تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     08-12-2018

افغانستان میں امن کی نئی کوشش

اقوام متحدہ کے مشن برائے افغانستان کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان کی جنگ میں اکتوبر 2001ء سے لے کر اگست 2018ء تک تقریباً 20 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں شہری شامل ہیں اور امریکہ، نیٹو اور افغان نیشنل آرمی و پولیس کے جوان بھی۔ ویسے تو اس ملک میں ہر سال جانی اور مالی نقصان میں اضافہ ہوتا چلا آ رہا ہے مگر اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے پہلے چھ ماہ میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 1692 ہے۔ اس وسیع جانی نقصان کے دو بڑی وجوہ بیان کی جاتی ہیں۔ پہلی‘ طالبان کے حملے اور دوسری‘ خودکش دھماکے۔ اس کے ساتھ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ افغانستان میں طالبان دھیرے دھیرے اپنے اثر و رسوخ کو وسعت دے رہے ہیں۔ اس وقت ملک کا تقریباً 70 فیصد حصہ اُن کی براہ راست زد میں ہے۔ بالفاظِ دیگر صدر اشرف غنی کی حکومت کی رٹ ملک کے صرف ایک تہائی حصے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ کابل اور افغانستان کے بڑے شہروں میں خودکش حملوںمیں وسیع جانی نقصان ہوا ہے اور افغان فوج اور پولیس کے سینکڑوں سپاہی طالبان کے حملوں میں جاں بحق ہو چکے ہیں۔ افغانستان کی اس تیزی سے بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قیام امن کی کوششوں کو تیز کر دیا ہے۔ ٹرمپ کی ہدایت کے تحت افغانستان کیلئے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد‘ جو افغانستان میں امریکی سفیر بھی رہ چکے ہیں‘ نے حال ہی میں پاکستان کا دورہ کیا اور پاکستانی حکام سے بات چیت کی ۔
زلمے خلیل زاد اس سے قبل بھی جنوبی ایشیا کا دورہ کر چکے ہیں‘ مگر اس میں پاکستان شامل نہیں تھا۔ وہ صرف قطر اور افغانستان میں رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کر کے واپس چلے گئے تھے۔ لیکن اس دفعہ وہ پاکستان کے علاوہ روس، ازبکستان، ترکمانستان، بیلجیم، متحدہ عرب امارات اور قطر کا بھی دورہ کر رہے ہیں۔ 2دسمبر کو پاکستان آنے سے پہلے مسٹر خلیل زاد افغانستان کا دورہ کر چکے تھے۔ گزشتہ کچھ عرصے میں افغانستان کا مسئلہ حل کرنے کے سلسلے میں متعدد بار کوششیں ہو چکی ہیں۔ ان کوششوں میں امریکہ، پاکستان اور افغانستان کے علاوہ روس، چین اور وسطی ایشیا میں افغانستان کی ہمسایہ ریاستیں بھی حصہ لے چکی ہیں‘ لیکن خلیل زاد کے اس دورے کو خصوصی اہمیت بخشنے والی تین ایسی وجوہ ہیں جن کا اس سے پہلے وجود نہیں تھا اور اُن کی بدولت اس کوشش کے کسی نہ کسی حد تک بار آور ہونے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ ان میں سب سے پہلے مسٹر خلیل زاد کا اپنا بیان ہے‘ جس میں انہوں نے قوی امید کا اظہار کیا کہ آئندہ سال افغانستان کے صدارتی انتخابات یعنی اپریل تک افغانستان میں جنگ بند ہو جائے گی۔ انہوں نے اپنے دعوے کے حق میں یہ دلیل دی کہ افغانستان کی جنگ میں متحارف فریق یعنی افغان اور امریکی افواج اور طالبان جنگ سے اکتا چکے ہیں اور دونوں کو یقین ہے کہ وہ میدانِ جنگ میں ایک دوسرے کو نیچا نہیں دکھا سکتے۔ دوسرا اہم عنصر یہ ہے کہ زلمے خلیل زاد کی آمد سے قبل امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کو ایک خط بھیجا گیا‘ جس میں نہ صرف افغانستان میں پاکستان کے مثبت اور تعمیری کردار کی، بلکہ زلمے خلیل زاد کے ساتھ تعاون کی بھی درخواست کی گئی ہے۔ ٹرمپ نے خط میں کہا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان آئندہ مختلف شعبوں میں تعاون اور شراکت کا انحصار، افغانستان میں پاکستان کے تعاون پر ہے۔ 
پاکستان کی طرف سے پہلے ہی ایسے متعدد اقدامات کیے جا چکے ہیں جو نہ صرف افغانستان میں جنگ کے اختتام کیلئے ممد و معاون ثابت ہو سکتے ہیں بلکہ پاکستان کے رویے میں ایک اہم تبدیلی کی نشان دہی بھی کرتے ہیں۔ مثلاً چند دن ہوئے‘ پاکستان نے اپنی جیل سے ملا عبدالغنی، المعروف ملا برادر کو دو اور ساتھیوں سمیت رہا کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان نے ان سابق طالبان رہنماؤں کو قطر میں افغان طالبان کے نمائندہ آفس کی درخواست پر رہا کیا ہے اور اس کا مقصد ان لوگوں کے ہاتھ مضبوط کرنا ہے جو مذاکرات کے ذریعے افغانستان کی 17سالہ جنگ کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان نے ان کی خواہش پر نہ صرف طالبان رہنماؤں کو آزاد کیا، بلکہ انہیں افغانستان یا کسی اور جگہ آنے جانے کی مکمل آزادی بھی دی۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان نے دوہا (قطر) میں مقیم افغان طالبان کے اُن رہنماؤں سے رابطوں اور ملاقاتوں کا سلسلہ نہ صرف جاری رکھا ہے، بلکہ اُس میں اضافہ بھی کیا ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں میں قطر میں مقیم افغان طالبان رہنماؤں اور پاکستانی حکام کے درمیان اسلام آباد میں کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ غیر ملکی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق زلمے خلیل زاد کی پاکستان میں آمد کے موقعہ پر بھی قطر سے افغان طالبان کا ایک تین رکنی وفد اسلام آباد میں موجود تھا۔ ان میں سے بعض افراد، سابق طالبان دور حکومت میں اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ ان رہنماؤں نے اسلام آباد میں اپنی موجودگی کو اگرچہ ''نجی‘‘ نوعیت کا قرار دیا‘ لیکن اس سے کم از کم ایک بات ضرور ثابت ہوتی ہے کہ پاکستان اور قطر میں افغان طالبان کے نمائندہ آفس کے عہدیداروں کے درمیان ملاقاتوں اور صلاح مشوروں کا سلسلہ کافی عرصہ سے جاری ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان اور افغان طالبان کے اُس دھڑے کے درمیان رابطوں کا باقاعدہ سلسلہ آگے بڑھ رہا ہے جو افغان جنگ کا پرامن حل چاہتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ ماہ دوہا میں امریکی اور افغان طالبان کے درمیان بات چیت کے انعقاد اور پھر طالبان کی طرف سے اس بات چیت کو آئندہ بھی جاری رکھنے پر رضامندی میں پاکستان کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو یہ افغانستان کے مسئلے پر اور افغان طالبان کے بارے میں پاکستان کے رویے میں ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان اب پوری سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ افغانستان کے مسئلے پر افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگرچہ سرکاری طور پر اب بھی پاکستان کا موقف یہی ہے کہ افغان طالبان اپنی مرضی کے مالک ہیں اور پاکستان کو ان کی پالیسی اور کارروائیوں پر کوئی کنٹرول نہیں اور نہ ہی پاکستان اُن کو مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کر سکتا ہے، تاہم وہ مختلف طریقوں اور رابطوں کے ذریعے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ابھی ان رابطوں اور کوششوں کو صیغہ راز میں رکھا جا رہا ہے اور اس کی غیر ضروری پبلسٹی نہیں کی جا رہی؛ تاہم صدر ٹرمپ کی طرف سے وزیراعظم عمران خان کے نام خط اور زلمے خلیل زاد کی پاکستان آمد سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان، افغانستان، امریکہ اور طالبان کے درمیان مشاورت کے نتیجے میں افغانستان پر مذاکرات کے انعقاد کیلئے کئی اہم نکات پر اتفاق ہو چکا ہے۔ اسی طرح افغان حکومت کی طرف سے یہ بیان کہ صدر اشرف غنی کی حکومت طالبان کے ساتھ غیر مشروط بات چیت کیلئے تیار ہے، بھی ایک اہم پیش رفت ہے اور اس بیان کو امریکہ کی بھی حمایت حاصل ہوگی۔ 
ان حالات و واقعات کی روشنی میں افغانستان کے مسئلے کے حل کیلئے ایک اہم پیش رفت کے امکانات زیادہ روشن نظر آتے ہیں کیونکہ ماضی کی کوششوں کے برعکس موجودہ کوشش زیادہ سنجیدہ اور جامع نظر آتی ہے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ امریکی اب افغانستان پر ایک فیصلہ کن اور حتمی پیش رفت کے خواہاں ہیں اور وہ اس کے حصول کیلئے پاکستان سمیت، افغانستان کے دوسرے ہمسایہ ممالک مثلاً ازبکستان، ترکمانستان اور روس کو بھی اپنے ساتھ شامل کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں امریکہ نے افغان مسئلے کے حل کیلئے علاقائی اپروچ کی اہمیت اور افادیت کو تسلیم کر لیا ہے۔ پاکستان نے بھی ان کوششوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ افغانستان میں خانہ جنگی کی آگ کے شعلے زیادہ بلند ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ آگ کے یہ شعلے افغانستان اور اس کے ہمسایہ ممالک کے امن کو خاکستر کرنے کے علاوہ پورے خطے کی سلامتی کو بھی خطرہ میں ڈال سکتے ہیں۔ اس خطرے سے بچنے کیلئے امریکہ اور پاکستان نے کوششیں تیز کر دی ہیں لیکن ان کوششوں کا فوری نتیجہ برآمد ہونے کا امکان نہیں‘ کیونکہ افغان طالبان اب بھی کابل حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے انکار اور امریکہ کے ساتھ ڈائریکٹ بات چیت پر اصرار کر رہے ہیں اور انہیں مذاکرات کی ایک ایسی میز پر بٹھانا جہاں افغان حکومت کے نمائندے بھی موجود ہوں، ناممکن نہیں تو مشکل ضرور نظر آتا ہے؛ تاہم افغان طالبان پر لچک دار رویہ اختیار کرنے کیلئے بین الاقوامی برادری کی طرف سے برابر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ اس لئے زلمے خلیل زاد کے دعوے کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved