تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     09-12-2018

ملٹی لیٹرل سفارت کاری کا زوال

دو ملکوں کے مابین سفارت کاری کو بائی لیٹرل ڈپلومیسی کہا جاتا ہے جبکہ تین یا اس سے زیادہ ممالک کے درمیان سفارت کاری کے عمل کو ملٹی لیٹرل ڈپلومیسی کا نام دیا جاتا ہے۔ دنیا میں ملٹی لیٹرل سفارت کاری کا آغاز تجارت کے حوالے سے ہوا۔ قدیم زمانے کا سلک روٹ چین سے شروع ہو کر انڈیا اور ایران کے راستے یورپ تک جاتا تھا۔ اُس زمانے میں چین کے بادشاہ نے سلِک روٹ کی گزرگاہ کے تمام ممالک سے معاہدے کئے کہ تجارتی قافلوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
عہد حاضر میں ملٹی لیٹرل ڈپلومیسی کو عالمی جنگوں سے مہمیز ملی۔ ورلڈ وار اوّل کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ متعدد یورپی ممالک نے آپس میں خفیہ معاہدے کئے ہوئے تھے۔ 1918ء میں امریکی صدر ولسن نے کہا کہ امن کے لئے انٹرنیشنل معاہدے کھلی بحث کے بعد مکشوف طریقے سے ہونے چاہئیں۔ پہلے لیگ آف نیشنز بنی اور پھر دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ معرض وجود میں آئی۔ اقتصادی جانب ورلڈ بینک قائم ہوا تاکہ دنیا میں اکنامک ترقی کا عمل تیز اور مربوط کیا جائے۔ کئی ترقی پذیر ممالک کو بیرونی ادائیگیوں کا مسئلہ تھا یعنی تجارت کا توازن بگڑا ہوا تھا۔ ایسے ممالک کی مالی امداد کے لئے آئی ایم ایف بنائی گئی۔ علاقائی سطح پر عرب لیگ آسیان، یورپی یونین اور سارک ملٹی لیٹرل ڈپلومیسی کی مثالیں ہیں۔
اقوام متحدہ کثیرجہتی سفارت کاری یعنی ملٹی لیٹرل ڈپلومیسی کی سب سے بڑی مثال ہے۔ یو این کے اعضا( Organs) میں سب سے بڑا عضو جنرل اسمبلی ہے جو ہر سال اجلاس منعقد کرتی ہے۔ ممبران کی تعداد اب 195 ہو چکی ہے اور ہر ممبر ملک جنرل اسمبلی میں ایک ووٹ رکھتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کی قراردادوں پر عمل کرانے کی پابند نہیں۔ اصل طاقت سکیورٹی کونسل کے پاس ہے جہاں کل پندرہ ممبر ہیں جن میں سے امریکہ روس چین برطانیہ اور فرانس دائمی ممبر ہیں۔ دس غیر دائمی ممبر ہیں جنہیں جنرل اسمبلی دو سال کے لئے منتخب کرتی ہے۔ سکیورٹی کونسل کا ہر دائمی ممبر ویٹو کا حق رکھتا ہے۔ یعنی اکثریت کے فیصلے کو ایک دائمی ممبر رد کر سکتا ہے۔ جرمن جاپان برازیل اور انڈیا کئی سالوں سے دائمی ممبر بننے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ اصل چوہدراہٹ یہیں پر ہے۔ نیو یارک کے علاوہ یو این کا دوسرا بڑا دفتر جنیوا میں ہے‘ جہاں انسانی حقوق سے متعلق کمیشن بھی موجود ہے۔ ایٹمی توانائی سے متعلق امور کو ویانا میں قائم اٹامک ایجنسی دیکھتی ہے۔ بین الاقوامی تجارت کے مسائل کیلئے جنیوا میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن ہے۔ یو این کا نظام خاصا جامع ہے مگر یہ تنظیم بھی انٹرنیشنل توقعات پر پوری نہیں اتری۔اقوام متحدہ کا سب سے اہم کام ملکوں کے درمیان تنازعات کا حل تھا اور یہیں ہمیں یہ تنظیم خاصی ناکام نظر آتی ہے۔ فلسطین اور کشمیر جیسے مسائل عشروں سے یو این کے ایجنڈے پر ہیں لیکن یہ تنظیم اپنی ہی قراردادوں پر عمل نہیں کرا سکی۔ کشمیر کے بارے میں قراردادوں کے حوالے سے یہ حجت پیش کی جاتی ہے کہ چارٹر کے باب ہفتم کے تحت آتی ہیں‘ لہٰذا ان کے نفاذ کیلئے طاقت کا استعمال نہیں ہو سکتا۔ فلسطین کے عوام کے ساتھ بھی 1948ء سے ظلم جاری ہے۔ سکیورٹی کونسل میں پیش کردہ مذمتی قراردادیں اکثر امریکن ویٹو کا شکار ہو جاتی ہیں۔ جنرل اسمبلی نے فلسطینی عوام کی حمایت میں متعدد قراردادیں پاس کیں مگر وہ صرف اخلاقی سپورٹ کے زمرے میں آتی ہیں۔
اقوام متحدہ کی ساکھ کو سخت دھچکا 2003ء میں لگا جب صدر بش نے عراق پر حملے کا فیصلہ کیا۔ یو این میں بحث ہوئی۔ روس، چین اور فرانس نے عراق پر حملے کی مخالفت کی مگر امریکہ اور برطانیہ مصر تھے کہ صدام حسین کے پاس مہلک ایٹمی ہتھیار ہیں اور ان کا القاعدہ سے رابطہ ہے۔ دونوں الزامات جھوٹ کا پلندہ تھے۔ ملٹی لیٹرل سفارت کاری کیلئے امریکہ اور برطانیہ کا یہ اقدام صدمے سے کم نہ تھا۔
ملٹی لیٹرل سفارت کاری امن سلامتی اور انسانی بقا کیلئے اب ناگزیر ہو چکی ہے مثلاً موسمی تبدیلی کسی ایک ملک تک محدود نہیں رہتی۔ اگر گلوبل درجہ حرارت بڑھتا ہے تو پوری دنیا کے ممالک کو متاثر کرتا ہے۔ دریائے نیل افریقہ کے دس ممالک سے گزرتا ہوا مصر پہنچتا ہے۔ دریا کے پانی کی منصفانہ تقسیم، سیلاب کی روک تھام، پانی کا صاف بہاؤ، دریا پر ڈیموں کی تعمیر ایسے امور ہیں جو تمام متعلقہ ممالک سے ملٹی لیٹرل سفارت کاری کا تقاضا کرتے ہیں۔ 
موسمی تبدیلیوں کے منفی اثرات کم کرنے کیلئے بڑے عرصے سے انٹرنیشنل کوششیں جاری ہیں۔ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ گلوبل وارمنگ نامیاتی وسائل سے انرجی حاصل کرنے کا نتیجہ ہے۔ مثلاً کوئلہ اور فرنس آئل بجلی پیدا کرنے کیلئے ایندھن کے طور پر استعمال ہوتے ہیں تو آلودگی بڑھتی ہے اور مضر گیس کا ایک غلاف بھی کرئہ ارض کے گرد بنتا ہے۔ اسی طرح ہمارے کارخانے اور کاریں بھی ماحول پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ موسمی تبدیلی کو کنٹرول کرنے کے لئے انٹرنیشنل کوشش کئی سالوں سے جاری ہے اور خوش قسمتی سے انسان سے یہ صلاحیت حاصل کرلی ہے کہ گلوبل وارمنگ پر قابو پا لے۔
کئی سالوں کی کوشش ا ور محنت کے بعد 2015ء میں بالآخر پیرس میں 180 سے زائد ممالک نے موسمی تبدیلی سے متعلق معاہدے پر دستخط کئے۔ اگلے سال یعنی 2016ء میں نیو یارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں تمام دستخط کرنے والے ممالک نے اس معاہدے کی تصدیق کی۔ امریکہ دستخط اور تصدیق کرنے والے ممالک میں شامل تھا۔ یہ صدر اوباما کی حکومت کے آخری سال تھے۔ دوسری طرف صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم میں یہ کہنا شروع کر دیا کہ پیرس معاہدہ امریکہ کے اقتصادی مفادات کے خلاف ہے۔ اور اب امریکہ عملاً اس معاہدے سے علیحدہ ہو چکا ہے۔ ٹرمپ کی سوچ صرف اپنے ملک کے مفادات پر مرکوز ہے۔ نہ وہ لمبے عرصے کا سوچتے ہیں اور نہ انسانیت کے فائدے کا۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ امریکہ کے موسمی تغیرات بھی باقی دنیا کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ یہ جو امریکہ میں سمندری طوفان ہر سال تباہی پھیلاتے ہیں عالمی سطح پر موسمی تبدیلی کا ہی شاخسانہ ہے۔ پیرس معاہدے سے منہ پھیر کر ٹرمپ نے ملٹی لیٹرل سفارت کاری کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔
ایران کے ساتھ چھ اہم ممالک کا ایٹمی معاہدہ بھی کئی سالوں پر محیط ملٹی لیٹرل ڈپلومیسی کا نتیجہ تھا۔ اس سے امید پیدا ہو گئی تھی کہ خطے کا سیاسی درجہ حرارت کم ہوگا لیکن صدر ٹرمپ کی حکومت اس معاہدے سے بھی منحرف ہو گئی۔ امریکی حکومت کے اس اقدام سے سپر پاور کے یورپی ممالک کے ساتھ تعلقات پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے۔ ٹرمپ کی کوتاہ نظر نیشنلسٹ پالیسیوں کے اثرات نے کئی ممالک کو متاثر کیا ہے۔ یورپی یونین بھی ملٹی لیٹرل سفارت کاری کی اچھی اور کامیاب مثال تھی۔ پچھلے سال برطانیہ کے ووٹرز نے ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ جرمنی کی صدر اینجلا مرکل نے سب سے زیادہ شامی مہاجرین لینے کا عندیہ دیا تھا ۔ الیکشن میں وہ شکست کھاتے کھاتے بچیں۔ آج کل فرانس میں حکومت مخالف مظاہرے ہو رہے۔ ایک نیا نعرہ سننے میں آ رہا ہے۔ یہ کہ ہمیں ٹرمپ چاہئے گویا کئی ترقی یافتہ جمہوری ممالک کے لوگ بھی اب اپنے گرد تنگ نظر مفادات کی اونچی اونچی فصیلیں بنا رہے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ بین الاقوامی تجارت دنیا میں خوشحالی لاتی ہے اور امن کو فروغ دیتی ہے۔ 1995ء میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کئی سال کے مذاکرات کے بعد وجود میں آئی تھی۔ مقصد یہ تھا کہ دنیا بھر میں ممبر ممالک کسٹم ڈیوٹیاں کم کریں تاکہ تجارت فروغ پائے۔ مگر صدر ٹرمپ نے چین، یورپی یونین اور میکسیکو کی درآمدات پر ڈیوٹی بڑھا دی ہے۔
ملٹی لیٹرل ڈپلومیسی سفارت کاری کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ جب اس کثیر الجہت ڈپلومیسی نے پچھلی صدی میں فروغ پایا تو امید ہو چلی تھی کہ آج کا مہذب انسان اور ترقی یافتہ قومیں سرحدوں سے آگے کا سوچنے لگے ہیں۔ باہمی مشوروں اور اجتماعی فیصلوں میں سب کا فائدہ ہے۔ انٹرنیشنل محفلوں میں مہلک ہتھیار کم کرنے کی باتیں ہوتی تھیں۔ تجارت کے فروغ کے طریقے زیر بحث آتے تھے۔ علم و حکمت اور ریسرچ شیئر کرنے کا سوچا جاتا تھا اور اب افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ تمام اعلیٰ و ارفع اہداف کوتاہ نظری کا شکار ہو رہے ہیں کیونکہ ملٹی لیٹرل سفارت کاری زوال پذیر ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved