تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     14-12-2018

درد کی داستاں

کسی صاحبِ دل کی نگرانی میں چند درجن صنعت کار جمع ہو سکیں تو سینکڑوں برس سے چلی آتی درد کی یہ داستاں تمام ہو۔ حکومت کچھ نہیں کرے گی ، قطعاً نہیں کرے گی۔
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لا دوا نہ تھے
آئی ایم ایف کی شرائط مان لی گئیں ۔ بجلی مہنگی کر دی گئی۔ روپیہ اتنا سستا، جتنی خود سیاست ہے۔ گیس بھی گراں بلکہ نایاب۔ شاد ہیں ، سمندر پار استعماری آقا شاد ہیں۔ 
شوگر مل مالکان کی بھی مان لی ۔ چینی برآمد کرنے پر زرِ اعانت ملے گا۔ سرکاری اعلان میں یہ اشارہ بھی پوشیدہ ہے کہ مل مالکان کاشتکاروں سے جو سلوک کرتے آئے ہیں، وہ جاری رکھ سکتے ہیں۔ مطلب یہ کہ کاغذ پہ قیمت 180 روپے فی من لیکن عملاً 140 ہو گی۔ کٹوتی کے نام پر ڈکیتی کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔ دو چار مل مالکان کے سوا، جو پورا تولتے اور پوری قیمت چکاتے ہیں ، باقی اپنی روش جاری رکھ سکتے ہیں؛ حتیٰ کہ یومِ حساب آ پہنچے ۔ ماضی کے حکمرانوں کی طرح، اب جو ٹسوے بہا رہے ہیں۔ 
سبھی کی سن لی گئی لیکن سالہا سال کی چیخ و پکار کے باوجود تھر والوں کی شنوائی نہیں ہوتی۔ چیف جسٹس پرسوں مٹھی گئے، چیف منسٹر مراد علی شاہ کو ساتھ لے کر۔ دوا کے نام پر لال پیلی کچھ گولیاں رکھی تھیں۔ قاضی القضاۃ نے کہا: بہتر تھا کہ ہسپتال بند ہی کر دیا ہوتا۔ کہا جاتا ہے کہ سر جھکائے وہ کھڑے رہے۔ کہتے بھی تو کیا کہتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ افسروں اور حکمرانوں کی کھالیں موٹی ہو گئی ہیں۔ 
پندرہ برس پہلے میڈیا کو مکمل آزادی ملی تو خیال یہ تھا کہ دباؤ کے شکار افسر اور سیاسی لیڈر شاید انصاف کی طرف مائل ہوں۔ رفتہ رفتہ شاید افتادگانِ خاک پہ رحم فرمانے لگیں ۔ نتیجہ مگر الٹا نکلا۔ بے درد کچھ اور بے درد ہو گئے۔ فریب دہی کرنے والے کچھ اور فریبی ۔ وہ جو اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے: آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہو جاتے ہیں۔ سب کچھ سنائی دیتا ہے مگر نہیں دیتا۔ سب کچھ دکھائی دیتا ہے مگر نہیں دیتا۔ دل پتھر ہو جاتے ہیں بلکہ پتھروں سے بھی زیادہ سخت۔ رفتہ رفتہ، بتدریج ہم محض باتیں بنانے والا ایک معاشرہ بنتے جا رہے ہیں۔ معلوم نہیں اپنے آپ یا کرائے کے دانشوروں کی مدد سے بلاول بھٹو کبھی ایسی تقریر داغتے ہیں کہ اخبار نویس عش عش کر اٹھتے ہیں: کیا معرکے کا خطاب فرمایا ہے۔ کیا شاندار بات کی ہے۔ برخوردار کے نانا یاد آ گئے۔ 
پانچ برس ہوتے ہیں، تھر جانے کا موقعہ ملا۔ بالعموم اخبار نویس صحرا کنارے مٹھی کے قصبے تک جاتے اور ریگ زار میں جھانک کے لوٹ آتے۔ سوچا کوئی ایسی تدبیر ہو کہ ریگستان کے درون کو دیکھا جا سکے۔ سدرن کمانڈ کے سربراہ جنرل ناصر جنجوعہ کی عنایت سے کراچی کے کور کمانڈر سے رابطہ ہوا۔ وہ نہایت خوش مزاج اور وسیع القلب ثابت ہوئے۔ انکشاف کیا کہ سرکاری احکام سے پہلے ہی فوج کو انہوں نے صحرا میں پھیلا دیا اور مکینوں کی مدد کرنے کا حکم جاری کر دیا تھا۔ بے تکلفی کے ساتھ ان سے پوچھا کہ کیا وہ اس ناچیز کو دور دراز کے دیہات تک جانے کا موقع فراہم کر سکتے ہیں۔ بے ساختہ انہوں نے اثبات میں جواب دیا اور کہا کہ ابھی اس کا بندوبست وہ کیے دیتے ہیں۔ 
یہ ایک یادگار سفر تھا، جو کبھی بھلایا نہ جا سکے گا۔ جو خبر یہ اخبار نویس صحرا سے لے کر آیا، وہ فقط یہ نہیں تھی کہ اناج اور پانی سے محروم ، فاقہ کشی سے وہ مرتے رہتے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ ہولناک۔ 
اس کرّۂ خا ک کی کسی بستی میں وہ عذاب نہ اترا ہو گا، کئی عشروں سے تھر کے مکین جس سے دوچار ہیں۔ ایک کے بعد دوسری اور تیسری نسل اس طرح فاقہ کشی سے گزری ہے کہ اب انہیں بھوک ہی برائے نام لگتی ہے۔ ستے اور کھنچے ہوئے چہرے، دھنسی ہوئی آنکھیں، بادِ سموم سے جھلسی ہوئی جلد۔ اپنے کچّے گھروندوں میں وہ پڑے تھے یا کسی چھوٹے سے کیمپ میں۔ 
احتجاج اور سوال نہ کرتے تھے۔ کوئی اونچی آواز میں نہیں بولا۔ مدتوں پہلے اپنی امید وہ کھو چکے تھے۔ ایک گاؤں کے مکینوں سے اخبار نویس نے سوال کیا: کبھی کسی نے تمہارا حال پوچھا ہے؟ جواب کا خلاصہ یہ تھا: ہاں کبھی کسی زمانے میں ذوالفقار علی بھٹو نامی ایک آدمی نے اور پھر عذاب کے موسموں میں کبھی کبھی پاکستانی فوج نے۔ بھوک جب یلغار کرتی ہوئی آتی ہے، تب خاکی وردی والے نمودار ہوتے ہیں۔ اناج اور پانی کے ٹرک لیے۔ موسم بدلتا ہے تو وہ چلے جاتے ہیں۔ 
ایک ایرانی شاعر نے کہا تھا: 
دور ایک صحرا ہے 
جس میں کچھ بھی نہیں اگتا
موت اور ویرانی کے سوا
جس میں کوئی چیز حرکت نہیں کرتی 
دس پندرہ لاکھ آدمی ہیں۔ دو ہزار برس پہلے تک یہ برصغیر کے زرخیز ترین خطوں میں سے ایک تھا۔ دریائے سرسوتی ٹھاٹھیں مارتا ہوا گزرتا، اس کے کناروں پہ بستیاں تھیں۔ آنگنوں میں ہنستے ہوئے ہاتھوں والے بچّے کھیلتے اور سہاگنیں گیت گاتیں۔ قصہ گو کہانیاں کہتے اور دور دراز کی سرزمینوں سے تجارت کرنے والے اجنبی سرزمینوں کے حیرت انگیز واقعات بیان کیا کرتے۔ 
پھر وہ حادثہ برپا ہوا، جو زمین کے کتنے ہی خطوں پہ بیت گیا ہے۔ چولستان کی طرح، جو کبھی دریائے گھاگھرا سے شاداب تھا۔ عرب صحراؤں کی طرح، جن کی ہریالی زلزلے اور آتش فشاں چاٹ گئے۔ 
ماہرین یہ کہتے ہیں کہ کبھی کسی بھی وقت، ممکن ہے، آئندہ دس برس میں موسموں کا الٹ پھیر ایک دوسری ہی خبر لائے۔ اس بات کا پورا امکان موجود ہے کہ پوٹھوہار کی طرح تھر ایک بار پھر سے آباد ہونے لگے۔ حیرت اور رنج سے آدمی سوچتا ہے۔ اگر اس وقت بھی یہی پیپلز پارٹی، یہی نون لیگ، یہی پی ٹی آئی، یہی جاگیردار اور وڈیرے حکمران ہوئے تو تھر کی سبز ہوتی سرزمین کے لیے کیسی جنگ لڑی جائے گی۔ 
چودہ سو برس ہوتے ہیں، بھیک مانگتے ہوئے ایک یہودی کو عمر ابنِ خطابؓ نے دیکھا۔ وہ اس کے پاس تشریف لے گئے اور حیرت کا اظہار کیا۔ اس نے کہا: بوڑھا ہوں، بہن بھائی چل بسے‘ اولاد ہے نہیں۔ پھر عمرؓ کو جزیہ بھی تو دینا ہوتا ہے ۔ بھیک نہ مانگوں تو کیا کروں۔ خطاب کے فرزندؓ کا دل رو دیا۔ مدینہ پہنچے تو فوراً ہی مجلسِ مشاورت طلب کی۔ فوراً ہی تحفظ کے اس نظام کا دائرہ غیر مسلموں تک بڑھانے کا فیصلہ ہوا، بیسویں صدی میں جسے سوشل سکیورٹی سسٹم کا نام دیا گیا۔ 
تھر ایسا بھی بے دست و پا نہیں۔ ایسا بھی مفلس نہیں کہ سنبھالا اور سمیٹا نہ جا سکے۔ بارش برستی ہے تو حدِ نظر تک پھول کھل اٹھتے ہیں۔ ''گوارا‘‘ کی فصل اس ٹھاٹ سے اٹھتی ہے کہ آمدن گندم سے بڑھ جاتی ہے۔ 
صحرا سے پرے سمندر کنارے ایک شہر ہے، کراچی جس کا نام ہے۔ ایسا ایسا اہلِ خیر وہاں پڑا ہے کہ ہزاروں آدمیوں کو روز کھانا کھلاتا ہے۔ لاہور، فیصل آباد اور گوجرانوالہ کے مکین بھی کوئی ایسے سخت دل نہیں۔ سیلاب اور قحط کے زمانے میں اہلِ ایثار بے تابانہ اٹھتے ہیں۔ کوئی ادارہ چاہیے، خلقِ خدا کے نام پہ سرمایہ سمیٹنے اور ریا کاری کی زندگیاں بسر کرنے والی کوئی این جی او نہیں بلکہ شہریوں کا کوئی ادارہ چاہیے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب ایسے کسی صاحبِ دل کی نگرانی میں کراچی کے چند درجن صنعت کار جمع ہو سکیں تو سینکڑوں برس سے چلی آتی درد کی یہ داستاں تمام ہو۔ حکومت کچھ نہیں کرے گی ، قطعاً نہیں کرے گی۔
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لا دوا نہ تھے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved