بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز نے بھارتی وزارت داخلہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے حوالے سے یہ خبر شائع کی ہے کہ برطانیہ، جرمنی اور شمالی امریکہ میں موجود علیحدگی پسند سکھ تنظیم ببّرخالصہ انٹرنیشنل کے ارکان اور وہ تنظیمیں جو درپردہ ببر خالصہ انٹرنیشنل کے لیے کام کرتی ہیں، بھارتی پنجاب میں بھاری رقوم علیحدگی پسند سکھوں کے Sleeper cells کو منتقل کررہی ہیں۔ Sleeper cells بھارتی پنجاب میں موجود سکھوں کی ان خفیہ تنظیموں کو کہا جاتا ہے جنہوں نے 1984ء میں بھارتی حکومت کے دربار صاحب امرتسر پر خونی فوجی آپریشن کے بعد سے اپنے آپ کو عام سکھ پبلک کا حصہ ظاہر کرکے اپنی جان بچا لی تھی مگر علیحدگی پسندی کی اپنی کوششوں کو ترک نہیں کیا۔ یہ لوگ اب بھی جرنیل سنگھ بھنڈرانوالا کو ہی اپنا لیڈر مانتے ہیں۔ اسّی کے عشرے میں جب خالصتان کی تحریک عروج پر تھی تو جرنیل سنگھ بھنڈرانوالا کا نام ہر زبان پر رہتا تھا۔ تقریباً روزانہ ہی اس کا کوئی نہ کوئی بیان اخبارات میں شائع ہوتا تھا۔ اس سکھ لیڈر کے بارے میں لطیفے کے طور پر مشہور تھا کہ جو کوئی سکھ آزادی کی تحریک کا حصہ بننے کے لیے جرنیل سنگھ بھنڈرانوالا کے پاس جاتا ہے‘ وہ اپنے سامنے رکھے ہوئے مٹکے کی طرف اشارہ کرکے کہتا کہ اس میں سے ایک پرچی نکال۔ جب وہ نووارد پرچی نکال لیتا ہے تو بھنڈرانوالا اس سے کہتا کہ جو نام اس پرچی میں نکلا ہے وہ تیرا شکار ہے۔ اگر تو وہ نووارد مان جائے تو ٹھیک اور اگر کہے کہ کوئی اور کام بتا دیں تو بھنڈرانوالا اس سے کہتا کہ اپنا نام ایک پرچی پر لکھ‘ اسے اس مٹکے میں ڈال دے اور جا۔ بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی نے 1984ء میں دربار صاحب امرتسر پر فوجی آپریشن کرکے اگرچہ جرنیل سنگھ بھنڈرانوالا سمیت بڑی تعداد میں علیحدگی پسند سکھوں کو قتل کردیا تھا مگر یہ تحریک دب نہ سکی بلکہ اسی برس نومبر میں اندراگاندھی کو اس کے سکھ محافظوں نے گولیاں مار کر قتل کردیا تھا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد بھی ہندوئوں نے سکھوں کا جو بے دریغ قتل عام کیا اس کو سکھ تنظیمیں ’’نسل کشی‘‘ گردانتی ہیں۔ بھارت میں سکھوں کا آزاد خالصتان کا مطالبہ تو کبھی ختم نہیں ہوا لیکن بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی اور اس دور کے اکالی دل کے صدر ہرچند سنگھ لونگو وال کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد عسکریت پسندی برائے نام رہ گئی تھی لیکن یہ آگ کبھی دبی نہیں جس کا تازہ مظاہرہ اوپر دی گئی اس خبر میں موجود ہے کہ ببّر خالصہ انٹرنیشنل کے ارکان بھارتی پنجاب میں علیحدگی پسندوں کو رقوم بھجوا رہے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر بھارتی حکومت کی پبلک ریلیشننگ بہت مؤثر ہے وگرنہ اگر کہیں بھارت کی جگہ پاکستان ہوتا تو اب تک بین الاقوامی دنیا میں روز سکھوں کی آزادی کی تحریک کے چرچے ہونے تھے۔ بہرحال اب بھی سکھوں سے کرید کر دل کی بات پوچھی جائے تو ماضی کی بازگشت ہی سنائی دیتی ہے۔ میں اسّی کے عشرے میں سٹیج ڈرامے لکھا کرتا تھا۔ وہ سٹیج ڈرامے آج کل کے سٹیج ڈراموں سے بہت مختلف ہوتے تھے۔ ان ڈراموں کی باقاعدہ ایک کہانی ہوتی تھی اور پھر ناچ گانے وغیرہ ان ڈراموں کا حصہ نہیں ہوتے تھے جیسا کہ آج کل ہوتا ہے۔ اس دور میں میں نے ایک سٹیج ڈرامہ تحریر کیا تھا جس کا نام تھا ’’سردار جی ان لاہور‘‘۔ میں تھوڑی سی اس ڈرامے کی کہانی بیان کروں گا تاکہ آپ کو یقین آ جائے کہ وہ ڈرامے آج کل کے ڈراموں سے واقعتاً مختلف ہوتے تھے۔ ’’سردار جی ان لاہور‘‘ کی کہانی کچھ اس طرح تھی کہ ایک سکھ کو اپنے باپ کی وصیت ذرا دیر سے موصول ہوتی ہے۔ اس خفیہ وصیت میں باپ اپنے بیٹے کو بتاتا ہے کہ تقسیم ہند سے پہلے لاہور کے اندرون شہر میں جو گھر وہ چھوڑ کر امرتسر آگئے تھے اس لاہور والے گھر کی دیوار میں اس نے ایک خزانہ دبا رکھا تھا۔ وصیت میں خزانہ کا نقشہ اور گھر کا پتہ وغیرہ بھی درج ہوتا ہے۔ ڈرامے کے مرکزی کردار سردار جی کو یہ وصیت اس وقت موصول ہوتی ہے جب وہ لندن میں رہائش پذیر ہے‘ وہاں کی شہریت بھی لے چکا ہے اور گوری میم سے شادی بھی کر چکا ہے۔ اب ڈرامے میں سردار جی اپنی بیگم سمیت لاہور آتے ہیں۔ جس گھر میں خزانہ دفن ہے اس کے مالک سے زبردستی راہ ورسم پیدا کرتے ہیں اور زبردستی ہی ان کے گھر میں شفٹ ہوجاتے ہیں۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ صورتحال سٹیج ڈرامے میں کیسے کیسے دلچسپ مناظر کو جنم دے سکتی ہے۔ اپنے دور میں یہ بڑا کامیاب ڈرامہ تھا۔ سٹیج، ریڈیو اور ٹی وی کے نامور فنکار عرفان کھوسٹ اس ڈرامے کے ہدایتکار تھے اور خود ہی موصوف نے سردار جی کا کردار اس خوبی سے کیاتھا کہ میں نے آج تک سٹیج پر سردار جی کا ایسا زوردار کردار کرتے کسی اور فنکار کو نہیں دیکھا۔ اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔ جب ’’سردار جی ان لاہور‘‘ سٹیج پر پیش کیا جارہا تھا تو اس زمانے میں بھارت سے سکھ یاتری بھی پاکستان آئے ہوئے تھے۔ ان میں سے بہت سے سکھوں نے اپنے لاہور کے دورے کے دوران خاص طور پر یہ سٹیج ڈرامہ بھی دیکھا اور بہت پسند کیا۔ جب ڈرامہ ختم ہوتا تو کبھی کبھی اگر میں بھی وہاں موجود ہوتا تو سکھوں سے ملاقات بھی ہو جاتی تھی۔ وہ ’’دھنے واد‘‘ یعنی مبارکباد وغیرہ دیتے اور ڈرامے کی بڑی تعریف کرتے۔ ایک سردار جی سے وہاں میں نے ویسے ہی پوچھ لیا کہ سردار جی یہ خالصتان کا کیا سن رہے ہیں۔ سردار جی کا جواب تھا ’’کچھ نہیں جی۔ ایسے ہی کش لوکاں رولا پایا ہویا اے‘‘ یعنی کوئی بات نہیں ایسے ہی کچھ لوگوں نے بلاوجہ شور ڈالا ہوا ہے۔ بات ختم ہوگئی۔ کوئی آدھے گھنٹے بعد میں جب باہر نکلا تو وہی سردار جی اکیلے جارہے تھے۔ ان کے ساتھ جو چار پانچ اور سکھ تھے‘ وہ ذرا آگے تھے۔ سردار جی مجھے دیکھا تو آہستہ سے کچھ دیر پہلے کہی گئی اپنی بات کی تردید کردی۔ مجھے چونکہ معلوم تھا کہ ان سکھوں میں بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں لہٰذا میں فوراً بات سمجھ گیا اور مسکرا کر سردار جی کو رخصت کردیا۔ ان سکھوں میں بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹوں کی موجودگی کا ایک ثبوت ہمیں اس وقت ملا جب پتہ چلا کہ سکھوں کے ایک وفد نے حکام کو شکایت کردی ہے کہ لاہور میں سکھوں کے خلاف ایک سٹیج ڈرامہ چل رہا ہے۔ سکھ تو ہمارے سامنے ڈرامہ دیکھ کر اس کو پسند کررہے تھے مگر یہ شکایت کرنے والے‘ ظاہر ہے وہی لوگ تھے جن کو خاص کام کے لیے یہاں بھیجا جاتا تھا۔ ’’ڈرامہ سردار جی ان لاہور‘‘ کے تیس شو ہونے تھے۔ 27 شو ہوچکے تھے کہ حکومت نے ڈرامے پرپابندی لگا دی۔ اس کے بعد عرفان کھوسٹ کا کمال ہے کہ اس نے باقی تین شوز میں ڈرامے کا نام ’’سوالیہ نشان ان لاہور‘‘ رکھ دیا۔ اخبار میں اشتہار آتا ( in Lahore؟) اس کے بعد تھیٹر کا نام اور مصنف اور فنکاروں کے نام ہوتے تھے۔ جب بھی خالصتان کی بات ہوتی ہے تو اس ڈرامے کے حوالے سے سردار جی کی بات یاد آتی ہے۔ واقعی یہ حقیقت ہے کہ قوموں کی ایسی خواہشوں کو کسی طور بھی کچلا نہیں جاسکتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved