دیہات اور چھوٹے سے قصبوں کا رہائشی ہونے کے ناتے سے ایک میں ہی نہیں‘ بلکہ کروڑوں لوگوں کو یاد ہو گا کہ ہمارے ملک کے ہر گائوں میں دس‘ بیس ایسی عورتیں اور گھر ہوتے تھے ‘جہاں دس ‘بیس مرغیاں اور بکریاں پالی جاتی تھیں اور ان کے انڈے اوردودھ وغیرہ بیچ کر وہ گھرانے اپنا گزارا کرتے۔ اگر کبھی زیا دہ بیمار ہو ئے یا گرمیوں سردیوں کیلئے لباس کی ضرورت ہوئی توقریبی شہر جا کر دو مرغیاں بیچ کر اپنا یا بچوں کا لباس خرید لیا جاتا۔ بلوچستان میں تو آج بھی غریب لوگوں کو ایک بکری بطورِ امداد دی جاتی ہے‘ جس سے وہ لوگ زندگی گزارنے کیلئے اپنی آمدنی کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں اور جن کے پاس کوئی دوسرا ذریعہ معاش نہیں ہوتا تھا انہیں اس طرح نقل مکانی کرتے ہوئے ‘اپنا وہ علا قہ بھی نہیں چھوڑنا پڑتا تھا۔
عید الاضحی کے موقع پر ہم سب دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ بیو پاریوں کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں ‘جو بکروں اور بیلوں کی جوڑیاں اور اونٹ بیچنے کیلئے جگہ جگہ کھڑے یا چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ سارا سال یہ لوگ ان جانوروں کو پالتے ہیں اور پھر قربانی کے موقع پرانہیںفروخت کر کے اپنے سال بھر کے اخراجات پورے کرنے کے بعد پھر سے بکری کا بچہ یا کٹی ‘کٹا(بچھڑا) پالنا شروع کر دیتے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے ان جیسی غریب عورتوں سمیت ملک کے دور دراز اور مشکل ترین حالات میں پہاڑوں اور ریگستانوں میں زندگی گزارنے والوں کی غربت ختم کرنے کیلئے ان کے چھوٹے چھوٹے دیہات اور گوٹھوں میں مرغی‘ انڈے اور کٹی ‘ کٹاپالنے کی سہولت دینے کی بات کی۔ عمران خان کی جو نیت تھی اس سے اﷲ سبحان تعالیٰ یقینا واقف ہیں ‘اس لئے اپوزیشن اور کرائے کی نقادوں کے طعنوںا ور مذاق کو نظر انداز کرکے اپنے اس مشن کو وسیع پیمانے پر صاف ستھرے انداز میں انہیںبغیر کسی تاخیر کے شروع کر دینا چاہئے۔
وزیر اعظم عمران خان کا اینکر زاور پینکرز اس لئے مذاق اڑا رہے ہیں‘ کیونکہ ان کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ انہوں نے مرغی ‘انڈے اور کٹی‘ کٹے کی بجائے پیلی ٹیکسیوں جیسی کوئی سکیم شروع کیوں نہیں کی۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی سیا سی دکان چمکانے کے ساتھ لوٹ مار کرنے اور اپنے لئے ڈھیروں ووٹ اور نوٹ کھرے کرنے کیلئے ایک لاکھ سے زائد پیلی ٹیکسیوں کیلئے جاپان یا کوریا کو ڈائیو‘ نسان‘ مرسیڈیز جیسی گاڑیوں کے آرڈر دیتے ہوئے فی ٹیکسی ایک سے تین لاکھ روپے کمیشن وصول کرتے ہوئے اپنی جیبیں کیوں نہیں بھریں؟ ووٹروں کے اس نعرے کو ایک بار پھر زندہ کیوں نہیں کیا کہ اگر وہ'' کھاتے ہیں ‘تو لگاتے بھی تو ہیں ‘‘۔
میاں نواز شریف کی پیلی ٹیکسی سکیم نے اس ملک کے بینکوں کا کس قدر بیڑہ غرق کیا‘ اس کیلئے ڈاکٹر اظہر عطا ملک کی صرف ایک مثال سامنے رکھ رہا ہوں‘ جس نے ایک پاکستانی بینک سے جعلی ناموں پر اکائونٹس کھولے اور بوگس ایڈریس دیتے ہوئے40 پیلی ٹیکسیاں بک کروائیں اور اس قوم کا 7.746 ملین روپیہ ہضم کیا اور شریف فیملی کے اس طرح کے بہت ہی قریبی دوستوں کو میاں برادران کی الیکشن کمپین کیلئے کروڑوں روپوں کی سرمایہ کاری کرنے والے کو پیلی ٹیکسی سکیم کے نام سے پندرہ پندرہ مرسیڈیز دی گئیں‘ وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں‘ کیونکہ یہ گاڑیاں ان کے ہوٹلوں اور فیکٹریوں سمیت کاروباری اداروں کے زیر زمین گیراج میں کھڑی دیکھی جاتی رہی ہیں ۔
کل تک جو غریب اور مستحق سمجھی جانے والی خواتین کو کسی نہ کسی وزیر کے ہاتھوں سلائی مشین بانٹتے ہوئے ان کی تصویریں اخبارات اور ٹی وی پر دکھائی جاتی تھیں ‘یہ سب کیا تھا؟ وزیر اعظم عمران خان کا دور دراز دیہات میں مرغیاں اور کٹی یا کٹے پالنے کی سکیم کا مذاق اڑاتے ہوئے دانشوروں‘ قلم کاروں اور تجزیہ نگار وں کے ساتھ ساتھ اپنی اپنی قیادت کی بولیاں بولنے والے سیاستدان ‘جو کبھی معاشرے کی فکری نشو و نما میں ایک اہم کردارکیا کرتے تھے‘ بد قسمتی کہہ لیجئے کہ اپنی '' پرورش‘‘ کرنے کیلئے مرغی‘ انڈے اور بچھڑے کے حوالے سے چند دنوںسے ٹی وی کی سکرینوں پر ٹاک شوز میں اپنی جہالت‘ پھکڑ بازی اور تماش بینی کی انتہا کئے جا رہے ہیں۔کیا یہ نہیں جانتے کی مائیکرو اکنامک کی تعریف کیا ہے؟اگر یہ سب نقاد1687ء سے اب تک تمام ماہرین معاشیات کی کتابیں اور مضامین پڑھ لیں تو ان میںمرغیاں‘ انڈے اور کٹے‘ کٹیاں پالنے کی ترغیب ملے گی ‘ بلکہ ان پر ایک نہیں‘ دنیا بھر کے درجنوں چوٹی کے ماہرین معاشیات کی لکھی سینکڑوں مائیکرو اکنامکس کی تفصیلات دیکھنے اور پڑھنے کو ملیں گی۔
پیارے نبی محمد ِمصطفیٰﷺ کے دورمیں روزگار حاصل کرنے کیلئے جنگل سے لکڑیاں کاٹنے کیلئے ایک کلہاڑا دیئے جانے کا واقعہ کسے یاد نہیں؟یہی تو مائیکرو اکنامکس ہے۔ جب بلاول بھٹو سمیت پی پی پی کے لوگوں کو ٹی وی پر بیٹھ کر مرغی انڈے کے حوالے سے پھکڑ بازی کرتے دیکھا تو یقین ہو گیا کہ سوشلزم کا شور مچانے والے ان لوگوں نے کارل مارکس کا صرف نام ہی سنا ہے ‘ان کا ایک لفظ بھی نہیں پڑھا اور شاید یہی وجہ ہے کہ غربت کی بجائے اپنے ہر دور میں غریب ہی ختم کرنے میں جتے رہے ‘ ورنہ انہیں کمیون کے مآخذ کا علم ضرور ہوتا‘ جس میں مرغی انڈے اور کٹی‘ کٹے کو ایک اجتماعی اشتراکی معیشت کے قیام میں ایک بنیادی اکائی قرار دیا گیا ۔ ابتدائی قبائلی کمیون کے دور کی بات کریں تو اس وقت انڈے ‘مرغی اور کٹے‘ کٹی پر مبنی معاشی نظام کس سے اوجھل ہے؟بلاول بھٹو سمیت پی پی پی کے لیڈران جب ٹی وی کی سکرینوں پر مدعو کرنے والے اینکرز کو خوش کرنے کیلئے مرغی‘ انڈے کا مذاق اڑاتے ہیں‘ تو شاید وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کٹی‘ کٹے یا مرغی کی بجائے '' غربت ختم کرنے کیلئے سنیما کے ٹکٹ بلیک کرنے چاہئیں‘‘۔
اکنامکس کے باپ سمجھے جانے والے سکاٹ لینڈ کے ایڈم سمتھ‘ لندن کے چوٹی کے ماہر معیشت الفریڈ مارشل‘ سوئس ریا ضی دان اور ماہر معیشت نکولس برنولی اور آسٹریا کے چوٹی کے معیشت دان آسکر مارگنسٹرن‘ جو 1977ء میں فوت ہوئے ‘ ان سب نے مائیکرو اکنامکس کیلئے مرغی انڈے اور کٹے‘ کٹی کو لازمی قرار دیا۔آج بھی ایشیا اور افریقہ کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے دیہی علا قوں میں انسانی استعمال کے گوشت کیلئے استعمال ہونے والے پرندوں کی NATIVE BREEDS کو انتہائی اہمیت دی جاتی ہے۔ بچھڑے یا گائے کے گوشت یا مرغی اور اس کے انڈوں کے استعمال اور ان کی پرورش دیہات میں کسی بھی ہنگامی ضرورت کیلئے ہر وقت میسر آنے والی نقد رقم سمجھی جاتی ہے اور ساتھ ہی انسانی جسم کیلئے مطوب پروٹین کے حصول کا ذریعہ بھی۔
ہمارا کوئی ایک ٹی وی اینکر‘ اگر دنیا کے مشہور ترین ماہرین معیشت میں سے ایکE H F GUEYE کی ورلڈ پولٹری سائنس جرنل کے 1998ء میں شائع والیم54 میں لکھے جانے والے مضمون''Village egg and Fowl meat production in Africa'' کو صرف ایک مرتبہ غور سے پڑھ لیتے‘ تو وزیر اعظم عمران خان کے اس موضوع پر دیئے گئے بیان کو '' اپنا ہاسا‘‘ نہ بناتے۔
معروف صحافی عارف نظامی کی زیر ادرات شایع ہونے والے موقر انگریزی اخبارمیں شائع ہونے والی وہ رپورٹ آج بھی محفوظ ہے‘ جس میں میاں شہباز شریف کی بطور ِوزیر اعلیٰ پنجاب2011-12 ء کے بجٹ میں 3.5 ارب روپے سے شروع کی جانے والی پیلی ٹیکسی سکیم کیلئے سب سے پہلا حق دار مسلم لیگ نواز کے عسکری ونگ سے تعلق رکھنے والی طلبا تنظیم ‘مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کو یہ کہتے ہوئے قرار دیا گیا کہ ان کی قربانیوں اور محنت کا صلہ دینے کیلئے سب کو سواری کا مالک بنایا دیا گیا ہے۔