گیس اور تیزابیت بہت ہے
سوال: کافی عرصے سے تیزابیت کی شکایت ہے۔ کھٹے ڈکار بھی آتے ہیں۔ گلے کی نالی میں جلن بھی ہوتی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں۔ مشورہ دیجیے۔
جواب: گیس تو اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے‘ بہتر ہے کہ اس سے کوئی تعمیری کام لیں‘ مثلاً چولہا وغیرہ جلانے کے کام میں لے آئیں اور ایندھن کی بچت کریں۔ تیزاب بھی کوئی ایسی بُری چیز نہیں۔ کٹھے ڈکار تو ویسے ہی بہت چٹ پٹے ہوتے ہیں‘ ان سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کریں‘ یعنی زندگی کے بارے میں مثبت رویہ اختیار کرنا سیکھیں۔ گلے کی نالی کی بھل صفائی کرواتے رہنا بھی مفید رہے گا۔
پتلے پاخانے
سوال: ڈاکٹر صاحب‘ میری عمر تقریباً 60سال ہے۔ پانچ سال سے مجھے پتلے پاخانے آتے ہیں۔ ہر کھانے کے بعد لیٹرین جانا پڑتا ہے۔ مجھے کیا کرنا چاہئے؟
جواب: 60سال کی عمر میں پتلے پاخانوں کا خیال دل سے نکال دیں۔ علاوہ ازیں‘ پانی پینا بند کر دیں تاکہ پاخانوں کو پتلا ہونے کا موقع ہی نہ ملے۔ بلکہ پانی کی بجائے گاڑھی لسّی استعمال کریں تاکہ بلغم‘ نزلہ‘ زکام اور کھانسی وغیرہ آپ کی جملہ مشکلات کو آسان کر سکیں اور پاخانوں کے ساتھ ساتھ آپ کی حالت بھی مزید پتلی ہو سکے کیونکہ گاڑھی حالت سے پتلی حالت کئی درجے بہتر ہوتی ہے۔ لیٹرین جانے سے گھبراتے ہوں تو باہر کھیتوں وغیرہ میں چلے جایا کریں جس سے تبدیلیٔ آب و ہوا بھی میسر آئے گی۔ بلکہ مزید سہولت کی خاطر کھیتوں ہی میں رہائش اختیار کرلیں تو بہتر ہے۔
پرانی کھانسی
سوال: مجھے بہت پرانی کھانسی کی شکایت ہے۔ بہت علاج کروا چکا ہوں مگر افاقہ نہیں ہوا‘ پریشان ہوں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں۔
جواب: کھانسی کا سمجھ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں‘ خاص طور پر پرانی کھانسی کا۔ بہتر تھا کہ پرانی ہونے سے پہلے ہی اس کا علاج کروا لیتے۔ اب تو نیا نو دن پرانا سو دن‘ والا معاملہ ہو چکا ہے۔ پہلے یہ معلوم کریں کہ کھانسی کالی ہے یا گوری۔ اگر یہ کتا کھانسی ہے تو اور کچھ ہو نہ ہو‘ یہ آپ کو وفادار ضرور بنا دے گی‘ اور مجبوراً کتے کی موت بھی مرنا پڑے گا۔ خشک کھانسی کے لیے گلے کو چوبیس گھنٹے تر رکھنا بے حد ضروری ہے۔ کٹھی چیزوں سے پرہیز کریں مثلاً کھٹے ڈکار وغیرہ۔ جی بھی کھٹا نہ ہونے دیں۔
بال گرتے ہیں
سوال: ڈاکٹر صاحب میرے بال تیزی سے گرنا شروع ہو گئے ہیں ‘جس سے سر چھوٹا اور پیشانی بڑی ہو گئی ہے۔ بہت علاج کرایا‘ کوئی افاقہ نہیں ہوا۔
