تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     12-12-2018

سرخیاں ،متن اورشعر و شاعری

کابینہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی:عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''کابینہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی‘‘ کیونکہ جو تبدیلی ہم لانا چاہتے تھے اور جو ہمارا اصل نعرہ تھا‘ وہ تبدیلی آچکی ہے اور اس کے بعد کسی اور تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے‘ کیونکہ سوال یہ ہے کہ ہم تبدیلیاں ہی لاتے رہیں یا حکومت کریں؟ چنانچہ ہم مزے سے حکومت کر رہے ہیں اور سارے کام اللہ میاں کے سپرد کر رکھے ہیں اور اسی لئے اسے کار ساز بھی کہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ لوگوں کے مسائل حل کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے‘لیکن وہ لوگوں کے مسائل پڑھا رہی ہے‘ نیز کس افسر کا تبادلہ کہاں کرنا ہے‘ کس کو ترقی دینی ہے وغیرہ وغیرہ‘ اس کا اشارہ ہمیں روحانی طاقت کے ذریعے مل جاتا ہے اور سارا کام خوش اسلوبی سے چل رہا ہے۔ آپ اگلے روز کابینہ اجلاس کے بعد اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں: بلاول 
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں‘‘ اس لئے اگر پاکستان میں بھی ہو رہی ہیں‘ تو کوئی مضائقہ نہیں کہ آخر ہم نے بھی تو دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر ہی چلنا ہے؛ البتہ کہیں کہیں یہ خلاف ورزیاں کچھ زیادہ ہی ہو رہی ہیں؛ حتیٰ کہ اب ہم باپ بیٹوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی شروع ہوگئی ہیں؛ اگرچہ ہمارے لئے یہ بھی معمول کی بات ہے‘ بلکہ والد صاحب کا تو اس ضمن میں دس سالہ تجربہ بھی حاصل ہے اور غالباً انہیں مزید تجربہ حاصل کرنے کی بھی ضرورت ہے‘ کیونکہ تجربہ تو جتنا بھی ہو‘تھوڑا ہی ہوتا ہے‘ جبکہ عمر کے لحاظ سے میں بھی کافی ناتجربہ کار واقع ہوا ہوں‘ اس لئے دس سال نہ سہی‘میرے لئے کم از کم دو چار سال کا تجربہ تو نہایت ضروری ہے۔آپ اگلے روز اسلام آباد میں انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
جیل تو جیل ہے‘ سختیاں برداشت کرناہوںگی: شہباز شریف
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''جیل تو جیل ہے‘ سختیاں برداشت کرنا ہوںگی‘‘ جبکہ میری تو ایک طرح سے پریکٹس ہو رہی ہے ‘کیونکہ مقدمات کا جو انبار میرے خلاف لگ رہا ہے‘ اس کے نتیجے میں تو بقایا عمر عزیز انہی سختیوں میں ہی گزرے گی‘ کیونکہ شروع شروع میں تو یہ سختیاں واقعی سختیاں ہی لگتی ہے‘ جبکہ رفتہ رفتہ ہی آدمی ان کا عادی ہوتا جاتاہے‘ بلکہ یہ عادت ہو جاتی ہیں اور اگر ان سختیوں کا سلسلہ بند ہو جائے یا رک جائے‘ تو طبیعت خراب ہونے لگتی ہے اور جب تک یہ دوبارہ نہ شروع ہوں‘ طبیعت بحال ہی نہیں ہوتی ‘جبکہ آدمی جیل میں ہو یا باہر طبیعت کا بحال رہنا بیحد ضروری ہے۔ آپ اگلے روز سب جیل میں شاہد خاقان عباسی وغیرہ سے ملاقات کر رہے تھے۔
جھوٹ سے حکومتی کاموں میں برکت ختم ہوگئی: مریم اورنگزیب
سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور (ن) لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''جھوٹ سے حکومتی کاموں میں برکت ختم ہوگئی‘‘ جبکہ ہمارے دور میں جھوٹ بھی بہت بابرکت ہوا کرتا تھا ‘جو میڈیا میں اپنی کارکردگی کے حوالے سے بولا جاتاتھا اور ساتھ ساتھ خوشحالی میں بھی دن دگنی ‘رات چوگنی ترقی ہو رہی تھی‘ جبکہ سیاسی بیانات اس کے علاوہ تھے‘ جو اسمبلی میں بولے جائیں یا ملک میں اور بقول شاعر: ہم جھوٹ بولتے تھے‘ تو اس پر قائم بھی رہتے تھے‘ کیونکہ صاحب کردار ہونے کیلئے یہ بھی ایک لازمی شرط ہے ‘ور نہ بے کردار لوگ نہ جھوٹ بھول کر مکر بھی جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے جھوٹ بول کر کبھی یوٹرن نہیں لیا ‘کیونکہ ہماری یہ خوبی بھی‘ ہماری مستقل روایات میں شامل تھی اور یہی وجہ ہے کہ ہم ایسی درخشندہ روایات کا ایک انبار چھوڑ کر آئے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
اور اب آخر میں کچھ شاعروں کی شاعری:
بڑوں پر منکشف تھی سہل انگاری ہماری
ہمیں اجداء کہتے تھے تمہارا کیا بنے گا (اختر عثمان)
یہ اور بات محبت بھی ہونے لگتی ہے
کبھی کبھی مجھے وحشت بھی ہونے لگتی ہے (افضال نوید)
اس نے مرنے نہیں دیا مجھ کو
جس نے جینا مرا حرام کیا (مسعود احمد)
یونہی نہیں ترے چہرے پہ نور آیا ہوا
تو کھا رہا ہے کسی اور کا کمایا ہوا
تجھے قبول تو کر لیں پہ مسئلہ یہ ہے
تو ایک شعر ہے اور شعر بھی چرایا ہوا (عمران عامی)
تمہارے ہاتھ نہ آئیں تو رنج مت کرنا
ہم اپنے آپ سے آگے نکل گئے ہیں دوست (نوخیز احمد)
رائیگانی کی ریاضت بھی نہیں کر سکتا
ٹوٹے رشتوں کی مرمت بھی نہیں کر سکتا
جس طرح میں نے ترے نام کیا ہے سب کچھ
اس طرح کوئی وصیت بھی نہیں کر سکتا
ہر کسی کو تو میسر نہیں میری آنکھیں
پر کوئی تیری زیارت بھی نہیں کر سکتا (شعیب زمان)
دل پہ جو گرد ہے‘ ہم اس پہ بہت سوچتے ہیں
یہ وہ برتن ہے جو پانی سے نہیں دھوسکتے (وسیم تابش)
ان سے پوچھو رزق کی مجبوریاں کیا چیز ہیں
صبح ہوتے ہی جنہیں بیدار ہو جانا پڑا (نوید فدا ستی)
آج کا مطلع
رنج کتنا ہے بتا ہی نہیں سکتے اس کو
گیت ایسا ہے سنا ہی نہیں سکتے اس کو

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved