تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     13-12-2018

تہذیب کا جوہر

جیسے اس زمین پہ درخت، پودے، جڑی بوٹیاں اور پھول خاص قسم کی مٹی اور آب و ہوا میں پروان چڑھتے ہیں، اسی طرح دنیا کی ہر تہذیب کا ارتقا بھی جغرافیائی ماحول، موسمی تغیرات، مقامی حالات اور میّسر انسانی مواد کی ذکاوت کے وسیلے فروغ پاتا ہے۔ جب انسان نے شعور سنبھالا تو اس نے مشاہدے کی قوت سے گرد و پیش کے ماحول میں رونما ہونے والے حوادث کے اثرات اور خود اپنے تجربات کے نتائج سے وہ ابتدائی دانش حاصل کی‘ جو بالآخر اس عالمگیر تہذیب، انسانی اخلاقیات اور فلسفیانہ و سائنسی علوم کی بنیاد بنی۔ ماہرین سماجیات کہتے ہیں کہ ابتدا میں انسان نے اپنی بقاء کو یقینی بنانے کی خاطر قبائلیت کے نظم و ضبط اور اس کی عصبیت میں پناہ ڈھونڈی، ہر قبیلہ اپنے وجود سے پیدا ہونے والے طاقتوروںکو فخر و غرور کا استعارہ اور کمزوروں کے تحفظ کا ڈیٹرنٹ بناتا رہا، قبیلے کے کاشتکار اپنے سورمائوں کو وسائل مہیا کرتے، دستکاروں نے انہیں نت نئے آلات جنگ تیار کر کے دیئے اور شعراء ان کے حوصلے بڑھانے کیلئے رزمیہ نظمیں لکھنے کے علاوہ بہادر جنگجوئوں کی عظمت کے گُن گا کے رومانوی ادب تخلیق کرتے رہے۔ مسلسل برسر پیکار رہنے والے قبائل کے مابین بسا اوقات اشیاء کا تبادلہ اور دوستانہ تعلقات بھی استوار ہوتے رہے۔ اسی ربط و تعلق اور کشمکش نے ماضی کے قبائلی سماج میں ایک نوع کا توازن پیدا کر کے زمین کے مختلف علاقوں میں کئی چھوٹی چھوٹی خود مختیار تہذیبوں کو جنم دیا، جو وقت کی گود میں پل بڑھ کے جوان ہوئیں اور اپنی ندرت اور دل پذیری کے اعتبار سے طویل مدت تک زمین کا حسن بنی رہیں۔
مورخین لکھتے ہیں کہ سکندر نے دنیا فتح کرنے کیلئے ایتھنز سے نکلتے وقت یونانیوں کو یقین دلایا تھا کہ وہ یونانی تہذیب اور فن کے ذریعے دنیا کی تسخیر چاہتے ہیں۔ اس وقت تک یونانیوں کا خیال یہ تھا کہ ان کے سوا پوری دنیا تہذیبی شعور سے نا آشنا ہے، صرف انہی کے پاس فلسفہ و فن جیسے زندہ علوم ہیں لیکن سکندر کی فوج جب بابل و نینوا اور ایران کو فتح کرتی ہوئی ہندوستان پہنچی تو وہ یہاں کے فنِ سنگ تراشی کے نمونوں اور پُرملال صنم کدوںکو دیکھ کے حیرت زدہ رہ گئی، جن کے سامنے اپالو کا معبد انہیں ہیچ نظر آیا۔ ٹیکسلا کے قریب سکندر اور پورس کی فوجیں آمنے سامنے آئیں تو اس عہد کے دانشوروں کے وفد نے سکندر سے ملاقات کر کے پوچھا کہ، آپ ہم سے کیوں لڑنا چاہتے ہیں؟ اگر تمھیں ملک اور دولت چاہیے تو لے لیجئے لیکن خون مت بہائیے۔ کئی دنوں پہ محیط ان ملاقاتوں میں ہندوستانی دانشوروں نے اخلاقی، منطقی اور فلسفیانہ دلائل سے سکندر کو لا جواب کر دیا، جس سے مقدونی فوج میں بد دلی پھیل گئی۔ فلسفہ زدہ یونانیوں نے سکندر سے کہا: تم نے ہمیں گمراہ کیا، صرف یونان ہی نہیں مشرق بعید بھی علوم و فنون اور فلسفیانہ دانش سے لبریز ہے۔ ول ڈیورانٹ نے لکھا ہے کہ فوجیوںکی سرد مہری دیکھ کے سکندر نے خود کو خیمہ میں بند کر لیا اور جرنیلوں سے کہا: جائو ایتھنز والوں سے کہہ دو کہ ''ہم نے اپنے بادشاہ کو مفتوح قوموں کے درمیاں تنہا چھوڑ دیا‘‘۔ جب سکندر اعظم کی ملاقات اس عہد کے سب سے بڑے دانشور دندن سائیں سے ہوئی تو دیکھتے ہی انہوں نے سکندر سے کہہ دیا: تمھارے گرد نور کا جو ہالہ تھا وہ تحلیل ہو رہا ہے، تم بہت جلد ختم ہو جائو گے۔ بالکل ویسا ہی ہوا۔ پورس کو شکست دینے کے بعد واپس پلٹتے ہوئے تھل میں مچھروں کی یلغار نے سکندر کی پوری فوج کو لپیٹ میں لے لیا۔ ہزاروں یونانی فوجی ملیریا جیسے مہلک مرض کا شکار بن کے مر گئے۔ کہتے ہیں‘ وہ خود بھی نمرود کی طرح مچھر کے ہاتھوں ملیریا بخار سے مرا۔ ملتان میں کمزور سی مزاحمت کے دوران ملیریا میں مبتلا سکندر زخمی ہو گیا اور آخر کار زخمی حالت میں مصر کے اس شہر سکندریہ میں اس کی موت واقع ہوئی جس کی بنیاد سکندر نے خود رکھی تھی۔ علی ہٰذالقیاس! جب نقل و حمل کے ذریعے انتہائی سست اور انسان کی تمام تگ و تاز اپنی برادری تک محدود تھی، تب ہندوستان کے طول و عرض میں تہذیب کے کئی خوبصورت جزیرے نمودار ہوئے۔ ان میں سرائیکی جیسی گداز، نفیس، میٹھی اور مغموم تہذیب بھی شامل تھی، جس میں زندگی کی تفہیم ایسے کرب انگیز رومانس سے کی گئی، جس میں بچھڑی ہوئی کونج جیسی کُرلاہٹ (کرب) پھوٹتی تھی، جس میںغمِ و اندوہ اور ہجر و وصال کی لذت میں گندھی خود اختیار کردہ مظلومیت کا ذوق نمایاں تھا۔ اسے ہم ''ٹریجڈی سولائزیشن‘‘ سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ اگر ہم اس تمدن کو ٹالسٹائی کے اس قول سے پرکھیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ انسان کی عظمت ٹریجڈی کی کوکھ سے جم لیتی ہے، تو سرائیکی تہذیب کا شمار دنیا کی عظیم تہذیبوں میں ہو گا۔ سرائیکی سماج کی افزائش دریا سندھ کے دونوں اطراف پھیلے شاداب جنگلات میں ہوئی۔ سرائیکی کبھی ریاست کی زبان نہیں رہی اس لئے اس زبان میں آلاتِ جنگ کے نام نہیں ملتے۔ آج ہم اپنی زبان میں چاقو، تلوار یا بندوق کی جو اصطلاحیں استعمال کرتے ہیں یہ دراصل عربی، فارسی اور دیگر زبانوں کے لفظ ہیں۔گویا سرائیکی زبان و ادب کو کبھی ریاستی سرپرستی نہیں ملی، اس لئے اس میں بادشاہوں کے ذوق جمال کی تسکین کرنے والا مصنوعی ادب اور جنگوں پہ ابھارنے والی رزمیہ داستانیں نہیں ملتیں۔ سرائیکی دراصل آزاد زرعی معاشرے کی فطری زبان تھی، جس میں زراعت کی جتنی اصطلاحیں پائی جاتی ہیں ایسی کسی اور زبان میں نہیں ملیں گی۔ سرائیکی زبان کے اکثر محاورے درختوں، پودوں، پھولوں اور زرعی آلات کی صفات سے مملو ہیں‘ لیکن ان بے ساختہ محاوروں اور دیسی حکایات میں ایسی حیرت انگیز اور لازوال دانش پائی جاتی ہے جس کی مثال ملنا مشکل ہو گی۔ عام طور پہ ہمارے سماج میں ''عام فہم‘‘ (Common sense) کی جو اصطلاح استعمال ہوتی ہے، اس کیفیتِ ذہنی کو شاید پڑھے لکھے لوگ تو سمجھ سکتے ہوں گے لیکن کسی عام ان پڑھ انسان کیلئے کامن سینس کو سمجھانا مشکل ہے، مگر سرائیکی وسیب کی دیسی دانش میں نہایت آسانی کے ساتھ کسی بھی گنوار کو کامن سینس کا مفہوم سمجھانا مشکل نہ تھا۔ دیسی سرائیکی دانش نے اسی کامن سینس کو ایک خوبصورت حکایت میں کچھ یوں بیان کیا ''کسی نگری میں علم جوتش کا کوئی ماہر رہتا تھا، وہ عظیم جوتشی جب بوڑھا ہو گیا تو لوگوں نے بادشاہ کی توجہ مبذول کراتے ہوئے استدعا کی کہ بوڑھا جوتشی اگر مر گیا تو اس نادر علم کو بھی قبر میں ساتھ لے جائے گا؛ چنانچہ علم جوتش کو بچانے کی خاطر جوتشی کو حکم دیا جائے کہ وہ یہ علم کسی کو منتقل کرے۔ بادشاہ نے طلب کر کے بوڑھے جوتشی کو حکم دیا کہ وہ اپنا علم جوتش کسی کو سکھا دے تاکہ اس علم کی شمع جلتی رہے۔ جوتشی نے عرض کی: بادشاہ سلامت مجھے طلب علم حوالے کر دیجئے تاکہ میں اسے علم جوتش سکھا سکوں۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ یہ عظیم علم میرے بیٹے کو سکھایا جائے؛ چنانچہ جوتشی نوجوان شہزادے کو علم سکھانے میں مشغول ہو گیا۔ جب اس کی تعلیم مکمل ہو گئی تو بوڑھے جوتشی نے بادشاہ کو پیغام بھجوایا کہ شہزادے کو علم سکھا دیا گیا ہے، آپ جب چاہیں امتحان لے سکتے ہیں۔ بادشاہ نے نہایت شوق و اضطراب کے ساتھ شہزادے کو امتحان کیلئے طلب کر لیا۔ جوتشی اور شہزادے کی دربار میں آمد سے قبل بادشاہ نے اپنی انگوٹھی اتار کے مٹھی میں چھپا لی اور شہزادے سے پوچھا: بتائیے میری مٹھی میںکیا ہے؟ شہزادہ زمین پہ بیٹھ گیا اور لمبے حساب کتاب کے بعد بولا: بادشاہ سلامت آپ کی مٹھی میں لوہے کا کڑا ہے جس میں چکی کا پڑ ہے۔ جواب سن کے بادشاہ نے جوتشی کی طرف دیکھا تو بوڑھے جوتشی نے دست بستہ ہو کے عرض کی: بادشاہ سلامت اس میں علم کا قصور ہے نہ میں نے سکھانے میں کوئی کسر چھوڑی۔ جناب عالی، آپ کا بیٹا دل کا اندھا ہے (یعنی اس میں کامن سینس نہیں) جوتشی نے کہا: علم نے اسے درست بتایا کہ بادشاہ کی مٹھی میں کسی دھات کا رنگ اور اس کے ساتھ پتھر ہے، اگر یہ کامن سینس سے کام لیتا تو با آسانی سمجھ سکتا تھا کہ انسانی ہاتھ کی مٹھی میں لوہے کا کڑا اور چکی کا پڑ تو نہیں سما سکتا، لازماً یہ پتھر کے نگینے سے مزین سونے کی انگوٹھی ہو گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved