ہنسنا کیا؟ ہم تو کھل کر رو بھی نہ سکے: نواز شریف
مستقل نااہل اور سزایافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''ہنسنا کیا؟ ہم تو کھل کر رو بھی نہ سکے‘‘ کیونکہ جو رونے کا وقت تھا وہ ہم نے جی ٹی روڈ پر نعرے بازی اور مجھے کیوں نکالا‘ میں گزار دیا؛ چنانچہ اب یہی خیال ہے کہ رونے کا سارا کوٹہ جیل ہی میں پورا کریں گے‘ بلکہ اس رونے میں دھونا بھی شامل ہوگا‘ کیونکہ جیل میں کپڑے بھی خود ہی دھونا پڑتے ہیں اور بعض دوسرے قیدیوں کے بھی۔ علاوہ ازیں‘ ہاتھ دھونے کا بھی خاصا تجربہ حاصل ہے ‘جو کہ دور اقتدار میں یہی کام کرنا پڑتا تھا‘ کیونکہ ہاتھ بار بار میلے ہو جاتے تھے اور روپیہ پیسہ چونکہ ہاتھوں کا میل ہوتا ہے‘ اس لیے جوں جوں ملک میں ترقی ہوتی جاتی تھی‘ توں توں ہاتھ بھی بہت میلے ہوتے رہتے تھے؛ چنانچہ صابن کا خرچہ بہت بڑھ گیا تھا‘ بلکہ تولیوں کا بھی‘ کیونکہ دھونے کے بعد ہاتھ بار بار خشک بھی کرنا پڑتے تھے ‘جبکہ ہاتھ صاف رکھنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مختلف منصوبوں میں ہاتھ کی صفائی بھی دکھانا ہوتی تھی‘ تاکہ کوئی ثبوت باقی نہ رہ جائے۔ہیں جی؟ آپ اگلے روز احتساب عدالت سے باہر نکلنے کے بعد ایک صحافی کے سوال کا جواب دے ر ہے تھے۔
سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریوں سے حکومت
کے عزائم بے نقاب ہونے لگے: زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریوں سے حکومت کے عزائم بے نقاب ہونے لگے ہیں‘‘ حتیٰ کہ مجھ غریب پر بھی ہاتھ صاف کرنے والے ہیں؛ حالانکہ میرا سیاست سے کیا تعلق ہے‘ میں تو ایک سیدھا سادہ کاروباری آدمی ہوں اور پیسے اکٹھے کرنے کے ا پنے عاجزانہ کاروبار میں لگا رہتا ہوں جس میں مجھے کئی دیگر شرفاء کا تعاون بھی حاصل ہوتا ہے‘ جنہیں بھی ساتھ میںپریشان کیا جاتا ہے‘ جبکہ یہ بڑا پیچیدہ اور دقت طلب کام ہے‘ کیونکہ اس پیسے کو باہر بھی بھیجنا ہوتا ہے‘ کیونکہ ملک میں روپے پیسے کو مطلوبہ تحفظ حاصل نہیں۔ ع
اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کر دیا
آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
نیب قیامت تک کچھ ثابت نہ کر سکے گی: شہباز شریف
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''نیب قیامت تک کچھ ثابت نہیں کر سکے گی‘‘ کیونکہ سارا کام کیا ہی اس ہنرمندی سے گیا تھا کہ ثبوت کی کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی تھی اور جنہوں نے ہاتھی رکھنا ہوتے ہیں‘ وہ اپنے دروازے بھی اُسی حساب سے کھلے رکھواتے ہیں‘ جبکہ ہاتھی کے پاؤں میں بھی سب کا پاؤں ہوتا ہے‘ اس لیے خاکسار کے پاؤں بھی بھائی صاحب کے پاؤں میں ہیں؛ اگرچہ یہ محاورہ ہی غلط ہے ‘کیونکہ ہاتھی کا مطلب اور زور ہاتھ پر ہے اور اگر پاؤں پر ہوتا تو اسے ہاتھی کہا جاتا؛ چنانچہ یہ ہاتھ پاؤں والا بھی عجیب معاملہ ہے کہ کب سے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں اور کوئی صورت بنتی نظر ہی نہیں آ رہی‘ بلکہ وقفے وقفے کے بعد ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں ‘کیونکہ اگر کچھ ہتھیایا تھا تو ظاہر ہے کہ ہاتھوں ہی سے تھا‘ پاؤں کا اس میں ہرگز کوئی دخل نہ تھا ۔ آپ اگلے روز اپوزیشن کے اجلاس کے بعد صحافیوں کے وفد سے گفتگو کر رہے تھے۔
نیب غلام کا کردار ادا کر رہی ہے‘ کارکن متحد رہیں: سعد رفیق
سابق وزیر ریلوے اور ن لیگ کے مرکزی رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''نیب غلام کا کردار ادا کر رہی ہے‘ کارکن متحد رہیں‘‘ جبکہ میری چھٹی رگ کہہ رہی تھی کہ آج مجھے بھی دھر لے گی اور یہ جو کہا جا رہا ہے کہ پیراگون سٹی میں ہم دونوں بھائیوں کے دو دو کنال کے 20پلاٹ ہیں تو اس کا پہلا مطلب تو یہ ہے کہ پیراگون سٹی میں پلاٹ ہی تھے‘ کوئی گائے‘ بھینسیں تو نہیں تھیں اور دوسرے یہ کہ ہماری انصاف پسندی کی داد دیجیے کہ اس میں باقاعدہ مساوات کا نظریہ پیش کیا گیا ہے ‘ نیز یہ کہ ہم نے پلاٹوں میں بھی کوئی فرق نہیں رکھا اور دو دو کنال کے پلاٹوں پر ہی اکتفاء کیا اور یہ بھی ہماری قناعت پسندی ہے ‘ورنہ سب جانتے ہیں کہ وہاں چار چار اور آٹھ آٹھ کنال کے پلاٹ بھی تھے‘ جبکہ اوّل تو ان کی شناخت ہی نہیں کی جا سکتی‘ کیونکہ یہ مختلف عزیز و اقارب‘ بلکہ ڈرائیوروں اور باورچیوں وغیرہ کے نام ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
منطق الطیر‘ مستنصر حسین تارڑ کا نیا ناول
اسے سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور نے چھاپا اور اس کی قیمت 700روپے رکھی ہے۔ انتساب ''پرندوں کی بولیاں میرے کانوں میں پھونکنے والے مرشد عطار‘‘ کے نام ہے‘ جبکہ آغاز میں سورت نمل کی آیت نمبر سولہ درج کی گئی ہے‘ جس کا ترجمہ بھی دیا گیا ہے ‘جو اس طرح ہے:
(اور وارث ہوا سلیمان‘ داؤد کا اور کہا: اس نے اے لوگو! سکھائی گئی ہے ‘ہمیں بولی پرندوں کی اور عنایت فرمائی گئی ہے‘ ہمیں ہر چیز‘ بے شک یہ اس کا فضل ِ خاص ہے) اس کے بعد مولانا روم‘ قصہ پُورن بھگت اور سچل سرمست سے مختصر اقتباسات ہیں۔ کتاب کا کوئی دیباچہ یا پیش لفظ نہیں۔ پس سرورق موصوف کی تصانیف کی فہرست درج ہے‘ جسے شمار کرنے کے لیے بھی بڑی ہمت درکار ہے اور جو کم و بیش 72بنتی ہیں۔
یہ ناول کسی تبصرے یا تعریف کا محتاج نہیں ہے‘ کیونکہ تارڑ کی تحریریں ‘اس سے بہت آگے جا چکی ہیں‘ اس لیے یہ کہنا ہی کافی ہے کہ اس کا یہ ناول چھپ کر شائع ہو گیا ہے۔ اگر کوئی ادیب اپنی زندگی ہی میں لیجنڈ کی حیثیت اختیار کر جائے تو اس کی نئی تصنیف کی اشاعت کی صرف اطلاع دی جاتی ہے‘ اس سے زیادہ نہیں‘ بلکہ اب تو نئی کتاب کی اشاعت پر اسے مبارکباد دینا بھی کلیشے بن چکا ہے‘ اس لیے اس سے بھی اجتناب ہی کرنا چاہیے۔ اللہ بس‘ باقی ہوس۔
آج کا مطلع
ترے راستوں سے گزرنا تو ہے
شعر کہنا تجھے یاد کرنا تو ہے