جناب الطاف حسن قریشی کا خیال تھا کہ وہ پنجاب یونیورسٹی ایلومینائی کے اس تاسیسی اجلاس میں سب سے سینئر ہیں لیکن یہاں پروفیسر ڈاکٹر مریم بھی تھیں، الطاف صاحب سے سات، آٹھ سال سینئر۔ الطاف صاحب 1947ء میں ہجرت کے وقت میٹرک پاس تھے۔ یہاں آ کر محکمہ انہار میں ملازم ہو گئے اور پرائیویٹ تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ 1953ء میں پنجاب یونیورسٹی شعبہ علوم اسلامیہ میں داخلہ لیا۔ تب علامہ علائوالدین صدیقی اس شعبے کے سربراہ تھے (بعد میں وائس چانسلر بھی بنے) الطاف صاحب یہاں سے فراغت کے بعد پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ میں چلے آئے۔ شاید بہت سے قارئین کے لیے یہ بات حیرت کا باعث ہو کہ تب پنجاب یونیورسٹی میں اس شعبے کے سربراہ ڈاکٹر فٹرز (Fitters) جرمن یہودی تھے‘ جو ہٹلر کے دور میں جان بچا کر انگلستان پہنچ گئے تھے (اور وہاں سے پنجاب یونیورسٹی چلے آئے) الطاف صاحب کو یاد ہے کہ نازی دور میں وہ جس ذہنی و جسمانی عذاب سے گزرے، اس کے اثرات اب تک باقی تھے، جس کا اظہار کبھی ان کی خود کلامی سے بھی ہوتا۔
ڈاکٹر مریم بتا رہی تھیں کہ انہوں نے1948ء میں پنجاب یونیورسٹی سے فرسٹ پوزیشن کے ساتھ جغرافیہ میں ماسٹرز کیا۔ یہاں لیکچرر کی خالی اسامی کے لیے انہوں نے بھی اپلائی کر دیا؛ تاہم سلیکشن بورڈ کے سامنے مسئلہ یہ تھا کہ ایک خاتون کو کیسے بھرتی کر لیا جائے؟ لیکن قواعد و ضوابط میں اس کے لیے مرد ہونا لازم نہیں تھا اور مریم صاحبہ باقی مرد امیدواروں سے میرٹ میں بہت آگے تھیں؛ چنانچہ سلیکشن بورڈ کو یہ کڑوی گولی نگلنا ہی پڑی اور وہ پنجاب یونیورسٹی میں پہلی خاتون استاد ہو گئیں۔ بعد میں اپنے شعبے کی سربراہ بھی رہیں۔ الطاف صاحب کو یاد ہے کہ وہ یونیورسٹی کی بڑی دبنگ اور دبدبے والی استاد تھیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے اس دور کی خوشگوار یادیں تازہ کیں۔ تب تعلیمی اداروں اور اساتذہ کو معاشرے میں تقدس اور احترام حاصل تھا، ڈاکٹر عمر حیات ملک وائس چانسلر تھے (پاکستان بننے کے بعد پہلے مسلمان وائس چانسلر جو ستمبر 1947ء میں اس منصب پر فائز ہوئے) محکمہ تعلیم کی طرف سے رجسٹرار کو ایک نوٹیفکیشن موصول ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے کوٹ کی ایک جیب میں یہ نوٹیفکیشن اور دوسری جیب میں اپنا استعفیٰ ڈالا اور گورنر ہائوس پہنچ کر عبدالرب نشتر کے سامنے نوٹیفکیشن اور اپنا استعفیٰ‘ دونوں رکھ دیئے۔ ان کا موقف تھا کہ یونیورسٹی ایک آزاد اور خود مختار ادارہ ہے، محکمہ تعلیم کی طرف سے اس کے معاملات میں مداخلت اختیارات سے تجاوز اور اس ادارے کی توہین ہے۔ گورنر صاحب کی اس یقین دہانی پر کہ وہ اس معاملے کا نوٹس لیں گے اور آئندہ ایسی حرکت نہیں ہو گی، وی سی صاحب استعفیٰ واپس لینے پر آمادہ ہوئے (کہا جاتا ہے، فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں پروفیسر حمید احمد خان بھی اسی طرح کے اختلاف کے باعث وائس چانسلرشپ سے مستعفی ہو گئے تھے) 90 سال سے زائد عمر میں بھی ڈاکٹر مریم کی آواز میں وہی طنطنہ تھا۔ ان کا کہنا تھا: آج وائس چانسلرز کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے (شاید ان کا اشارہ گزشتہ دنوں وائس چانسلر حضرات اور ان کے رفقا کے لیے نیب کی ہتھکڑیوں کی طرف تھا) ڈاکٹر صاحبہ کہہ رہی تھیں: ہمیں کوئی ''نیا پاکستان‘‘ نہیں وہی قائد اعظم کا پرانا پاکستان چاہیے۔ مشرقی پاکستان واپس نہیں آ سکتا تو اس (بنگلہ دیش) کے ساتھ کنفیڈریشن کی کوئی صورت ہی نکالی جائے (ظاہر ہے، یہ ڈاکٹر صاحبہ کا ہی خواب تھا، ایک ایسی خاتون کا خواب جس نے قائد اعظم کا پاکستان اپنی آنکھوں سے بنتے دیکھا اور اس میں عملی حصہ بھی لیا)۔ دسمبر کے مہینے میں انہیں پھر قائد اعظم کے پاکستان کا ٹوٹنا یاد آیا۔
دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
جب چلی ٹھنڈی ہوا، میں نے تجھے یاد کیا
14 اکتوبر 1882 کو قائم ہونے والی یونیورسٹی کی ''ایلومینائی‘‘ کا خیال موجود ہ وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز صاحب کا برین چائلڈ تھا۔ ڈاکٹر صاحب بھی اس یونیورسٹی کے ایلومینائی ہیں، کیمیکل ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ سے انجینئرنگ کے بعد یہیں لیکچرر ہو گئے۔ تین چار سال بعد انگلستان کا رخ کیا اور لیڈز یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی ہو گئے۔ وہاں نہایت پُر کشش ملازمت کی پیشکش موجود تھی (تب پاکستانی کرنسی میں ڈیڑھ لاکھ روپے) لیکن انہوں نے وطن واپسی کو ترجیح دی (پی ایچ ڈی کے بعد یہاں ان کی تنخواہ گیارہ ہزار کے لگ بھگ تھی) پنجاب یونیورسٹی میں انہوں نے انسٹی ٹیوٹ آف کوالٹی اینڈ ٹیکنالوجی قائم کیا۔ نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی فیصل آباد اور پھر یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ٹیکسلا کے سربراہ رہے۔ اپنی گراں قدر خدمات کے باعث ''ستارۂ امتیاز‘‘ کے مستحق قرار پائے۔ اب چھ ماہ سے جنوبی ایشیا کی اس عظیم اور قدیم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں۔ ٹیکسٹائل یونیورسٹی فیصل آباد اور انجینئرنگ یونیورسٹی ٹیکسلا کی طرح وہ یہاں بھی بہت کچھ نیا کر رہے ہیں۔ ایلومینائی کا آئیڈیا بھی ان کی اسی ندرتِ فکر کا اظہار ہے۔ اس ہفتے کو وہ تاریخی دن تھا جب یہ خیال مجسم ہوا۔ اس کے لیے 'آن لائن رجسٹریشن‘‘ ہوئی۔ یونیورسٹی کے سابق طلباء و طالبات سے کہا گیا کہ وہ اپنے اپنے ڈیپارٹمنٹس میں جمع ہوں، جہاں لنچ پر کئی شناسا چہرے برسوں بعد یکجا ہوئے۔ آج کے بکھیڑوں کو بھول کر وہ عہد ماضی کی یادیں تازہ کر رہے تھے لیکن یہ یادیں عذاب نہیں تھیں (جن کے لیے شاعر نے حافظہ چھن جانے کی دعا کی تھی) لنچ کے بعد ان کا رخ فیصل آڈیٹوریم کی طرف تھا۔ تقریباً دو ہزار نشستوں والے آڈیٹوریم میں تل دھرنے کو جگہ نہ رہی۔ منتظمین کو پہلے سے اندازہ تھا؛ چنانچہ آڈیٹوریم کے باہر بھی ہزاروں نشستوں کے ساتھ سی سی ٹی وی کا اہتمام تھا۔ صدر مملکت عارف علوی نے (مہمان خصوصی کے طور پر) شرکت کی ہامی بھر لی تھی ( لاہور کے کالج آف ڈینٹسٹری کے فارغ التحصیل ہونے کے ناتے جناب علوی بھی پنجاب یونیورسٹی کے ایلومینائی ہیں) لیکن اہم تر مصروفیات سدِ راہ ہو گئیں اور سابق وائس چانسلر ڈاکٹر رفیق احمد ان کے جانشین قرار پائے۔ مختلف شعبہ ہائے حیات کی کہکشائیں تھیں جن سے ماحول جگمگا رہا تھا۔ حفیظ خان 1970-71 کے ہنگامہ خیز دور میں پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ (جاوید ہاشمی ان کے سیکرٹری جنرل تھے) 1970ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے پنجاب میں ''سویپ‘‘کیا تھا۔ یہ بھٹو مخالف حلقوں کے لیے خطرے کی گھنٹی تھی لیکن پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے انتخابات نے انہیں نیا حوصلہ دیا۔ دائیں بازو (جمعیت) کے پینل نے پیپلز پارٹی کے حامی (بائیں بازو کے) پینل کو شکست دے دی تھی۔ (یاد پڑتا ہے، اس پینل کا صرف ایک امیدوار جیتا تھا، نائب صدر راشد بٹ۔ حفیظ خان نے مرنجاں مرنج جہانگیر بدر (مرحوم) کو شکست دی تھی جو اس سے پہلے حافظ ادریس کے ہاتھوں بھی شکست کھا چکے تھے) حفیظ خان ایلومینائی کے اولین صدر قرار پائے ہیں۔ ڈاکٹر نیاز بتا رہے تھے کہ اپنے اپنے عہد کی کیسی کیسی نامور ہستیاں پنجاب یونیورسٹی سے فیض یاب ہوئیں (موجودہ سیاستدانوں میں نوازشریف، شہباز شریف، یوسف رضا گیلانی، جاوید ہاشمی اور لیاقت بلوچ سمیت کتنے ہی)۔ سابق سٹوڈنٹس یونینز کی نمائندگی فرید پراچہ نے کی۔ ان کا کہنا تھا: پنجاب یونیورسٹی ہمیشہ اسلام اور پاکستان کی علامت رہی (یہاں وہ جمہوریت کا نام لینا بھول گئے) غلام عباس 1970 کے عشرے میں بائیں بازو کی طلبہ سیاست کا بڑا نام تھے۔ عملی سیاست کے لیے پیپلز پارٹی ان کا انتخاب تھی۔ اس میں ہر آزمائش کا مقابلہ کیا اور بے نظیر صاحبہ کے دوسرے دور میں پنجاب میں وزیر بھی رہے۔ ان دنوں تحریک انصاف میں ہوتے ہیں۔ غلام عباس نے ان دنوں کو یاد کیا، جب تعلیمی اداروں میں نظریاتی سیاست ہوتی تھی۔ دائیں اور بائیں کے اپنے اپنے نظریاتی خواب تھے جو بکھر گئے اور نوبت بہ ایں جا رسید کو لاہور کے حلقہ 120 کے ضمنی انتخاب میں رائٹ والوں (جماعت اسلامی) نے صرف 600 اور لیفٹ والوں (پیپلز پارٹی) نے 1200 ووٹ حاصل کئے۔ گویا عام آدمی کے نزدیک یہ دونوں فراڈ نکلے اور لوگ ''روایتی سیاست‘‘ کی طرف چلے گئے۔ قمر زماں کائرہ نے سٹوڈنٹس یونینز کے فیوض و برکات پر روشنی ڈالتے ہوئے، ان کی بحالی کا مطالبہ کیا۔
آخر میں ریکارڈ کی درستی کے لیے: پنجاب یونیورسٹی قیامِ پاکستان کے وقت نوزائدہ مملکت کی واحد یونیورسٹی نہیں تھی۔ اُدھر مشرقی پاکستان میں ڈھاکا یونیورسٹی بھی تھی جو 1911ء میں قائم ہوئی۔