تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     09-12-2018

منزل بھی تُو

ایسے کسی امتحان میں آدمی کو ڈالا نہیں جاتا‘ جس میں وہ سرخرو نہ ہو سکے۔ اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے: کسی پر اللہ اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔
آہ، کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے
راہ تو‘ رہرو بھی تو‘ رہبر بھی تو‘ منزل بھی تو
گنتی کے چند لوگوں کے سوا‘ ہم سب جن سے واقف ہیں‘ہم سب قصور وار ہیں۔ اپنے فرائض کبھی ڈھنگ سے ادا نہ کیے۔ بڑے مجرموں کا اگر تعین کرنا ہوگا تو ایف بی آر ان میں سرِ فہرست ہے، ٹیکس وصول کرنے والا ادارہ۔ پندرہ برس ہوتے ہیں سابق وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے کہا تھا: کم از کم پانچ سو ارب روپے اس کے اہلکار ہڑپ کر جاتے ہیں۔ میرا خیال ہے کم از کم 1000 ارب روپے۔ سیاستدانوں‘ افسروں اور تاجروں کی لوٹ مار اس کے سوا ہے۔ ماہرین متفق ہیں کہ ہر سال 8000 ارب ٹیکس وصول ہونا چاہئے‘ یعنی موجودہ سے پینتیس بلین ڈالر زیادہ۔ کیوں ایسا نہیں ہوتا؟
کتنی بے شمار تحریریں لکھی جا چکیں مگر سب رائیگاں‘ سب رائیگاں۔ملک کو اپنا گھر ہم نے کبھی سمجھا ہی نہیں۔ رہے حکمران تو عام آدمی سے انہیں کوئی واسطہ ہی نہیں۔ ریاست اور شہریوں کے درمیان اپنائیت، اُنس اور الفت کا جو رشتہ قائم ہونا چاہئے‘وہ کبھی استوار ہی نہ ہو سکا...اور اجنبی ایک دوسرے کا درد نہیں پالا کرتے۔
وفاقی ٹیکس محتسب کی حیثیت سے ڈاکٹر شعیب سڈل سویڈن گئے۔ معلوم ہوا کہ ٹیکس وصولی کی شرح 54 فیصد ہے۔ ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد 81 فیصد۔ انہوں نے پوچھا: کیا کچھ ایسے بھی ہیں‘ جو اپنی آمدن چھپاتے اور ٹیکس ادا نہ کرتے ہوں۔ جواب نفی میں تھا۔ بہت شاذ و نادر‘ بالکل اکّا دکّا... اور ان کا علاج کیا جاتا ہے۔یہ 1983ء کا واقعہ ہے۔ ایک برطانوی جج ہیتھرو کے ہوائی اڈے پر اترا۔ اس گرین چینل سے ‘ اس نے گزرنے کی کوشش کی‘ جہاں ٹیکس واجب نہیں ہوتا۔ کسٹم کے اہلکار کو شک گزرا تو سامان کی تلاشی لی۔ سگریٹ کے چند پیکٹ نکلے۔ فرانس میں تمباکو پہ ٹیکس کم ہوتا ہے ،برطانیہ میں زیادہ۔ ''می لارڈ‘‘ اہلکار نے کہا ''آپ قانون کے محافظ ہیں؛ چنانچہ دو گنا سزا کے مستحق‘‘۔ جرمانہ جج نے ادا کیا اور مستعفی ہو گیا۔
کسی ملک کی خارجہ پالیسی آزاد ہو سکتی ہے اور نہ اس کا دفاع ممکن ہے‘ اگر ٹیکس وصول نہ کیا جا سکے۔ نپولین نے کہا تھا: افواج پیٹ کے بل رینگتی ہیں۔
کس بے دردی سے پچھلے ہفتے روپے کی قیمت گرا دی گئی۔ وزیراعظم نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ انہیں علم نہ تھا۔ بعد ازاں وزیرِ خزانہ اسد عمر نے وضاحت کی کہ انہیں خبر تھی اور وزیرِاعظم کو تحریری پیغام انہوں نے بھیجا تھا۔ اس رد و بدل سے قومی قرضوں میں 15 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ کیا یہ اتنی معمولی بات تھی کہ وزیرِ خزانہ پیغام پہ اکتفا کرتے۔ سینکڑوں پیغامات روزانہ ملتے ہیں۔ کیا وہ سب کے سب دیکھتا ہے اور فوراً۔ غیر معمولی طور پہ مصروف وزیراعظم کو‘ اچانک جس پہ اتنا بوجھ آ پڑا ہے‘ کتنی مہلت ملتی ہو گی؟
اسد عمر‘ وزیراعظم کے قابلِ اعتماد ساتھیوں میں سے ایک ہیں۔ ایسے نازک معاملے میں اگر وہ ان سے ملاقات نہیں کرتے‘ مضمرات پہ بات نہیں کرتے تو کیا یہ تعجب کی بات نہیں؟
دانا لوگوں کا طریق یہ ہے کہ ہر امتحان میں سب سے پہلے وہ ترجیحات طے کرتے ہیں۔ پھر ساری توجہ انہی پہ مرکوز رکھتے ہیں۔
بلند بانگ نعروں کے ہنگام ‘اقتدار سنبھالنے والی اس حکومت کا المیہ یہ ہے کہ تیاری اس نے کی نہیں۔ ترجیحات وہ طے نہ کر سکی۔ وہ قیادت جس نے کہا تھا کہ وہ کبھی آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائے گی۔ کبھی قرض نہیں لے گی۔ جادو ایسا جگائے گی کہ نوکریاں ڈھونڈنے دوسرے ملکوں سے لوگ یہاں آیا کریں گے۔ اندازہ ہے کہ تین ماہ میں پانچ ملین ڈالر سمندر پار چلے گئے۔ بے روزگاروں کی تعداد میں کم از کم پانچ لاکھ کا اضافہ ہو چکا۔
ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمۂ گل
یہی ہے فصل بہاری یہی ہے بادِ مراد
اللہ کا شکر ہے کہ ایف بی آر میں اصلاحات کا عمل جاری ہے۔ پالیسی تشکیل دینے اور وصولی کرنے والے شعبے الگ کیے جا چکے۔ دوسرے اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں۔ امید کرنی چاہیے کہ اگر آئندہ چند ہفتوں میں نہیں تو چند ماہ کے دوران مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔
عسکری قیادت اس صورتحال پہ پریشان ہے۔ ایک ذمہ دار ذریعے کے مطابق وزیرِ خزانہ سے انہوں نے رابطہ کیا۔ بتایا گیا ہے کہ اسد عمر آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے حق میں ہیں۔وزیر اعظم مگر اب بھی انتظار کے حق میں ہیں۔ ابھی ابھی ایک دوست نے اطلاع دی ہے :وزیرِ خزانہ سے انہوں نے کہا: متبادل منصوبہ آپ نے کیوں نہ بنایا؟
کون سا متبادل منصوبہ؟ سعودی عرب اور چین سے جو امداد ملنا تھی‘ مل چکی یا کم از کم اس کے پیمان ہو چکے۔ ترکی اور ملائیشیا کی اپنی حالت ایسی ہے کہ دستِ تعاون دراز نہیں کر سکے۔ آئی ایم ایف کے پاس اگر جانا ہی ٹھہرا ہے تو تاخیر کیوں؟تب جائیں گے‘ پانی جب سر سے گزر چکا ہوگا۔ 
شاید یہی بہترین وقت ہے کہ امریکی افغانستان میں تعاون کی استدعا کر رہے ہیں۔ روس کے جارحانہ رویے سے پریشان‘ امریکیوں کے اندازِ فکر میں تبدیلی آئی ہے۔ طالبان کو یکسر ختم کر دینے کے حق میں اب وہ نہیں بلکہ اقتدار میں شریک کرنے کی طرف مائل۔ کہا جاتا ہے کہ طالبان میں کچھ تبدیلی آئی ہے۔ پاکستان کے لیے یہی آگے بڑھنے کا وقت ہے۔ ہر وقت احتساب کا راگ الاپنے کی بجائے‘ وزیراعظم کو اپنی توانائی اس چیلنج میں کھپانی چاہئے۔ احتساب کو عدالت اور نیب پر چھوڑ دینا چاہئے۔
باز پرس تو بیورو کریسی کی ہونی چاہئے۔ سب کی نہیں پرلے درجے کے بدعنوانوں کی۔ سب سے بڑھ کر ایف بی آر‘ پولیس‘ ایف آئی اے‘ ریلوے‘ پی آئی اے اور سٹیل مل میں۔ صاف ستھرے افسروں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے۔ نہایت احتیاط کے ساتھ فہرستیں مرتب کرنے کے بعد جرائم پیشہ کو برطرف کر دیا جائے۔ خواہ اس کے بعد سول سروس کو آئینی تحفظ فراہم کر دیا جائے‘ بھٹو عہد میں جو واپس لے لیا گیا تھا۔
درآمدات کم کرنی چاہئیں۔ کوریا کی طرح نہیں‘ جہاںجبر اور وحشت نے صلاحیتوں کو مرجھا کے رکھ دیا اور آدمی جانوروں کی سطح پر جینے لگے۔ سگریٹ اور میک اپ سمیت اشیائے تعیش پہ ٹیکس بڑھا دیا جائے‘ بہت بڑھا دیا جائے۔ مہنگے ٹیلی فون اور مہنگی گاڑیوں پر بھی۔ زیادہ نہیں‘ سال بھر کے لیے۔ کیا آزادی اور خود مختاری کی اتنی سی قیمت بھی ہم نہیں دے سکتے۔ ایف بی آر میں انٹیلی جنس کے شعبوں کو فعال کیا جائے۔ ہنگامی حالات کا تقاضا یہ ہے کہ آئی بی‘ ایم آئی اور آئی ایس آئی سے بھی مدد مانگی جائے۔ بائیس کروڑ انسانوں کا مستقبل خطرے میں ہے۔ لٹیروں کو آزاد نہیں چھوڑا جا سکتا۔
حکومت کو خوش قسمتی سے کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ لٹیرے اپنے زخم چاٹ رہے ہیں۔ اومنی گروپ اور آصف علی زرداری سمیت‘ ایسے تمام لوگوں کے بارے میں تیزی سے فیصلے صادر ہونے چاہئیں‘ جن کی آزادی نے‘ قوم کو استعمار کا غلام بنا دیا۔
حکومت‘ عدلیہ اور افواج میں آج وہ آہنگ موجود ہے جو کبھی نہ تھا۔ ملک کی بھلائی کے لیے اسے برتا جائے۔ ہنگامی حالت کا اعلان کیے بغیر‘ ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اب نہیں تو کبھی نہیں۔ پاکستان کو اللہ نے اپنے قدموں پہ کھڑا ہونے کا ایک موقعہ عطا کیا ہے۔ حکمران ہوش مندی کا مظاہرہ کریں اور قوم کو اعتماد میں لیں تو ایک نئے عہد کا آغاز ممکن ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ کوئی مہلت لا محدود نہیں ہوتی... اور جرأت کا کوئی بدل نہیں ہوتا۔ اسی سے دیواردر بنتی ہے۔
ایسے کسی امتحان میں آدمی کو ڈالا نہیں جاتا‘ جس میں وہ سرخرو نہ ہو سکے۔ اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے: کسی پر اللہ اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔
آہ، کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے
راہ تو‘ رہرو بھی تو‘ رہبر بھی تو‘ منزل بھی تو

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved