خدا جانے جمہوریت کے علمبردار حکمرانوں کو بنیادی جمہوریت سے کیا خوف اور عناد ہے؟ باتیں جمہوریت کی کرتے ہیں‘ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر انہی کے نمائندوں کے ذریعے حل کرنے کے بھاشن دیتے ہیں‘لیکن ریکارڈ یہ ہے کہ حکمران سابقہ ہوں یا موجودہ ‘سب ہی ان اداروں سے خائف اور شاکی نظر آتے ہیں۔جنرل پرویز مشرف کو ڈکٹیٹر کہنے والے جمہوریت کے علمبردار سیاستدانوں کے ریکارڈ کی درستی کیلئے عرض کرتا چلوں کہ اپنے 9 سالہ اقتدار میں دو مرتبہ بلدیاتی انتخابات بروقت کروائے اور بااختیار بلدیاتی اداروں کو آزادانہ کام کرنے کا موقع دیا۔2008ء میں مسلم لیگ ن نے پنجاب میں برسر اقتدار آکر 7 سال تک مختلف حیلے بہانوں سے بلدیاتی انتخابات کا راستہ روکے رکھا۔ ''بوئے سلطانی‘‘کے مارے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے کئی بار بلدیاتی انتخابات کا شیڈول بھی جاری کیا۔ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی اور سکیورٹی کی رقم بھی وصول کی گئی‘ لیکن انتخابات کروانے کی ہمت نہ ہوئی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کی مداخلت اور حکم پرمجبوراً 2015ء میں شہباز شریف کو بلدیاتی انتخابات کروانے پڑے۔ انتخابات تو خدا خدا کرکے ہوگئے‘ لیکن ایک سال تک حکومت منتخب نمائندوں کی حلف برداری سے بھاگتی رہی۔بالآخر مرتے‘ کیا نہ کرتے کے مصداق دسمبر 2016ء میںمنتخب نمائندوں کی حلف برداری اور مئیرز اور ضلعی چیئرمینوں کا انتخاب اور ان کی حلف برداری کا عمل مکمل ہوا اور اس طرح ایک لولا لنگڑا ‘غیر فعال اور بیوروکریسی کے مرہون ِمنت نیا بلدیاتی نظام دے کر پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل‘آئین اور قانون کی پاسداری کی چیمپئن شپ جیت لی۔یہاں بھی بدنیتی اور بوئے سلطانی غالب رہی۔ضلعی مئیرز اور چیئرمینوں کے دائرہ ِاختیار سے وہ تمام محکمے خارج کردئیے گئے‘ جن کا تعلق براہ راست شہری سہولیات اور محصولات سے تھا۔مذکورہ محکموں میں حکومت پنجاب نے اپنا کنٹرول برقرار رکھا اور اس طرح بیوروکریسی اس بلدیاتی نظام میں بااختیار‘ جبکہ منتخب عوامی نمائندے غیر معتبر ٹھہرے۔مالی اور انتظامی طور پر غیر مستحکم اور غیر فعال بلدیاتی ادارے منتخب نمائندوں کو دے کر حکومت نے بنیادی جمہوریت کی بحالی کا خواب شرمندہ تعبیر کردیا۔
سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کی اس واردات پر پاکستان تحریک انصاف نے خوب واویلہ اور سیاست کی اور یہ دعویٰ اور وعدہ بھی کیا گیا کہ پی ٹی آئی بر سراقتدار آکر بلدیاتی اداروں کو ان کا حقیقی کردار ادا کرنے کا بھرپورموقع دے گی‘جبکہ پی ٹی آئی کا یہ انتخابی منشور بھی تھا کہ ارکان اسمبلی صرف قانون اور پالیسی سازی پر کام کریں گے ۔شہری سہولیات اور ترقیاتی کاموں سے متعلق تمام اختیارات بلدیاتی نمائندوں کو منتقل کردیے جائیں گے‘لیکن حالیہ عام انتخابات میں کامیابی کے بعد پی ٹی آئی نے بھی سابقہ حکومت کی روش اور طرز فکر کو برقرار رکھا اور ان بلدیاتی اداروں کو اپنے لیے ایک چیلنج اور مارک اَپ تصور کرتے ہوئے ان کی تسخیر کیلئے کافی تگ ودو کی گئی۔پنجاب اسمبلی میں مطلوبہ نمبر نہ ہونے کی وجہ سے یہ کام تاحال نہ ہوسکا‘پھر پینترا بدلہ گیا بلدیاتی نظام میں اصلاحات پر زور وشور سے کام شروع ہوگیا ‘جو تادم تحریر چلا جارہا ہے۔
صوبائی وزیر بلدیات عبدالعلیم خان کو یہ ٹاسک سونپا گیا کہ بلدیاتی نظام میں اصلاحات اور موجود ہ اداروں سے چھٹکارا‘ کیونکر حاصل کیا جاسکتا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکو مت کا بلدیاتی اداروں سے اس تعصب اور عناد کے پیش نظر پنجاب بھر کے مئیرز اور چیئرمین ضلع کونسلز اکھٹے ہوئے اور لاہور‘ملتان‘ راولپنڈی‘اسلام آباداور بہاولپور میں کئی اجلاس منعقد کیے گئے ‘جسے مئیر کانفرنس کا نام دیا گیا۔اس مشکل صورتحال سے نپٹنے کیلئے مختلف آرا اور مشوروں کے بعد تمام اضلاع کے مئیرز اور چیئرمینوں نے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ''ہم سب وسیع ترملکی اور قومی مفاد کے پیش نظر پی ٹی آئی کی حکومت کے ساتھ مکمل تعاون اور ملکی تعمیر و ترقی کا حصہ بننا چاہتے ہیں ‘‘کیونکہ مئیر کسی پارٹی یا خاص گروہ کا نہیں ہوتا‘ بلکہ پورے شہر کا ہوتا ہے۔ جسے ''فادر آف سٹی‘‘ کہا جاتا ہے۔ وہ اپنے شہر کی عوام میں کس طرح امتیاز اور تفریق کرسکتا ہے؟ اور حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ وہ تعصب کی عینک اتار پھینکے ...ہم پر اعتماد کرے...ہم حکومت کے شانہ بشانہ اس کی پالیسیوں اور ترجیحات کے ساتھ چلنے کو تیار ہیں۔
یعنی9ماہ سے غیر فعال اور منجمد بلدیاتی اداروں کو چلنے دیں‘عوام کے حال پر رحم کریںاور ان منتخب عوامی نمائندوں کو عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرنے کا موقع دیں‘ لیکن پی ٹی آئی کی حکومت ان کو کسی طور ساتھ لے کر چلنے پر آمادہ نہیںاور نہ ہی ان اداروں کو فعال کرنے کے موڈ میں ہے؛اگر کسی مئیر یا ضلعی چئیرمین نے زیر التوا ترقیاتی کاموں کو مکمل کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا تو اسے انتقامی کاروائی‘ اینٹی کرپشن اور مقدمات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔اس پر ستم یہ کہ کمشنرز‘ ڈپٹی کمشنر اور آر پی اوز کوبھی ''اشارہ‘‘ کردیا گیا کہ منتخب بلدیاتی نمائندوں کیلئے ہر قسم کا تعاون اور ریلیف ممنوع ہے۔بیوروکریسی کو اور کیا چاہیے ''نیکی اور پوچھ پوچھ‘‘ اس طرح رہی سہی کسر بیوروکریسی نے پوری کرڈالی۔فنڈز کی دستیابی کے باوجود ترقیاتی کاموں پر پابندی کھلی عوام دشمنی نہیں تو اور کیا ہے؟