جواب: یہ تو خوش قسمتی کی نشانی ہے۔ اگرچہ فی الحال یہ اُن ڈاکٹروں کی خوش قسمتی ہے جن سے آپ اپنے گنج کا علاج کرواتے رہے ہیں۔ زیادہ تر بال کنگھا یا بُرش کرنے سے گرتے ہیں‘ اس لیے یہ دونوں چیزیں استعمال کرنا چھوڑ دیں۔ سر دھونا بھی ترک کرنا ہوگا اور سر کو مستقل طور پر کسی ٹوپی میں محفوظ کر لیں اور ہوا بھی نہ لگنے دیں۔ بچے کھچے بال میل کچیل سے آپس میں جُڑے رہیں گے اور گرنا بند ہو جائیں گے۔ ہر خطرناک چیز سے بال بال بچنے کی کوشش کریں اور بال کی کھال نکالنے سے بھی باز رہیں۔
کیل مہاسے
سوال: ڈاکٹر صاحب‘ میں کیل مہاسوں سے بہت تنگ ہوں۔ رنگ بھی کالا پڑ گیا ہے۔ اسے سفید کرنے کا کوئی آسان نسخہ بتائیں‘ اب تو میرا میاں بھی مجھ سے دُور رہنے لگا ہے۔
جواب: چہرے کو سفید کرنے کا آسان اور سستا نسخہ تو یہ ہے کہ اس پر ہلکی ہلکی سفیدی پھیر لیا کریں‘ صبح و شام ایک ایک کوٹ کافی ہے۔ زیادہ سفیدی مطلوب ہو تو ایملشن آزمائیں‘ اس سے کیل مہاسے بھی چھپ جائیں گے۔ بصورت دیگر سفیدی سے پہلے کیل مہاسوں کو کسی تیز استرے سے اچھی طرح چھیل لیا کریں۔ اس سے چہرے کی سطح ہموار ہوگی اور سفیدی کے بعد چہرہ چندے آفتاب چندے ماہتاب نکل آئے گا۔ تاہم یہ سارا کچھ میاں کے سامنے نہیں‘ بلکہ اُس سے چوری چھپے کریں۔
سگریٹ کی عادت
سوال: سگریٹ نوشی کے ہاتھوں بہت پریشان ہوں۔ کئی بار چھوڑ کر پھر شروع کر چکا ہوں‘ اس لعنت سے کیسے چھٹکارا حاصل کر سکتا ہوں؟
جواب: آپ پریشان غالباً اس لیے ہیں کہ سادہ سگریٹ پیتے ہیں۔ اگر اس میں کچھ ملا لیا کریں تو کسی اور ہی دُنیا میں پہنچ جایا کریں گے اور پریشانی از خود ہی رفع ہو جائے گی۔ تاہم اگر سگریٹ پینا چھوڑنا بھی چاہیں تو حقہ‘ پائپ یا سگار پینا شروع کر دیں۔ نسوار کھانا بھی مثبت نتائج پیدا کر سکتا ہے۔بُوٹی کے پکوڑے بھی آزمائیں‘ نہایت لاجواب چیز ہے۔
غصہ بہت آتا ہے
سوال: ڈاکٹر صاحب مجھے بات بے بات غصہ بہت آتا ہے اور مخاطب کو پیٹ ڈالنے کو جی چاہتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں۔ دن کے وقت زیادہ غصے میں رہتی ہوں۔
جواب: اگر آپ شادی شدہ ہیں تو یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ غصہ آئے تو شوہر نامدار کی پٹائی کر لیا کریں‘ افاقہ ہوگا۔ اگر کنواری ہیں تو پہلی فرصت میں شادی کر کے یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل کریں۔ بہتر ہوگا کہ کسی پڑھے لکھے اور شریف آدمی کے ساتھ شادی کریں جو رغبت سے مار کھاتا رہے‘ لیکن اسے زخمی کرنے سے گریز کریں ورنہ نہ صرف آپ کو کپڑے خود دھونا پڑیں گے اور برتن دھونے کے علاوہ گھر کی صفائی بھی خود ہی کرنا پڑے گی‘ نیز سکول بھیجنے کیلئے بچوں کو تیار بھی خود کرنا پڑے گا۔
آج کا مقطع
جو آخری تھا، ظفرؔ، ہمارا
وہ گیت بھی ہم نے گا لیا ہے