ویسے قومی اسمبلی میں بھی کیا کیا دیکھنے‘ سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے۔کچھ بھی ہوجائے کوشش کرتا ہوں اسمبلی کے سیشن میں ضرور جائوں۔ بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ سیاستدانوں اور نوجوان صحافیوں سے کبھی ملاقات ہو تو بھی یہ کہتا ہوں کہ میرے خیال میں جو سنجیدہ سیاستدان ہوگا اسے آپ چند کام کرتے ضرور پائیں گے۔ ہر ایم این اے‘ سینیٹر یا ایم پی اے کو وقفہ سوالات میں ضرور بیٹھنا چاہیے۔ کوشش کر کے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور فنانس کی قائمہ کمیٹی کا ممبر بھی بننا چاہیے‘ اگر وہ داخلہ اورخارجہ کی کمیٹیوں کا ممبر نہیں بن سکتا۔ پچھلے دنوں شہباز گل کا فون تھا ۔ دوست خاور گھمن اور ضمیر حیدر ساتھ تھے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے ملاقات ہوئی تو پھر وہی بات چل نکلی۔ میرا خیال تھا وزیراعلیٰ کو پنجاب اسمبلی میں وقفہ سوالات میں ضرور بیٹھنا چاہیے‘ اس سے انہیں اندازہ ہوگا کہ ان کا صوبہ کیسے چل رہا ہے۔ اپنے وزرااور بیورو کریسی کی کارکردگی کا بھی پتہ چلتا رہے گا اور وزیراعلیٰ تیزی سے معاملات کو سیکھتے جائیںگے۔ سیشن کے دوران اپوزیشن کوشش کرتی ہے کہ حکومت کی کارکردگی کو ایکسپوز کیا جائے اور یوں آپ اپنی کمزوریوں سے آگاہ ہوتے ہیں۔ میں اکثر حیران ہوتا ہوں کہ اچھا حکمران اپنی اپوزیشن‘ عدالت اور میڈیا کو کیوں اپنا دشمن سمجھتا ہے؟یہ تینوں تو دراصل دوست ہوتے ہیں جو بغیر کسی لالچ اورخوف کے حکمران کی مدد کرتے ہیں کہ وہ اپنی حکمرانی بہتر کرے۔آپ عدالت‘ میڈیا اور اپوزیشن کی مدد سے عوام میں خود کو مقبول بناسکتے ہیں۔ آپ ان تمام باتوں پر ایکشن لے کر اپنی حکومت کی کارکردگی بہتر کرتے جاتے ہیں اور اس سے جہاں گورننس بہتر ہوتی جائے گی‘ وہیں آپ کے ووٹ بھی بڑھیں گے اور آپ جیل بھی نہیں جائیں گے۔
لیکن حکمرانوں کو مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے اور وہ اپوزیشن‘ میڈیا اور عدالتوںکو اپنا دشمن سمجھنا شروع کردیتے ہیں جب وہ خود کرپشن میں ڈوبنا شروع ہوتے ہیں۔ عوام کے پیسوں کو لوٹنا شروع کرتے ہیں ‘اپنی جیبیں بھرنا شروع کردیتے ہیں۔ حواریوںکو ٹھیکے ملنا شروع ہوجاتے ہیں‘ جن پراپرٹی ڈیلرز نے فنڈنگ کی ہوتی ہے انہیں ادائیگیاں کرنے کا وقت آتا ہے۔ اپنے بچوں کو فرنٹ مین کے ذریعے ٹھیکے دینا شروع کردیتے ہیں اور داماد تک کو بیس ارب روپے کا ترقیاتی فنڈ دے کر فرماتے ہیں: جس ایم این اے کو چند کروڑ روپے چائیں وہ ان سے رابطہ کرے۔ جب باڑ ہی کھیت کو کھانا شروع کردے تو پھر آپ کو جج‘ صحافی اور اپوزیشن برے لگنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس لیے ہمیشہ آپ کو پارلیمنٹ کے اندر اپوزیشن اور حکومت کے درمیان لڑائی نظر آتی ہے؛ اگرچہ حکومت کہہ سکتی ہے کہ موجودہ دونوں اپوزیشن جماعتیں‘ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ اقتدار میں تھیں ‘ دونوں نے کھل کر کھیل کھیلا اور لوٹا۔ آج دونوں پارٹیوں کے وزیراعظم مقدمے بھگت رہے ہیں۔ سابق وزیر عدالتوں میں پیشیاں بھگت رہے ہیں‘ لہٰذا تحریک انصاف کی حکومت کے بقول وہ کیوں ان سابق حکومتوں کے وزیروں کی تنقید کو سنجیدگی سے لیں؟ وہ تو خود کرپٹ تھے ‘لہٰذا کرپٹ سیاستدانوں کو کیوں اہمیت دی جائے ؟ اگر اتنے اچھے ہوتے تو خود وہ کام نہ کرتے جس کی وجہ سے وہ پارلیمنٹ میں سرکاری بینچوں سے اٹھ کر اپوزیشن بینچوں پر جا بیٹھے ۔
اگرچہ بات میں وزن ہے اور ہوسکتا ہے ان کے حامی اس بات سے اتفاق بھی کریں ‘ لیکن وہ کیا کہتے ہیں کہ یہ نہ دیکھا کریں کہ کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھیں کہ کیا کہہ رہا ہے‘ آپ کو تو ان سابق وزیروں کی تنقید کو زیادہ سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے کہ وہ یہ وزارتیں چلاتے رہے ہیں اور وہ تجربہ کار ہیں ۔ انہیں پتہ ہے کس وزارت میں دو نمبری ہوتی ہے‘ کیونکہ وہ خود یہ کام کرتے رہے ہیں‘ لہٰذا وہ آسانی سے آپ کے وزیروں کو پہچان سکتے ہیں کہ کون اس وقت جو فیصلے کررہا ہے اس کے پیچھے کیا کہانی ہے۔ خیر اب ایسی کوئی بات رہ تو نہیں گئی جس پر آپ کو حیرانی ہوتی ہو۔ حکمران جس طرح کا حشر عوام کے پیسوں سے کرتے ہیں ایسا وہ اپنی جیب سے کبھی نہیں کریں گے۔ جب میں اسمبلی میں بیٹھا نواز شریف کے دو ماہ لندن میں علاج کے نام پر کئے گئے اخراجات پڑھ رہا تھا تو حیران ہورہا تھا کہ ان کے دل میں اس ملک کے لیے تھوڑا سا رحم بھی نہیں جاگتا؟ حکمرانوں کو کیوں لگتا ہے کہ وہ کسی اور سیارے یا ملک سے آئے ہیں۔ ان کا اس ملک ‘ اس دھرتی اور لوگوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ‘لہٰذا جو ہاتھ لگے لوٹ لو یا خرچ کر ڈالو؟ اب اس کی کیا تُک بنتی تھی کہ دو ماہ کے لیے لندن کے مہنگے ہوٹل چرچل میں کمرے بک کرائے جائیں ‘جہاں نواز شریف کا سٹاف اسلام آباد سے دفتر شفٹ کر کے قیام کرے ۔ ایک دفتر ہوگا اور باقی ہوٹل کے کمروں میں ٹھہریں گے۔ یوں وزیراعظم نواز شریف کا دفتر لندن شفٹ ہوگیا ۔
نواز شریف خود ان فلیٹس میں ٹھہرے ہوئے تھے‘ جن کی وجہ سے وہ خود جیل گئے اور ان کے بچے مفرور ہیں۔ چرچل ہوٹل ان سے کچھ منٹ کی واک پر تھا‘ لیکن پھر بھی جب آپ اخراجات کا بل پڑھنا شروع کرتے ہیں تو حیران ہوتے ہیں‘ بیوروکریٹس نے 29 ہزار ڈالرز گاڑیاں کرائے پر لینے پر خرچ کیے۔ مطلب تقریباً چالیس لاکھ روپے گاڑیاں کرائے پر لینے پر ادا کیے گئے۔ اب جو لندن کو جانتے ہیں وہ حیران ہوں گے کہ چرچل ہوٹل اور نواز شریف کے فلیٹ کے درمیان چند منٹ کی واک کے لیے چالیس لاکھ کی گاڑیاں کرائے پر لینے کی کیا تُک بنتی تھی؟ جو افسران وہاں اس چرچل ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے کہ کب بادشاہ سلامت کا کوئی فرمان جاری کرنا پڑ سکتا ہے‘ انہوں نے اپنا علیحدہ خرچہ نکالا ہوا تھا کہ روزانہ الاؤنس چاہیے تھا‘ لہٰذا اس مد میں بھی جیب خرچ کیلئے انہیں تقریبا تیس ہزار ڈالرز کی ادائیگی کی گئی۔ پاکستان کے چالیس لاکھ روپے۔ ساڑھے تین ہزار ڈالرز فونز کا بل بنا ۔ ان افسران کے کھانے پینے کا بل چالیس لاکھ روپے پاکستانی بنا جو تیس ہزار ڈالرز کے قریب تھا۔ ہوٹل کے جو کمرے کرائے پر لیے گئے ان کا کل بل 174,000 ڈالرز نکلا۔ چرچل ہوٹل کے ایک کمرے کا کرایہ تقریبا ساڑھے چار ہزار ڈالرز یا پانچ لاکھ پاکستانی بنتا تھا۔57000 ڈالرز جہاز کا خرچہ تھا‘جبکہ ساڑھے تین کروڑ روپے اس خصوصی جہاز پر خرچہ ہوا جو نواز شریف کو لے کر لندن سے لاہور پہنچا۔
یہ اخراجات اس ملک کے اس وزیراعظم کے ہیں جنہوں نے ابھی عدالت میں ایک فوٹو جمع کرائی ہے‘ جس میں وہ ایک بہت مہنگی گاڑی کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے۔ یہ تصویر دکھانے کا مطلب جج کو یہ بتانا تھا کہ وہ پیدائشی کروڑ پتی ہیں اور وہ بہت امیر تھے‘ لہٰذا انہیں چھوٹی موٹی کرپشن کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ تو پھر دو ماہ تک لندن میں اپنا علاج کرانے کے لیے آپ کو اس غریب ملک کے آٹھ دس کروڑ روپے خرچ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ آپ تو پیدائشی امیر تھے۔ اپنی بیماری پر جیب سے خرچ کرتے؟ انہی نواز شریف صاحب نے دنیا بھر کے سو سے زیادہ غیرملکی دورے کیے‘ تین سو پچاس دن باہر رہے‘ ایک ارب روپے سے زیادہ خرچ کیا ۔ ملک میں سرمایہ کاری کیا آتی الٹا چالیس ارب ڈالرز کا قرضہ چڑھا۔ مجھے یاد ہے جب اسحاق ڈار نے دنیا کے مہنگے ترین یورو بانڈز سوا آٹھ فیصد پر فلوٹ کئے تو پوری دنیا حیران رہ گئی کہ پاکستان کیا کررہا ہے کہ 500 ملین ڈالرز کے لیے یہ سرمایہ کاروں کو 410 ملین ڈالرز سود ادا کرے گا تو اسحاق ڈار نے فرمایا تھا کہ نواز شریف کی خواہش تھی کہ عالمی مارکیٹ میں ہماری ساکھ چیک کی جائے اور ہم ساکھ چیک کررہے تھے۔ ساکھ چیک کرنے کے نام پر دنیا کا مہنگا ترین قرضہ لے آئے۔ وہ تو بعد میں راز کھلاکہ پانچ سو ملین ڈالرز کے بانڈز فلوٹ کر کے خریدنے اور ان سے تگڑا مال بنانے والے اور کوئی نہیں خود حکمران اور حواری تھے !
چوہدری شجاعت حسین نے مجھے وہ تین بڑے نام بتائے تھے‘ جن کے نام تو بڑے لیکن درشن چھوٹے نکلے۔ وہ تینوں ان یورو بانڈز کا بے پناہ منافع لندن میں باقاعدہ وصول کررہے ہیں‘ اور ہم ان یوروبانڈز کا انہی تین بڑوں کو سود ادا کرنے کے لیے دنیا بھر میں کشکول اٹھائے ڈالروں کی بھیک مانگتے پھرتے ہیں ! ویسے جہاں بڑے میاں نے پاکستانی عوام کے نام پر قرض پر لیے گئے ڈالرز بیدردی سے لندن میں اڑائے‘ وہیں چھوٹے میاں کو بھی داد دیں کہ جیب سے لندن میں ٹیکسی کا کرایہ دینا پڑ گیا تو بقیہ چند سکے تک ٹیکسی ڈرائیور سے وصول کر لیے!یہ ہوتا ہے عوامی اور ذاتی جیب کا فرق!