لاہور کا کُوڑا اٹھانے پر 20ارب نہیں لگا سکتے:علیم خاں
سینئر صوبائی وزیر علیم خاں نے کہا ہے کہ ''لاہور کا کوڑا اُٹھانے پر 20ارب نہیں لگا سکتے‘‘ اس لیے ہم نے کوڑا اٹھانے کا ارادہ ہی منسوخ کر دیا ہے کہ کوڑے جیسی چیز کو کیا اٹھانا‘ جبکہ اگر دیکھا جائے تو کوڑا لوگوں کو کیا کہتا ہے‘ جبکہ یہ اس کے عادی بھی ہو چکے ہیں اور جہاں کوڑا پڑا ہو‘ وہاں سے گزرنے کی بجائے ‘دوسری طرف سے بھی گزر سکتے ہیں اور اگر کوئی دوسری طرف بھی موجود نہ ہو تو اس کے درمیان سے بھی‘ راستہ بناتے ہوئے گزر سکتے ہیں‘ کیونکہ کامیاب بھی وہی لوگ ہوتے ہیں ‘جو اپنے لیے الگ راستے بناتے ہیں اور روایتی راستوں پر چلنے سے گریز کرتے ہی؛ اگرچہ ہماری قوم نے چل چل کر سارے راستے پہلے ہی پامال کر دیئے ہیں‘ لیکن اس کے باوجود نیا راستہ تلاش کرنا اور اُسے دریافت کر لینا ہی اصل کام ہے‘ جیسا کہ ہم اپنا راستہ تلاش کر کے اقتدارمیں آئے ہیں؛ اگرچہ اس میں کچھ مہربانوں کا تعاون بھی حاصل تھا‘ ماشاء اللہ‘ جس کا کام ہی رہنمائی ودیعت کرنا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں سابق ایم پی اے شعیب صدیقی سے ملاقات کر رہے تھے۔
اٹھارویں ترمیم ختم نہیں کرنے دیں گے: مولا بخش چانڈیو
پیپلز پارٹی کے رہنما مولا بخش چانڈیو نے کہا ہے کہ ''ہم اٹھارویں ترمیم ختم نہیں کرنے دیں گے‘‘ اور یہ جو زرداری صاحب کے خلاف گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے یہ سب اٹھارویں ترمیم ہی ختم کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں‘ جبکہ ان کے اور ان کے ہمراہی معززین کے خلاف کیس تیار ہو چکا اور ان کی گرفتاری کسی وقت بھی متوقع ہے‘ تاکہ اٹھارویں ترمیم ختم کرنے کیلئے تیاری کی جا سکے‘ اور ہم اس شرارت کو پوری طرح سمجھتے ہیں ‘کیونکہ شرارت کو سمجھنے والا ہمارے علاوہ اس ملک میں اور کون ہوگا؟ جنہیں اس کا وسیع تجربہ حاصل ہے‘ جبکہ زندگی میں تجربہ حاصل کرنا ہی اصل چیز ہوتی ہے ‘بلکہ ہمارے ہاں تو اس فنِ لطیف کو لکھانے کیلئے ایک سے زیادہ ماہرین ِ فن بھی موجود ہیں‘ لہٰذا اس ناتجربہ کار اور اناڑی حکومت کو پہلی فرصت میں یہ مہارت حاصل کرنی چاہیے‘ جبکہ ہمارے ہاں اس حوالے سے متعدد اُستادانِ فن دستیاب ہیں۔ آپ اگلے روز حیدر آباد پریس کلب میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
احتساب حکومت کے گھرکی لونڈی ہے: اسفند یار ولی
نیشنل عوامی پارٹی کے مرکزی صدر اسفند یار ولی نے کہا ہے کہ ''احتساب حکومت کے گھر کی لونڈی ہے‘‘ حالانکہ فی زمانہ گھروں میں لونڈیاں رکھنے کا رواج ختم ہو چکا‘ کیونکہ انہیں گھر میں رکھنے کی بجائے گھر سے باہر رکھنا چاہیے‘ تاکہ گھر کی فضا بھی پرامن رہے ‘جبکہ امن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور اس لیے ہم نے جنگ کی بجائے ہمیشہ امن کا راستہ اختیار کرنے کی تلقین کی ہے ‘کیونکہ ویسے بھی ہم کافی عرصے سے تلقین ہی کا شوق پورا کر رہے ہیںاور آدمی کو اصل بات اور اصل کام ہی کیلئے جدوجہد کرنی چاہیے ‘جبکہ ہماری تو ساری زندگی ہی جدوجہد میں گزری ہے۔ آپ اگلے روز پشاور میں ایک نجی ٹی وی چینل سے مصروف گفتگو تھے۔
حکومت اپنے لیے گڑھے کھود رہی ہے: قمر زمان کائرہ
پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''حکومت اپنے لیے گڑھے کھود رہی ہے‘‘ اگرچہ گڑھے کھودنے والا خود ہی ان میں گرتا ہے‘ لیکن ہمارے ہاں اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے ؛چنانچہ گڑھا کھودنے والا خود نہیں‘ بلکہ اس میں دوسرے ہی گرتے ہیں‘ ورنہ گرنے کو تو آدمی سرِ راہ جاتا ہوا بھی گر سکتا ہے‘ مثلاً: کیلے کے چھلکے پر سے بھی لوگ زیادہ تر گرتے ہیں‘ اس لیے بہتر ہے کہ کیلے پر پابندی لگا دی جائے‘ کیونکہ پاکستان میں اس کے علاوہ بھی پھل کافی مقدار میں پیدا ہوتا ہے‘ جیسا کہ محنت کا پھل‘ لیکن یہ عام طورپر کچا ہی رہتا ہے اور اسے پکانے کے لیے پَیل ڈالنی پڑتی ہے اور یہ کوئی مشکل کام بھی نہیں ہے ‘کیونکہ جب آموں کیلئے پیل ڈال سکتے ہیں‘ تو محنت کے پھل کیلئے کیوں نہیں ؟جبکہ ہمارے قائد بھی محنت کا پھل ہی کھا رہے ہیں‘ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ذرا زیادہ ہی کھا گئے‘ جس سے مسائل پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں ادریس بابر کی شاعری کے کچھ نمونے:
یہ نہر اُس کی ہے‘ اس پر کنارا اُس کا ہے
وہ جس کے ساتھ ہے سارے کا سارا اُس کا ہے
دل کی دھڑکن بھی ہے تشویش کا باعث بابرؔ
یہ دھماکے سے ذرا قبل کی ٹِک ٹِک ہی نہ ہو
ہمیں وہ جو اک دوسرے سے نہیں
محبت سمجھ لو وہی چیز ہے
تیری آنکھوں پہ مرا خوابِ سفر ختم ہوا
جیسے ساحل پہ اُتر جائے سفینہ مرے دوست
تُو ہو اور میں ہوں کسی جگہ پہ اور وقت بھی ہو
اتنی گنجائشیں رکھتی نہیں دنیا مرے دوست
کسی کسی کو ہے تہذیبِ دشت آرائی
کئی تو خاک اُڑاتے ہوئے نکلتے ہیں
عجیب دشت ہے دل بھی جہاں سے جاتے ہوئے
وہ خوش ہیں اور کسی باغ سے نکلتے ہوئے
اتنی گھپ چپ کہ بولنے والا
اپنی آواز دیکھ سکتا ہے
ہاتھ دُنیا کا بھی ہے دل کی خرابی میں بہت
پھر بھی اے دوست تری ایک نظر سے کم ہے
دگرگوں سب سفینوں اور جزیروں کا مقدر لگ رہا تھا
وہ اتنی خوبصورت تھی کہ اُس کو دیکھ کر ڈر لگ رہا تھا
آج کا مطلع
پھرا کرو اب روٹھے
تم روٹھے‘ ہم چُھوٹے