مئیرز کانفرنسز کے مشترکہ اعلامیہ کے بعد حکومت جیتی ہوئی جنگ از سر نو جیتنے کیلئے میدان سجا رہی ہے‘ جو یقینا قومی خزانے اور وسائل کو اپنی ضد اور عناد کا ایندھن بنانے کے مترادف ہے اور رہی بات صوبائی وزیر بلدیات عبدالعلیم خان کی تو انہوں نے دستیاب آپشنز میں سے یہ آپشن بھی پیش کیا تھا کہ ضلعی مئیرز اور چیئرمینوں کی اکثریت تعاون پر آمادہ ہے‘کیوں نہ انہی کو موقع دیا جائے‘ اس طرح وہ ناصرف ''انڈر پریشر‘‘ بھی رہیں گے‘ بلکہ اپنا اعتماد بحال کرنے کیلئے غیر معمولی کارکردگی کا بھی مظاہرہ کریں گے ‘لیکن میں نہ مانوںکی حکومتی پالیسی کے آگے وزیربلدیات کی نہ چل سکی۔ویسے بھی عبدالعلیم خان کی دس سالہ غیر معمولی پارٹی خدمات کا کوئی ''مول‘‘ نہ پڑا‘تو ان کی رائے کی کیا حیثیت ہوسکتی ہے۔ ان کے ساتھ تو وہ معاملہ ہوا کہ۔؎
دعائیں ہم نے مانگی تھیں‘ بہاریں غیر نے لوٹیں
ہمیں تو خار ہی گزرا‘ صنم تیرا جواں ہونا
ان کی خدمات پر وہ مشورہ اور'' اشارہ‘‘بھاری پڑ گیا ‘جو دیگر امور مملکت کے فیصلوں پر تاحال بھاری ہے اور پھر یہ بھی ہواکہ سیاسی جدوجہد ہو یا پارٹی کو رواںدواں رکھنے کا معاملہ شب و روز ''بھر بھر مشکیں ‘‘ڈالنے والوں کی محنت و ریاضت سے جب فصل کاٹنے کاموسم آیا تو؎
ایسے ویسے‘ کیسے کیسے ہوگئے
کیسے کیسے‘ ایسے ویسے ہوگئے
سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم اور مداخلت کے نتیجے میں قائم ہونے والے بلدیاتی ادارے کچھ تو قانونی اور آئینی تحفظ رکھتے ہوں گے۔ پنجاب بھر میں 9ماہ سے رکے ہوئے ترقیاتی کام آخر کب تک زیر التوا رہیں گے؟ ایڈمنسٹریٹر لگا کر جو کام کروانے ہیں وہی کام منتخب نمائندوں سے کروانے میں کیا امر مانع ہے؟ ملکی مفاد میں تعاون کی پیشکش کرنے والے منتخب نمائندوں پر اعتماد کرنے میں کیا حرج ہے؟ ویسے بھی حالیہ انتخابات سے قبل ٹکٹوں کی تقسیم میں پی ٹی آئی نے پرانے پارٹی رہنماؤں اور ورکرز پر دوسری جماعتوں سے آئے ہوئے''الیکٹ ایبلز‘‘کو ترجیح دی تھی‘ جسے الیکشن جیت کر اقتدار حاصل کرنے کی حکمت عملی کا حصہ قرار دیا جارہا تھا۔یہ بلدیاتی نمائندے تو پہلے سے ہی ''الیکٹڈ‘‘ ہیں تو پھرنئے الیکشن کا جھنجٹ اور نتائج کا خوف کیوں پالا جا رہا ہے؟ سب کچھ بنا بنایا اور لگا لگایا تو ہے۔سو دن کی کارکردگی اور وزراء کی '' کنٹری بیوشن‘‘کسی طور نئے بلدیاتی انتخابات میں موافق اور مددگار ثابت نہیں ہوسکتی۔ایسے حالات میں سیاسی رواداری‘ برداشت اور تحمل کا مظاہرہ کرکے ہی حکومت درپیش مسائل سے نبردآزما ہوسکتی ہے ‘نہ کہ غیر ضروری آزمائشیں اور محاذ آرائی از خود اپنے اوپر مسلط کرکے مزید جگ ہنسائی اور سبکی کا باعث بنیں۔کپتان پر اپنی ٹیم کی کارکردگی اور مہارت تو آشکار ہو ہی چکی ہے۔