لاہور میں ہر موٹر سائیکل سوار کیلئے جب ہیلمٹ کا استعمال لازمی قرار دیتے ہوئے اس کی خلاف ورزی کرنیوالوں کو ایک ہزار روپے جرمانے کا اعلان ہوا‘ تو ہر جانب بے چینی پھیل گئی۔ سب حیران ہوئے کہ ہیلمٹ نہ پہننے پر‘ ٹریفک پولیس کی جانب سے اس قدر بھاری رقم بطورِ جرمانہ کیوں؟ عوام پر یہ حکم نافذ کرنے سے پہلے پنجا ب حکومت کا فرض بنتا تھاکہ پہلے لاہور بھر میں ہیلمٹ کا بھاری سٹاک مہیا کر دیا جاتا‘ لیکن ایسا نہیں ہوا اور ٹریفک پولیس کو جرمانے کرنے کی تلوار سونپ دی گئی‘ تو اس وقت شہر بھر کی مارکیٹوں میں ہیلمٹ فروخت کرنیوالوں کے پاس دس ہزار سے زیا دہ ہیلمٹ نہ تھے‘ جبکہ موٹر سائیکل سواروں کی تعداد کسی بھی صورت میں ایک لاکھ سے کم نہیں تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ہیلمٹ ‘جو اس حکم سے پہلے تین سوروپے سے پندرہ سو روپے میں مل رہا تھا‘ وہ پندرہ سو سے پینتالیس سو روپے تک فروخت ہوناشروع ہو گئے اور انہیں فروخت کرنیوالوں کی دکانوں کے سامنے ہجوم اکٹھا ہونا شروع ہو گیا۔ عوام کو پہنچنے والی اس تکلیف اورہیلمٹس کے بلیک ہونے کی وجہ سے بھاری اخراجات ادا کرتے ہوئے ٹریفک پولیس کے مبینہ جرمانوں سے بچنے کیلئے ایک روپے کی چیز پانچ روپے میں خریدے جانے کے عمل کو کوئی بھی گڈ گورننس نہیں کہے گا۔
جب لاہور میں یہ حکم نافذ کیا گیا‘ تو حکومت پنجاب اور اس کی وزارت صنعت کا فرض بنتا تھا کہ سب سے پہلے مارکیٹ میں اتنی تعداد میں ہیلمٹ مہیا کر دیئے جاتے‘ تا کہ کسی کو اس کے حصول کیلئے در در کے دھکے کھانے کے بعد ناکامی کی صورت میں جرمانوں کے جھٹکے نہ کھانے پڑتے۔
بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ ہیلمٹ خریدنے کیلئے لاہور بھر میں اس کی متعلقہ مارکیٹوں میں دھکے کھاتے پھرتے تھے کہ ان مارکیٹس تک جانیوالے ہر چوک ا ور سڑک پر تین تین ‘چار چار کی تعداد میں ٹریفک وارڈن ناکے لگائے کھڑے تھے اور ہیلمٹ نہ پہننے والوں کے دھڑا دھڑ چالان کر رہے تھے ۔ہزاروں کی تعداد میں ایسے لوگ تھے‘ جن کے پاس ایک یا دوہزار روپے تھے اورانہیں اس قیمت میں کہیں سے بھی ہیلمٹ دستیاب نہیں ہو رہا تھا اور ان کے ہیلمٹ کی تلاش میںناکام واپسی پر ان چالان کئے جاتے رہے۔کیا یہ کسی بھی حکومت کیلئے منا سب ہے کہ سکھا شاہی حکم جاری کر دیا جائے کہ لاہور میں اگر کل کسی نے آنکھوں پر دھوپ کا چشمہ نہ لگایا تو اسے پانچ سو روپے جرمانہ کر دیا جائے گا‘ جبکہ لاہور بھر میں دھوپ کے کل چشمے دس بیس ہزار سے زیا دہ نہ ہوں؟یہی ہیلمٹ کے سلسلے میں کیا گیا ؛ اگر آپ نے اپنے اس قانون یا سخت قسم کی پابندی کا نفاذ کرنا تھا‘ تو آپ کے پاس موٹرسائیکل سواروں کی یہ لازمی ضرورت کا سٹاک ہونا بھی ضروری تھا۔ ابھی موٹر سائیکل سواروں کیلئے ہیلمٹ پہننے کی پابندی کی بات جاری تھی کہ نیا حکم مارکیٹ میں آگیا کہ موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھنے والی خاتون کو بھی ہیلمٹ پہننا ہو گا ‘ جس کی خلاف ورزی پر ہزار روپے جرمانہ ہو گا ۔ اس خبر کے ساتھ ہی پہلے سے جاری افواہیں اور زور پکڑنا شروع ہو گئیں کہ' ہیلمٹ‘ کے پیچھے کچھ گڑ بڑ ہے۔ حکومت پنجاب کی اس غفلت یا گڈ گورننس نہ ہونے کی وجہ سے ملک بھر میں جاری ان افواہوں کو اب اور بھی تقویت ملناشروع ہو گئی ‘جن کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے کہ یہ کسی ایک خاندان کو خوش کرنے کیلئے کیا گیا؛ حالانکہ یہ حکم وزیر اعلیٰ پنجاب نے نہیں‘ بلکہ معزز ہائیکورٹ کی جانب سے جاری کیا گیا تھا‘ لیکن کیا کیا جائے؟ ایک لاپروائی اور وزارت ِصنعت کی نا اہلی کی وجہ سے اس الزام کا سلسلہ اب اس حکم کے ساتھ اور بھی تقویت پکڑ رہا ہے کہ بغیر ہیلمٹ پہنے کسی بھی موٹر سائیکل سوار کو پٹرول پمپس پر پٹرول نہیں دیا جائے گا۔واضح رہے کہ یہ پابندی سندھ حکومت نے بھی جاری کر دی ہے۔
ڈپٹی کمشنر لاہور کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ دفعہ144 کا سختی سے نفاذ کرتے ہوئے ہیلمٹ بیچنے والوں اور تیار کرنے والوں کو پابند کرتے کہ وہ اپنا سٹاک چھپائیں گے نہیں ؟اوراس کی با قاعدہ ایک قیمت مقرر کر دیتے‘ تاکہ کوئی اس کی بلیک مارکیٹنگ نہ کرتا۔ لاہور کے ہر چوک اور بڑی سڑکو ں پر جگہ جگہ اس کے بڑے سٹال لگا دیئے جاتے ‘جہاں کسی کو زائد قیمت لینے کی اجا زت نہ ہوتی اور اس سٹال پر فروخت کئے جانے والے ہر قسم کے ہیلمٹس کی قیمتیں بڑے واضح طور پر تحریر کی جاتیں‘لیکن ایسا نہیں کیا گیا ‘جس کا خمیازہ تحریک انصاف کی حکومت ابھی تک بھگت رہی ہے اور قانون سے کھیلنے والے یا قانون کو ردی کا ٹکڑا سمجھنے والی اس کی اپوزیشن‘ اسے تحریک انصاف کے خلاف بطور پراپیگنڈہ استعمال کر رہی ہے‘ لیکن اس میں قصور کس کا ہے؟اپوزیشن کو یہ موقع کس نے دیا؟ظاہر ہے کہ پنجاب کی ناقص گورننس نے!۔
موٹر سائیکل تیار کرنے والی ایک مشہور کمپنی نے اپنے125 سی سی موٹر سائیکل کی ہیڈ لائٹس کیلئےHD کااستعمال کیا ہے‘ جو کہ انتہائی غلط ہے‘ کیونکہ اس سے سامنے سے آنے والوں کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اب ایک جاننے والے صاحب یہ موٹر سائیکل خرید کر شاہدرہ سے اپنے گھر کی جانب جا رہے تھے کہ داتا صاحب کے پاس کھڑے ہوئے ٹریفک وارڈن نے انہیں روک کر نمبر پلیٹ نہ لگانے کا پوچھا تو اس نے خریداری رسید اور موٹر سائیکل کا سپیڈو میٹر دکھاتے ہوئے بتایا کہ یہ تو ابھی پندرہ کلو میٹر چلی ہے اور ابھی خرید کر لا رہا ہوں‘ جس پر اس سے لائسنس کا پوچھا گیا‘ وہ بھی دکھا دیا گیا اور پھر یہ کہہ کر اس کا چالان کر دیا کہ یہ ہیڈلائٹ‘ خلافِ ِقانون ہے ؛حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس کا جرمانہ اس موٹرسائیکل تیار کرنے والی کمپنی کو کیا جاتا۔کیا یہHD لائٹس‘ اس جیسے دوسرے موٹر سائیکل سواروں کا قصور ہے ؟جن کے چالان کئے جا چکے ہیں۔
اس وقت لاہور اور پنجاب بھر میںHD لائٹس کی وجہ سے انسانی جانوں اور املاک کا اس قدر نقصان ہو رہا ہے کہ اگر اس کی وجہ سے ہونے والے حادثات کا باقاعدہ ریکارڈ حاصل کیا جائے ‘تو گزشتہ چھ ماہ میں اس کی اوسط روزانہ پچاس نکلتی ہے۔مختلف ٹی وی چینلز پر ہم جن ٹریفک حادثات کی خبریں سنتے ہیں‘ ان میں سے اکثر کی اموات رات کو سامنے سے آنے والی اس مخصوص لائٹ کے استعمال کرنے والوں کی وجہ سے آنکھیں چندھیا نے کے باعث ہوتی ہیں۔لاہور میں ہر دسویںموٹر سائیکل اور گاڑی والے نے اپنی ہیڈ لائٹس کیلئےHD سسٹم کا استعمال کیا ہوا ہے‘ لیکن ٹریفک پولیس سامنے کھڑی ہاتھ باندھے چپکے سے سب کچھ دیکھ رہی ہوتی ہے اور اپنے سارے فرائض ہیلمٹ پر اتارنے میں لگا دیتی ہے‘ بلکہ حیران کن طور پر بہت سے وارڈن بھی ایسی ہی لائٹس کا استعمال کر رہے ہیں۔ رات کے وقت اگر لاہور کی فیروز پورروڈ‘ کینال روڈ یا کسی بھی رابطہ سڑک پر کھڑے ہو کر سروے کیا جائے‘ تو انسانی زندگیوں کیلئے انتہائی خطرناک ثابت ہونے والی ان لائٹس کی آپ کو بھر مار ملے گی اور اگر آپ اس کا اندازہ کرنے کیلئے رات کے وقت کسی بھی سڑک پر کھڑے ہوئے ہیں تو ان لائٹس کی وجہ سے آپ کی آنکھوں کے ساتھ گزرنے والی تکلیف دہ صورت حال سے اندازہ ہو جائے گا کہ لاہورشہر اور پنجاب بھر میں ٹریفک حادثات کی سب سے بڑی وجہ کیا ہے؟۔