تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     09-12-2018

اندر اور باہر کی نشانیاں

قرآن میں لکھا ہے : ہم جلد ہی ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے۔ آفاق (Horizons)میں اور خود ان کے اپنے اندر بھی‘ حتیٰ کہ ان پر واضح ہو جائے گا کہ یہ (قرآن )حق ہے ۔ کیا یہ تمہیں کافی نہیں کہ تمہارا رب ہر چیز پہ گوا ہ (باخبر ) ہے ۔ سورۃ فصلت‘ 53۔ اس آیت کے آخری الفاظ بہت اہم ہیں ۔ خدایہ اشارہ کرتاہے کہ چونکہ میں ہی خالق ہوں ‘ اس لیے سب کچھ جانتا ہوں۔ میں Creatorہونے کی وجہ سے آفاق اور تخلیقِ انسان کی سب stagesکاواحد witnessہوں ۔ جب کہ انسان شروع میں یہ سب نہیں جانتا تھا۔ پھر خدا کی دی ہوئی عقل کی مدد سے وہ آہستہ آہستہ جانتا چلا گیا‘ لیکن آج بھی ہمارے علم میں کمیاں موجود ہیں ۔انسان نے آفاق اور اپنے اندر کی زیادہ ترچیزیں گزشتہ ایک ڈیڑھ صدی میں جانی ہیں ۔ سکول کے دنوں میں ہمیں پڑھایا جاتا تھا کہ ستارہ ساکن ہوتا ہے ‘ جب کہ سیارہ حرکت کرتا ہے ۔ پھرانسان نے کیپلر جیسی دوربینیں خلا میں بھیج کر کائنات کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ زمین اپنی جگہ حرکت میں ہے اور سورج سب سیاروں سمیت کہکشاں کے مرکز کے گرد گردش کر رہا ہے ۔ خود کہکشاں کا مرکز بھی حرکت میں ہے ۔ ساکن والا تصور ہی غلط تھا۔ اسی طرح جس اطالوی ماہرِ فلکیات گیلیلیو کو Father of observational astronomyکہا جاتاہے‘ اسے آج سے صرف چار صدیاں پہلے یہ راز فاش کرنے پر تا حیات نظر بند کر دیا گیا تھا ‘کہ زمین کائنات کا مرکز و محور نہیں ہے ۔ آج انسان جہاں دوربین سے کہکشائوں کو دیکھ رہا ہے ‘ اسی طرح خوردبین کی مدد سے وہ خلیات کو بھی دیکھ چکا ہے ۔ کیمرہ خوراک کی نالی سے اندر ڈال کر نظامِ انہضام کو بخوبی دیکھا جا سکتاہے ۔ بلکہ اب تو ایسے کیمرے آئیں گے جو خون میں گردش کرتے ہوئے پورے جسم کا چکر لگائیں گے ۔ ایکس رے‘ الٹرا سائونڈ‘ ایکو اوردوسری شعاعوں ‘ آوازوں اور لہروں کی مدد سے ہم اپنے اعضا کے اندر جھانک سکتے ہیں ‘ جب کہ رحمِ مادر میں بچّے کی تخلیق کا ایک ایک مرحلہ ریکارڈ کیا جا چکا ہے ۔ دوسری طرف خدا بھی قرآن میں یہ سارے مراحل بیان کرتاہے ۔ اب یہ توآپ پر ہے کہ آپ کھول کر اسے پڑھتے ہیں یا نہیں ۔
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ انسان /جانداروں کے اندر وہ کون سی نشانیاں ہیں ‘ جن کی طرف خدا اشارہ کر رہا ہے ۔ اصل میں جو چیز ڈیزائن اور نقشے کے مطابق بنتی ہے ‘ وہی خوبصورت لگتی ہے ۔ آپ کبھی ایسی آبادیوں میں جا کر دیکھیں ‘ جہاں سڑکیں اور گھر نقشے کے بغیر بنے ہوں ۔ گاڑی گزرنہیں سکے گی۔ سڑک کہیں سے کھلی اور کہیں سے بالکل تنگ ہوگی۔ کھمبا سڑک کے درمیان میں نصب ہوگا ۔ سیوریج کا نظام ہوگا ہی نہیں ۔ گندگی سڑکوں پہ بہہ رہی ہوگی ‘جبکہ جو ہائوسنگ سوسائٹی نقشے کے مطابق بنتی ہے ‘ اس میں پہلی نظر میں ہی ایک خوبصورتی نظر آتی ہے ۔ یہی صورتحال انسان یا کسی بھی جاندار کے جسم کی ہے ۔ ہر چیز ‘ ایک ایک خلیہ ڈیزائن کے مطابق ہے۔ جب ہر چیز ایک ڈیزائن کے مطابق ‘ ایک خاص سائز کی ہوتی ہے تو پھر ہی مختلف پرزے ایک دوسرے میں فٹ آتے ہیں ۔ یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے آپ لینڈکروزر کا ٹائر رکشے کو لگانے کی کوشش کریں تو کیا نتیجہ نکلے گا؟ یا ٹینک کے اندر موٹر سائیکل کے پرزے لگانے کی کوشش کریں تو؟ آپ کے جسم میں ایک ایک رگ‘ ایک ایک نس ایک مخصوص موٹائی اور لمبائی کے مطابق بنائی گئی ہے ۔ ایک مخصوص راستہ اور جگہ ہوتی ہے‘ جس سے ان رگوں اور nervesکو musclesاور ہڈیوں کے درمیان سے گزرنا ہوتا ہے ۔ایک مخصوص جگہ ان کا اختتام ہو جاتا ہے۔ آپ یہ سمجھیں کہ آپ کے جسم میں ہر طرف وائرنگ ہی وائرنگ ہے ۔ اگر یہ wiresکہیں سے ٹوٹ جائیں یا دب جائیں تو انسان شدید تکلیف محسوس کرتاہے۔اس لیے انسان کے جسم میں کم و بیش 37ٹریلین خلیات کو آپس میں جوڑ کر رکھنا ‘ یہ کوئی معمولی کاریگری نہیں ۔ پھر خدا نے انسان کے جسم میں گردوں اور آنتوں کی صورت میں سیوریج کا ایک پورا سسٹم بنایا۔گردے کام کرنا چھوڑ دیں تو یہ گند جسم کے اندر ہی جمع ہونے لگتا ہے ۔ جسم سوج جاتا ہے اور چند ہفتوں میں انسان collapseکر جاتا ہے ۔ 
انسان کے جسم میں اگر ریڑھ کی ہڈی میں موجود nervesکہیں سے دب جائیں تو ہو سکتاہے کہ پائوں میں touchکی feeling ختم ہو جائے۔ پھر جس حصے میں یہ feelingختم ہو جائے‘ اسے چھری سے کاٹ بھی دیا جائے تو بھی دماغ کو درد کا احساس نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ درد‘ جس سے ہم نفرت کرتے ہیں ‘ درحقیقت زندہ چیزوں کے اندر اپنی جان کی حفاظت کے لیے رکھا گیا ہے ۔ایک آیت پڑھیے: اس کی نشانیوںمیں سے ایک یہ ہے کہ تو زمین کو دبی ہوئی (خشک/مردہ)دیکھتا ہے ۔ پھر جب ہم اس پر پانی نازل کرتے ہیں تو شاداب ہو جاتی اور پھلنے لگتی ہے ۔ تو جو زمین کو زندہ کرتاہے ‘ وہی مردہ (انسانوں ) کو زندہ کرے گا۔ وہ تو ہر بات پہ قادر ہے ۔(سورۃ فصلت،39)
بات یہ ہے کہ زمین پر موجود مٹی کو life sustainingبنانا ہی اصل کام تھا۔ باقی کام مشکل نہیں ۔آدھے جاندار پودے کھاتے رہیں گے اور باقی آدھے ایک دوسرے کو کھاتے رہیں گے ۔ اصل چیز تو مٹی کو‘ زمین کی سطح کو life sustainingبنانا تھا۔ باقی سب کچھ تو بائی پروڈکٹ ہے ۔ بیج کا مٹی میں پھوٹنا ‘ پھر اس مٹی سے نمی جذب کرنا ۔ زمین میں پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت جو اسے life sustainingبنانے میں سب سے اہم ہے ۔ پھر ان پودوں کا پانی اور روشنی کو استعمال کرتے ہوئے آکسیجن پیدا کرنا ۔جو یہ سارے انتظامات کر سکتا ہے ‘ اس کے لیے مردے کو زندہ کرنا کیا ہے ۔ اسی طرح خدا کہتاہے کہ ہم نے آسمان سے زمین پر پانی نازل کیا ایک خاص مقدار کے مطابق ۔ پھر ہم نے اسے زمین میں ٹھہرا دیا اور ہم اس کے لے جانے پر بھی قادر ہیں ۔سورۃ مومنون ،18۔ آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ یہ بارش کی بات ہو رہی ہے ۔ جی ہاں ‘ بارش کی ہی لیکن وہ بار ش نہیں ‘ جسے ہم آج دیکھتے ہیں ۔ اصل میں سائنس یہ کہتی ہے کہ ابتدا میں کرّہ ٔ ارض پہ جو Asteroidsبرس رہے تھے‘ پانی ان کے ذریعے یہاں پہنچا تھا ۔اب آپ مریخ کو دیکھیں ۔ پانی وہاں بھی تھا‘ لیکن اللہ اسے لے گیا۔ اسی طرح لوہے کے بارے میں خدا کہتاہے کہ و انزلنا الحدید ۔ اور لوہا ہم نے نازل کیا۔ اب کیمیا دان ہی یہ بتا سکتے ہیں کہ سونے سمیت اس کرّہ ٔ ارض پہ کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے ‘ جو کہ یہاں مقامی طور پر تیار کی گئی ہو۔ ہاں کوئلے کا آپ کہہ سکتے ہیں کہ درختوں کے زیرِ زمین دفن ہو جانے سے بنا ‘لیکن درختوں کا کاربن بھی زمین پہ نازل ہی ہوا تھا ۔ انہی asteroidsاور cometsکی صورت میں ۔ 
تویہ ہیں اس بڑے پزل کے کچھ ٹکڑے ۔یہ نشانیاں ہیں ‘ ہمارے اندر اور ہمارے باہر۔ آخری زمانے کے انسان کے لیے خدا نے خصوصی طور پر کچھ آیات نازل کی ہیں ‘تاکہ وہ زیادہ ڈینگیں نہ مارنے لگے۔ اگر آپ کو یہ باتیں مشکل لگتی ہیں تو دل چھوٹا نہ کریں ۔ جو بھی خدا کے بارے میں سوچتا ہے اور اس کے قریب ہونے کی آرزو کرتاہے ‘ تو وہ راستہ ضرور کھولتا ہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved