ضمانت تھا۔ یعنی آپ دھرے بھی گئے تو تھانے میں شخصی ضمانت آپ کی ممکن تھی ۔ حدود آرڈیننس کی وجہ سے یہ سنگین نوعیت کا جرم قرار پایا۔ ظاہر ہے ایسا ہتھیار پولیس کے ہاتھوں آئے تو اضافہ رشوت کے نرخوں میں ہی ہوتا ہے ۔ جنرل پرویز مشرف کو سنہری موقع تھا کہ اِس قانون کے بارے میں کچھ کرتے ۔ اقتدار کے پہلے دو تین سالوں میں سیاہ و سفید کے مالک تھے اور کوئی خاطر خواہ اپوزیشن نہ تھی ۔ لیکن اُن کی کوئی وسیع نظر نہ تھی ۔ بہت سے مواقع ہاتھ سے گنوا بیٹھے اور پھر تحریکِ وکلاء اور تحریک بحالی چیف جسٹس اُن کے گلے ایسی پڑی کہ اُن کے اقتدار کا سورج ڈھلنے لگا۔ 
احسن طریقہ اِس مسئلے کے حل کیلئے یہ ہو سکتا ہے کہ جیسے لوہا لوہے کو کاٹتا ہے تو منافقت استعمال کرتے ہوئے منافقت کا مقابلہ کیا جائے۔ یعنی یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم جنرل ضیاء کے تمام قوانین کا از سر نو جائزہ لینا چاہتے ہیں تاکہ صحیح معنوں میں اسلامی قوانین نافذ کیے جائیں ۔ اس ہلے میں حدود آرڈیننس کی قطع و برید ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ باہمت حکمران ہی کر سکتے ہیں۔ یہ جو ریاستِ مدینہ کا آئے روز دعویٰ کرتے ہیں یہ تو مضحکہ خیز کاموں میں پھنسے رہنے کے جوہر دِکھا رہے ہیں۔ اِن سے بڑے فیصلے کہاں ہونے ہیں۔ بڑے فیصلوں کی صلاحیت ہوتی تو اِن پہلے 100 دنوں میں اِس کی جھلک نظر آ جاتی ۔ ایسا نہیں ہوا۔ ریاستِ مدینہ کے دعوے ہم مزید سُنتے جائیں گے لیکن اِن لوگوں سے کچھ نہیں ہو گا۔ اسلامی دنیا میں ایک ہی اَتاترک پیدا ہوا جس میں ہمت تھی کہ ببانگِ دہل اور بغیر کوئی چیز چھپائے بڑے سے بڑا فیصلہ کرتے ۔ لیکن اَتاترک کہاں اور چھوٹے قد کے ہمارے مداری کہاں۔ 
یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اِس ایک حدود آرڈیننس قانون کے خاتمے سے پاکستان کی شکل بدل جائے۔ نفسیاتی اَثر اِس کا ایسا ہو کہ معاشرے کی رفتار تیز ہو جائے۔ ہم کرتے ہر چیز ہیں لیکن چوروں کی مانند۔ ریاستِ مدینہ تو بہت اُونچی بات ہے اور ہم گناہگاروں کی دسترس اور صلاحیتوں سے باہر ۔ وہ پرانا پاکستان ہی مل جائے جو 1977ء کی نام نہاد اسلامی تحریک سے پہلے موجود تھا‘ وہی بہت بڑی بات ہو۔ یہ کوئی تصوراتی چیز نہیں۔ وہ پاکستان گناہگار آنکھوں نے دیکھا تھا اور وہ پاکستان آج کی منافقت میں کوٹے پاکستان سے بدرجہا بہتر تھا۔ 
عمران خان تو اپنی جوانی دیکھ چکے ہیں ۔ جو اِن کے کارنامے رہے ہیں عام آدمی اُن پہ رشک ہی کر سکتا ہے ۔ لیکن یہ کیا ہوا کہ جب عمر کے اِس حصے میں داخل ہوئے تو نصیحت اور تبلیغ کو اپنا شعار بنا لیا۔ ہو کچھ نہیں رہا لیکن ہر موقع پہ نعرہ لگتا ہے ریاستِ مدینہ کا ۔ یہ تو بالکل ایسا ہی ہے جیسے ہمارے دیہات کے بزرگ زندگی بھر کی چالاکیوں سے فارغ ہوکر کہتے ہیں کہ 'ہن اگلے جہان دَا وِی سوچیے‘۔ عمران خان چھوٹی چیزوں سے نکلیں اور کچھ بڑے فیصلے کرنے کی ہمت دکھائیں۔ یکساں نظام تعلیم کا نعرہ ایک مذاق بن کے رہ گیا ہے ۔ اِس کے بارے میں کچھ کرسکتے ہیں تو کریں ورنہ اِتنی تو مہربانی کریں کہ اِس کا استعمال ترک کردیں۔ ہندوستان میں معیارِ تعلیم ہمارے سے بہتر ہے۔ وہاں 1964ء میں O اور A لیول کے امتحان ختم کر دئیے گئے تھے۔ یہاں اَب تک رائج ہیں اور وزیر اعظم کہتے نہیں تھکتے کہ نوآبادیاتی ذہنیت سے چھٹکارا پانا چاہیے۔ نعرے اپنی جگہ ، کچھ کرکے بھی دکھائیے۔ وزیراعظم خود نوآبادیاتی نظام کی پیداوار ہیں۔ ایچی سن کالج کسی میانوالی کے بزرگ نے نہیں بنایا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی جہاں سے وہ فارغ التحصیل ہوئے کوئی دینی مدرسہ ہے؟ اُن کا ہیرو ملائیشیا کے مہاتیر محمد بھی نوآبادیاتی نظام کی پیداوار ہیں۔ اُن کی تعلیم بھی اُسی ماحول میں ہوئی ۔ سنگاپور کے لی کوآن یو بھی اُسی ماحول سے آئے۔ وزیر اعظم کو سطحی باتوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ یہ پہلے ہی بڑی کنفیوز قوم ہے۔ اِسے مزید کنفیوز نہ کریں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved