تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     10-12-2018

خدا کی رحمت

قرآن کہتاہے کہ اللہ نے جب مخلوقات کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا‘ تواپنے اوپر رحمت کو لازم کر لیا۔ اس رحمت کی بہت سی صورتیں ہیں ۔ ہمیں ان کے بارے میں کچھ خاص علم نہیں ‘بلکہ ہم لوگ کہتے ہیں کہ دنیا میں اتنی نا انصافی ہے ‘ اتنا ظلم ہے ‘ اتنی بھوک اور اتنی غربت ہے تو پھر خدا کی رحمت کہاں ہے ۔ اس بارے میں ‘ میں نے بہت سی دلچسپ باتیں observeکیں ۔
سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ خدا کیا واقعی مخلوق پہ مہربان ہے ؟ جی ہاں ‘ اس قدر مہربان کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔اس رحمت کی حد دیکھیے کہ جانداروں کے لیے ماں باپ کا ادارہ تخلیق کیا۔ انتہائی حد تک خودغرض جانور جو ایک دوسرے کو نوچ نوچ کر کھا جاتے ہیں ‘ وہ بھی اپنی اولاد کے لیے انتہائی حد تک تکلیف برداشت کرتے ہیں ۔ یہ جو محبت ماں باپ کے دلوں میں اتاری گئی ‘ یہ مصنوعی ہے ۔ یہ اس لیے پیدا کی گئی‘ تاکہ تازہ پیدا ہونے والے جاندار‘ جب تک اپنے پائوں پر کھڑے نہ ہو جائیں ‘ تب تک ان کے جوان اور صحت مند والدین ان کی حفاظت کرتے رہیں ۔ یہ محبت اس قدر مصنوعی ہے کہ جب Tigersبڑے ہو جاتے ہیں تو پھر وہ اپنی ماں سے علاقے کی ملکیت پہ خونخوار جنگ پہ اتر آتے ہیں ۔ دنیا کی ہر زبان میں ماں کی محبت کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے ۔ جب کہ باپ کا سایہ جن کے سروں پر نہیں ہوتا ‘ ان کا حال بھی ہم نے دیکھا ہے ۔ 
خدا کی انسان سے محبت کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ اس نے دماغ میں حالات کے مطابق سنبھل جانے اور سمجھوتہ کرنے کی صلاحیت پیدا کی۔ آپ کو دنیا جہان کا جو بھی دکھ ہو‘ محبوب نے دل توڑا ہو‘ بچہ فوت ہو گیا ہو ‘ طلاق ‘ امتحان میںناکامی‘ ہر غم اور ہر دکھ وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتا چلا جاتاہے ۔ پھر ایک دن آتا ہے کہ جس شخص کے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے ہوتے ‘ وہ مسکرانے لگتا ہے ۔ اگر دماغ میں یہ صلاحیت اللہ نے نہ رکھی ہوتی کہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس کا صدمہ کم ہوتا جائے گا‘ تو انسان کبھی Traumaسے باہر نہ نکل سکتا اور زندگی کبھی بھی نارمل نہ ہو سکتی ۔ 
دماغ کی اسی صلاحیت کا نتیجہ یہ ہے کہ یتیم اور مصیبت کے مارے بچّے ناز و نعم میں پلنے والوں کی نسبت کہیں زیادہ تیز طرار (sharp)ہو جاتے ہیں ۔ آپ اندازہ اس سے لگائیے کہ انسانی تاریخ میں دنیا پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی ذات سرکارِ دو عالمؐ پیدائشی طور پر یتیم تھے ۔جہاں جہاں آپ کو غیر معمولی لوگ نظر آئیں گے‘ ان کی ابتدائی زندگی میں بے انتہا تکالیف نظر آئیں گی ۔ ان چیزوں سے گزرنے کے بعد انسان انتہائی مضبوط ہو جاتاہے ۔
خدا مخلوقات پہ اس قدر مہربان ہے کہ اس نے نیند تخلیق کی۔ شدید تھکا ہوا انسان چند گھنٹوں کے لیے ‘دنیا جہان سے بے خبر ہو جاتا ہے ۔ جب وہ سو کر اٹھتا ہے تو ہشاش بشاش ہوتاہے ۔ اس نیند کی قدر ان سے پوچھئے کہ جنہیں سونے میں دقت پیش آتی ہے ۔وہ کوئی بھی کام کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ ہر وقت وہ تھکاوٹ ہی محسوس کرتے رہتے ہیں ۔ 
اسی طرح خدا نے جانداروں کو بھوک میں خوراک فراہم کرنے کا بندوبست کیا۔ قرآ ن کہتاہے کہ زمین میں کوئی چلنے والا (جاندار) ایسا نہیں ‘ جس کا رزق ہمارے ذمے نہ ہو ...پھر لوگ سوا ل کرتے ہیں کہ دنیا میں تو بہت سے لوگ بھوکے بھی رہتے ہیں ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جس کے نصیب میں جتنا لکھ دیا گیا ہے ‘ اتنا رزق اسے ملے گا ۔ اگر اس کے نصیب میں نہیں ‘تو ساری مال و دولت کے باوجود وہ کچھ بھی نہیں کھا سکے گا۔ آپ سب اپنے اردگرد نظر دوڑائیں ۔ بے شمار لوگ مل جائیں گے ‘جو دولت کے باوجود کھا نہیں سکتے ۔ جسم قبول ہی نہیں کرتا۔ ڈپریشن کی وجہ سے بھوک ہی نہیں لگتی ۔جب کہ اکثر مزور ایک وقت میں تین تین روٹیاں کھا جاتے ہیں ۔وہ شوگر اور بلڈ پریشر جیسی بیماریوں سے بھی بچے رہتے ہیں ۔ دوسری طرف بہت سے امیر لوگ بسیار خوری کی وجہ سے موٹاپے کا شکار ہوتے ہیںاور وہ بہت سی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ 
اسی طرح آپ دیکھیں کہ ایک شخص دنیا جہان کی دولت کے باوجود کسی لا علاج بیماری کا شکار ہو جاتا ہے ۔ اسے کوئی بھی نہیں بچا سکتا۔ محمد علی دنیا کا سب سے بڑا باکسر تھا۔ اسے پارکنسن ہوگئی ‘ وہ تین عشرے بیمار رہ کر فوت ہوا۔ جس کے نصیب میں بیماری اور تکلیف کی آزمائش لکھی ہوئی ہے ‘ وہ اپنی تمام تر دولت استعمال کر کے بھی اس سے بچ نہیں سکتا۔چوہدری شجاعت حسین نے ایک دفعہ یہ کہا تھا کہ پارکنسن کے علاج کے لیے میں ساری دنیا پھرا ہوں ‘لیکن اس کا کوئی علاج ہے ہی نہیں۔اگر آپ کچھ عرصہ غریبوں کے ساتھ رہیں اور کچھ عرصہ امیروں کے ساتھ تو آپ دیکھیں گے کہ امیر طبقہ غربا سے کم پریشان نہیں۔پرُسکون صرف وہ ہے ‘ جس کا خدا کے ساتھ تعلق ہے ۔
خدا کی ایک بہت بڑی رحمت یہ ہے کہ اس نے امیر او رغریب کی تخصیص کے بغیر سب میں قدرتی مدافعاتی نظام (Immune system)رکھا۔ اس امیون سسٹم کی وجہ سے کھربوں جانور جو جنگلات میں رہتے ہیں اور گلیوں میں پھرنے والے کتے ‘بلیاں جنہیں کسی ڈاکٹر تک رسائی حاصل نہیں ‘ پوری زندگی صحت مندی کے ساتھ گزار تے ہیں ۔ یہی امیون سسٹم ہے ‘ جس کی وجہ سے زیادہ تر انسان آلودہ پانی پینے کے باوجود شدید بیماری سے بچے رہتے ہیں ۔ 
البتہ ایک چیز ہے ‘ جس کا کوئی حل نہیں اور وہ یہ کہ سب جاندار چیزوں کو بالآخر بوڑھا یا بیمار ہو کرمرنا ہوتا ہے ۔ بیماری اور موت بہت تکلیف دہ چیز ہے ۔ انسان جتنی مرضی شاندار زندگی گزارے‘ آخر کار بڑھاپا‘ بیماری اور موت ہی ہے ۔ اس کا کوئی حل نہیں ہے ‘ کوئی علاج نہیں ۔ اس ساری داستان کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان جتنی مرضی کوشش کر لے‘ اپنی اس زندگی کو ایک خاص حد سے زیادہ آرام دہ نہیں بنا سکتا۔ فرض کریں آپ کو زندگی کی ہر خوشی ‘ ہر سہولت‘ صحت ‘ سب کچھ میسر ہے ‘لیکن آپ کی اولاد میں سے ایک تیز طرار اور ایک بالکل احمق نکل آئے ‘تو آپ کا ذہن اس پریشانی سے ہی نہیں نکلے گا کہ سادہ بچّے کا دنیا میں کیا بنے گا ۔ 
اس کے علاوہ ایک اور بہت دلچسپ چیز میں نے نوٹ کی کہ بسا اوقات ایک شخص جو حالات کا مارا ہوا اور انتہائی مظلوم نظر آرہا ہوتاہے‘ وہ وقت آنے پر ایسا بے رحم ثابت ہوتا ہے کہ آدمی ہکّا بکا رہ جاتا ہے ۔ ایک دفعہ دو مظلوموں کو میں نے ایک دوسرے کا وہ حال کرتے دیکھا کہ کانوں کو ہاتھ لگائے ۔ 
درد ہمیں کتنی بری چیز لگتی ہے‘ لیکن درد نہ ہوتا تو جاندار کبھی اپنی زندگی کی حفاظت نہ کرتے ۔ بھوک کا احساس اگر نہ ہوتا توجاندار کھانا بھول جاتے ۔ چلتے رہتے ؛ حتیٰ کہ توانائی سے محروم ہو کر گر کے مر جاتے ۔
اللہ تو مہربان ہے ۔نہ ہوتا تو والدین اور نیند تخلیق نہ کرتا ۔ دماغ میں بتدریج ٹراما سے نکلنے اور حالات کے مطابق سنبھلنے کی صلاحیت پیدا نہ کرتا‘ لیکن انسان کبھی خدا کی حکمتوں کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved